قطبِ جنوبی تک پہنچنا انسانی تاریخ کا اہم سنگِ میل تھا۔ یہ کام کرنے والے مہم جو ۔۔ ایمونڈسن، سکاٹ، شیکلٹن اور دوسرے ۔۔ تاریخی شخصیات ہیں اور ان کی کامیابیوں اور ناکامیوں پر ایڈونچر کی زبردست کہانیاں لکھی جا چکی ہیں۔ دسمبر 1911 کو یہاں پہلی بار پہنچا گیا۔ مہمات میں تمام لوگ زندہ نہں بچے۔ شدید سردی، خوراک کی عدم دستیابی، منہ زور سمندر اور کپڑے اس کام میں بڑی رکاوٹ تھے۔ ان کے مخالف ایک اور رکاوٹ گیس کے قوانین تھے۔
اینٹارٹیکا کا مرکز بلند اور خشک سطحِ مرتفع ہے۔ برف کی تہوں سے ڈھکا ہوا لیکن برفباری یہاں پر شاذ ہی ہوتی ہے۔ یہ برف کا صحرا ہے۔ چمکدار سفید سطح یہاں پڑتی نخیف و نزار دھوپ کا بڑا حصہ ویسے ہی منعکس کر دیتی ہے اور درجہ حرارت منفی 80 درجے سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ خاموشی ہے۔ اور یہاں کی فضا بھی سست ہے۔ سردی کی وجہ سے ہوا کے مالیکیولز میں توانائی کم ہے۔ یہ مقابلتاً ذرا سست رفتار ہیں۔
ہوا جب اوپر سے سطح مرتفع پر اترتی ہے تو برف اس کی توانائی چرا لیتی ہے۔ سرد ہوا مزید سرد ہو جاتی ہے۔ چونکہ پریشر مستقل ہے تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اس کا حجم کم ہو جاتا ہے اور کثافت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کثافت میں اضافے کا مطلب یہ کہ مالیکیول آپس میں قریب قریب آ جاتے ہیں۔ سست رفتاری کی وجہ سے یہ باہر کی اس ہوا پر اتنا دباوٗ نہیں ڈال سکتے جو انہیں قریب قریب دھکیل رہی ہے۔
اس برِاعظم میں زمین اس طرح ہے کہ مرکز میں اونچائی ہے اور یہاں سے سمندر کی طرف ڈھلوان ہے۔ تو یہ سرد اور کثیف ہوا سطح کے ساتھ ساتھ مرکز سے سمندر کی طرف لڑھکنے لگتی ہے۔ جیسے کوئی آبشار ہو۔ یہ ہوا ہمیشہ مرکز سے سمندر کی ست چلتی ہے۔ یہ اینٹارٹیکا کی کاٹابیٹک ہوائیں ہیں۔ اور اگر آپ قطبِ جنوبی کی طرف سفر کر رہے ہیں تو ہمیشہ آپ کے چہرے پر یہ تیز اور سرد ہوا آپ کی سمت کے مخالف ٹکرا رہی ہو گی۔
یہ قطبِ جنوبی کے مہم جووٗں کے ساتھ کھیلی گئی فطرت کی ظالم کھیل تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اینٹارٹیکا میں چلنے والی ہوائیں کسی بھی دوسرے برِاعظم کے مقابلے میں تند و تیز ہیں۔ ساحل کے قریب زیادہ تیز جبکہ قطبِ جنوبی کے قریب ان کی رفتار کم ہوتی ہے۔ نہ کوئی عمارت، نہ درخت اور نہ کوئی اور رکاوٹ۔ ساحلِ سمندر پر یہ 200 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد تک پہنچ سکتی ہیں۔ اتنی تیز رفتار کہ ساحل کے قریب جمنے والی تیرتی سمندری برف کو بنتے ساتھ ہی دور لے جاتی ہیں اور جب فضا کا درجہ حرارت منفی 20 ڈگری ہو، تب بھی سمندر برف سے خالی رہتا ہے۔ اس تیز ہوا میں اڑتے برف کے ذرات کئی بار جن نت نئی آوازوں کو جنم دیتی ہے ۔۔۔ یہ وہ تجربہ ہے جسے محسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔
ڈھلوان پر لڑھکتی ہواوٗں کا مظہر ہمیں دنیا کے کئی مقامات پر نظر آتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمالیہ کے بلند پہاڑ پر گرمی کے پرسکون دن میں سورج کے کرنیں پڑ رہی ہیں اور پہاڑ کو گرم کر رہی ہیں۔ یہ گرمی اس کے قریب فضا میں منتقل ہو رہی ہے۔ اتنی ہی بلندی پر فضا کا وہ حصہ جو پہاڑ سے دور ہے، کم درجہ حرارت پر ہے۔ پہاڑ کا زمین پر ڈالے جانے سائے کا مطلب یہ ہے کہ کم بلندی والا حصہ بھی دھوپ سے محروم رہ کر سرد ہے۔
چوٹی پر ہوا گرم ہو چکی۔ اس نے کنوکشن کی وجہ سے بلند ہونا شروع کیا۔ یہاں پر ہوا کا دباوٗ کم ہو گیا۔ اس کو پر کرنے کے لئے نیچے سے ہوا بلند ہونے لگی۔ پہاڑ کی ڈھلوان پر چڑھتی یہ ہوا این ایباٹک ہوا کہلاتی ہے۔ اور اٹھتی ہوا جب اپنے ڈیو پوائنٹ سے کم پر پہنچ جاتی ہے تو کمولیس بادل بنتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوٹی کی طرف آنے والی ہوا کے اس مظہر کو گلائیڈر پائلٹ اپنے جہاز کو بلند کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
اور یہ برِصغیر میں سالانہ ایک خاص موسم میں آنے والے مون سون کی ایک وجہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیٹ ایباٹک ہوا
این ایباٹک ہوا