کووڈ ۱۹ کی عالمی وبا کے بعد زندگی پہلے جیسی نہیں رہی۔ اس کو واپس لانے کے لئے ویکسین کی تلاش کی جاری ہے۔ یہ تحقیق اس وقت دنیا کی ترجیحات میں اول نمبر پر ہے اور جس قدر تیزی سے کام ممکن ہو سکتا ہے، کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کی کمرشل پیمانے پر پروڈکشن کے لئے ہم ایک سے دو سال سے کم کے وقت کی توقع نہیں رکھتے۔ ویکسین اس کا مستقل علاج ثابت ہو سکتی ہے لیکن یہ واحد کام نہیں جو کہ کیا جا رہا ہے۔ زندگی کو واپس نارمل پر آنے کا سب سے جلد طریقہ پہلے سے موجود ادویات کے نئے استعمال (repurposed drugs) کا ہے اور ان کے ٹرائل کئی جگہوں پر جاری ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کووڈ ۱۹ کا سبب بننے والے کرونا وائرس کی شناخت اسی سال جنوری میں ہوئی تھی۔ لیکن کرونا وائرس نیا نہیں۔ سائنسدان اس خاندان کو 1960 کی دہائی سے جانتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نامعلوم حریف نہیں۔ اور اس کے بارے میں اب تک کی سمجھ سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ جب یہ نیا سٹرین نمودار ہوا تو ہم اس کی بنیادی بائیولوجی کو جانتے تھے۔ اس وائرس (سارس کرونا وائرس 2) کا سٹرکچر بڑی حد تک دوسرے کرونا وائرس سے مشابہہ ہے۔ اور اس کی بائیولوجی اور سٹرکچر کی سمجھ کی وجہ سے ہمیں اندازہ ہے کہ اس پر حملہ کس رخ سے کیا جا سکتا ہے۔
اس وائرس کی باہری ممبرین لِپڈ سے بنی ہے۔ اس کی باہری تہہ کے اوپر کانٹوں کی طرح کی سپائیک پروٹین ہیں۔ (اس کا نام انہی کی وجہ سے بننے والی تاج جیسی شکل کی وجہ سے کرونا وائرس ہے)۔ اس کے اندر آر این اے کا مالیکیول ہے۔ یہ ڈی این اے کی طرح کا مالیکیول ہے جس پر وائرس کا جینوم لکھا ہوا ہے۔ جب وائرس جسم میں داخل ہوتا ہے تو سپائیک پروٹین پھیپڑوں کی نالی میں خلیوں کی سطح کے ساتھ جڑ جاتی ہیں۔ اور یہ ممکن کرتا ہے کہ وائرس مریض کے خلیوں کے اندر داخل ہو سکے۔ خلیے کے اندر جا کر یہ آر این اے کو خلیے میں داخل کر دیتا ہے جس میں وائرس کے جین ہوتے ہیں۔ یہ جین خلیے کی پروٹین بنانے والی مشینری کو ہائی جیک کر لیتے ہیں۔ اور ان سے مزید وائرس کے پارٹیکل بنانے کے بلڈنگ بلاک بننے لگتے ہیں۔ ایک خاص جین جس کو ریپلیکیس (replicase) کہا جاتا ہے، مالیکیول مشین بنانے کی ہدایات دیتی ہے جس سے وائرس کا آر این اے کاپی ہوتا ہے۔ ایک خلیے میں ایک ہزار کے قریب نئے وائرس پارٹیکل بن سکتے ہیں جو پھر خلیے سے باہر نکل جاتے ہیں اور دوسرے خلیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہ عمل وائرل ہو جائے تو کروناوائرس کا میزبان بیمار پڑ سکتا ہے۔
اور یہ ریپلیکیس سسٹم اس بیماری کا علاج ڈھونڈنے والے سائنسدانوں کے نشانے پر ہے۔ اگر اس کے مکینزم میں خلل ڈالا جا سکے تو بیماری روکی جا سکتی ہے اور یہ علاج کی سب سے بڑی امید ہے۔ صحت مند انسانی خلیے کبھی بھی خلیے کے اندر آر این اے کی کاپی نہیں کرتے۔ اس وجہ سے اگر اس سسٹم میں رکاوٹ ڈالی جا سکے تو امید یہ ہے کہ اس سے انسانی خلیے کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
اب اگلا سوال۔۔۔ یہ کام کیسے کیا جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر نئے سرے سے دوائی بنائے جائے جو ایسا کام کر سکے اور اس کے محفوظ ثابت کئے جانے کے ضروری ٹرائل مکمل ہونے تک کا عرصہ مہینوں یا برسوں لے سکتا ہے اور وبا کے دوران تحقیق کے ہر اضافی مہینے کا مطلب اضافی اموات ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ اس وقت بڑی توجہ پہلے سے موجود ادویات کے ٹرائل پر ہے۔ اگر کوئی ایسی دوا موجود ہے تو ہم اس کے انسانوں پر اثر اور مضر اثرات سے واقف ہیں۔ اور اس طریقے سے علاج تک پہنچنے کا عمل بہت جلد اور تیزی سے ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ممکنہ ادویات کونسی ہیں؟ ایک امید ریمڈیسیور (remdivisir) سے ہے۔ اس کو ایبولا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے ڈویلپ کیا گیا تھا۔ اور اس کا طریقہ ریپلیکیس سسٹم کو بلاک کرنے کا تھا۔ اور اس کے ٹرائلز سے معلوم ہوا تھا کہ یہ انسانوں کے لئے محفوظ ہے۔ لیکن اس سے بہتر علاج مل جانے کی وجہ سے اس کو سردخانے میں ڈال دیا گیا تھا۔ ریمڈیسیور کے مالیکیول آر این اے کاپی کرنے والے ریپلیکیس سسٹم کے مالیکیولز کی شکل کے ہیں۔ جب یہ ڈرگ خلیے میں جاتی ہے تو وائرس اپنے کاپی بنانے کے لئے ان کو استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ کام نہیں کرتا۔ وائرس کی اپنی کاپیاں بنانے کی رفتار سست پڑ جاتی ہے اور یوں بیماری کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
دوسری ادویات بھی ہیں، جن سے امید ہے کہ وائرس کے لئے کاپی بنانے کا کام مشکل ہو جائے۔ ایک دوا کالیٹرا (Kaletra) ہے۔ یہ دوا ایچ آئی وی کے مریضوں کے لئے دوسری تھراپی کے ساتھ ملا کر استعمال کی جاتی ہے۔ اس کا سارس کی 2003 کی وبا میں تجربہ کیا گیا تھا اور ایسا لگا تھا کہ کچھ فرق ڈال سکتی ہے۔ یہ دوا ان انزائم کو نشانہ بناتی ہے جو وائرس کی کاپی ہونے کے دوران بڑے پروٹین کو چھوٹے پروٹین میں تبدیل کرتے ہیں۔ اگر اس کو روک دیا جائے تو بھی وائرس کو خلیے میں پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔
ایک اور دوا اینٹی ملیریا کلوروکین ہے۔ ایک اور اینٹی ملیریل دوا ہائیڈروکلوروکوکین ہے جس کا چرچا امریکی صدر کرتے رہے ہیں۔ وہ بھی ایسا ہی کام کرتی ہے تاہم امریکی صدر کا اس بارے میں جوش ضرورت سے زیادہ اور کم علمی کی بنیاد پر رہا ہے۔ لیبارٹری میں لگتا ہے کہ کلوروکین وائرس کے پارٹیکل کی خلیے میں گحُس جانے کی اہلیت میں فرق ڈالتی ہے۔ ابھی تک مریضوں پر تجربات سے زیادہ مضبوط شواہد سامنے نہیں آئے کہ یہ کووڈ ۱۹ میں موثر ہے یا نہیں۔ ابھی حتمی جواب معلوم نہیں۔ ایک اور تھراپی انٹرفرنوبیٹا ہے جو کو ایڈز کی ادویات لوپیناویر اور ریٹوناویر کے ساتھ ملا کر دیا جا رہا ہے اور دفاعی نظام کو وائرس کو مفلوج کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ اس نے کرونا وائرس کی ایک اور مہلک وبا، مرس، میں فائدہ دیا تھا۔
عالمی ادارہ صحت کے مارچ میں شروع کئے گئے ایک بڑے عالمی میگا ٹرائل کے تحت ان طریقوں کا ٹرائل کیا جا رہا ہے۔ اس ٹرائل کا ڈیزائن غیرروایتی ہے۔ یہ ڈبل بلائنڈ سٹڈی نہیں۔ یعنی دوا دینے والے جانتے ہیں کہ وہ کونسی دوا دے رہے ہیں۔ اس میں پانچ گروپس بنائے گئے ہیں۔ ایک بغیر دوا کے اور باقی گروپس کو ان میں سے ایک تھراپی۔ اگرچہ طریقہ روایتی نہیں لیکن جلد نتائج دیکھنے تک پہنچنے کے لئے رفتار کو ترجیح دی گئی ہے۔ اور نتیجے تک پہنچنے میں یہ مددگار ہو گا کہ شرکاء کی تعداد زیادہ ہے۔ ان سے علاج کے فائدے کو دیکھنا آسان ہو سکے گا۔ سائیڈ ایفیکٹ دیکھنا آسان ہو گا۔
پھر اس اکٹھی ہونے والی معلومات کے نتیجے میں اس میں مدد مل سکے گی کہ مریضوں کی مدد کی جا سکے۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہو سکے کہ مریض کی انفیکشن کے دن کم ہو سکیں تو یہ بہت ہی اہم کامیابی ہو گی۔ نہ صرف جان بچائی جا سکے گی بلکہ پھیلاوٗ بھی روکا جا سکے گا۔ اس میں ہونے والی معمولی کمی بھی مجموعی طور پر بڑا فائدہ دے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس عالمی ٹرائل کے علاوہ پہلے سے موجود کئی دوسری ادویات ایسی ہیں جن کی بطورِ امیدوار شناخت کی جا چکی ہے اور کئی ممالک میں کلینکل ٹرائل کئے جا رہے ہیں۔ (تفصیل نیچے لنک سے)۔
موثر ویکسین واحد طریقہ ہے جس سے اس وائرس پر قابو پا لیا جائے لیکن جب تک اس میں کسی کامیابی کا انتظار کیا جائے، اگر پہلے سے موجود ادویات سے اس کو روکنے کا طریقہ مل سکے، زیادہ سنجیدہ کیسز میں مدد کی جا سکے، شرحِ اموات کو کم کیا جا سکے تو مریض، ڈاکٹر اور دنیا ۔۔۔ واپس نارمل ہونے کی طرف جلد بڑھ سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان ادویات اور تحقیق کے بارے میں
عالمی ادارہ صحت کے تحت ہونے والی عالمی ٹرائل کے بارے میں