اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ آمدنی والا گلوکار کون ہے؟
فوربز کے مطابق یہ ٹیلر سوئفٹ ہیں جن کی 2019 کی آمدنی 185 ملین ڈالر تھی۔
انیسویں صدی کے آغاز پر اس سوال کا جواب شاید الزبتھ بلنگٹن ہوتا۔ برطانوی گلوکارہ بلنگٹن کو تاریخ کا بہترین سوپرانو کہا جاتا ہے۔ ان کے مداح بہت تھے اور ان کی سوانح عمری ایک روز سے بھی کم میں فروخت ہو گئی تھی۔ ان کی پرفارمنس دیکھنے کے لئے اوپرا ہاوٗس میں بکنگ کی قطاریں ہوا کرتی تھیں اور اوپرا ہاوس بلنگٹن کو کھینچنے کے لئے بڑھ چڑھ کر معاوضے کی بولی دیا کرتے تھے۔ ان کی آواز نے انہیں بہت امیر کر دیا تھا۔ اور ان کی آمدنی 1801 میں دس ہزار پاوٗنڈ تھی جو آج کے حساب سے 1 ملین ڈالر کے قریب بنتا ہے۔ ٹیلر سوئفٹ کے آمدنی کا تقریباً آدھا فیصد۔
آخر فرق کیا ہے؟ ٹیلر سوئفٹ کی آمدنی الزبتھ بلنگٹن کی آمدنی سے دو سو گنا زیادہ کیوں ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الفریڈ مارشل نے 1875 میں ٹیلی گراف سے ہونے والے اثر کا اندازہ لگایا۔ اس وقت تک امریکہ، برطانیہ، انڈیا اور آسٹریلیا کو ٹیلی گراف سے منسلک کیا جا چکا تھا۔ انہوں نے لکھا کہ “اس ایجاد کی وجہ سے جو کسی شعبے میں غالب ہیں، ان کا غلبہ وسیع تر ہو جائے گا۔ دنیا کے بہترین صنعتکاروں ہوں یا کاروباروں کا اوسط درجے سے فرق بڑھنے لگے گا۔ لیکن یہ اثر ان پیشوں تک نہیں پہنچ سکتا جو اس ٹیکنالوجی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے جیسا کہ گانے والے”۔
الفریڈ مارشل کی اس پیشگوئی سے دو سال بعد تھامس ایڈیسن نے فونوگراف ایجاد کر لیا۔ یہ مشین انسانی آواز ریکارڈ کر سکتی تھی اور اس کو دہرا سکتی تھی۔ لیکن کسی کو علم نہیں تھا کہ اس ٹیکنالوجی کے ساتھ کیا کیا جائے۔ ایک تجویز وصیت ریکارڈ کرنے کی آئی، ایک ڈکٹیشن دینے کی۔ ایڈیسن کا خیال تھا کہ یہ شاید کسی کام نہ آئے۔
لیکن پھر اس کا استعمال موسیقی میں نظر آ گیا۔ ابتدا کی ریکارڈنگ آسان نہیں تھی۔ ایک ریکارڈنگ میں تین سے چار کاپیاں بنتی تھیں۔ 1890 کی دہائی میں مشہور سیاہ فام امریکی آرٹسٹ جارج جانسن نے ایک دن میں پچاس بار گانا گایا۔ ان کا گلا بیٹھ گیا اور اس سے دو سو ریکارڈ تیار ہوئے۔
اگلی ایجاد ایملی برلینر نے کی جس میں ریکارڈنگ ڈسک پر کی جاتی تھی۔ ایک ریکارڈ سے دوسرے کی کاپی بنا سکنے نے اس کی وسیع پیمانے پر مارکیٹ کھول دی۔ چارلی چیپلن جیسے فنکار اب پوری دنیا تک پہنچنا شروع ہو گئے۔
نئی ٹیکنالوجی کا مطلب زیادہ شہرت اور زیادہ آمدنی تھا۔ لیکن وہ فنکار جو صفِ اول کے نہیں تھے، ان کے لئے یہ ایجاد تباہ کن رہی۔ ہر کوئی بہترین فنکاروں کو دیکھنے نہیں جا سکتا تھا، عام فنکاروں کو بھی دیکھنے اور سننے والے تھے۔ لیکن اگر آپ گھر میں بہترین کو سن سکتے ہیں تو ایک محض اچھے فنکار کو سننے کے لئے پیسے کیوں خرچ کئے جائیں۔
تھامس ایڈیسن کی اس دریافت نے بہترین فنکار اور اچھے فنکاروں کے درمیان ایک وسیع فرق پیدا کر دیا۔ بہترین سپرسٹار سوچ سے بھی زیادہ امیر ہونے لگے۔ وہ جو بہترین سے معمولی سے کم درجے والے کا تھا، اس کے لئے گزارا بھی مشکل ہو گیا۔ اس فرق کو اکانومسٹ شرون روزن نے “سپرسٹار اکانومی” کہا ہے۔
پاک و ہند میں قصہ گوئی، مزاح، اداکاری، رقص اور نغمہ سرائی کا فن خاندانوں میں وراثت میں آگے منتقل ہوتا تھا۔ اس میراث کو آگے بڑھانے والے خاندانوں کے ساتھ بھی ایسی ہی تفریق پیدا ہو گئی۔ چند سپرسٹار ہوئے۔ باقی کے لئے ان کے پیشے کا لفظ بھی تحقیر کا ٹھہرا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ صرف گلوکاروں کے ساتھ نہیں ہوا۔ جو کام ٹیلی گراف نے صنعتکاروں کے ساتھ کیا، گراموفون نے گلوکاروں کے ساتھ، وہی کام سیٹلائیٹ ٹی وی نے کھلاڑیوں کے ساتھ کیا۔ چند دہائیوں پہلے بہترین کھلاڑی کو بھی سٹیڈیم میں ہی دیکھا جا سکتا تھا۔ اب فٹبال، کرکٹ، ٹینس، ایتھلیٹکس یا کسی بھی اور کھیل کے کھلاڑی کی ہر حرکت کو دیکھا جا سکتا ہے۔ دوبارہ، کئی زاویوں سے بار بار دیکھا جاتا ہے۔ اور یوں سیٹلائیٹ ٹی وی نے کھلاڑیوں کو سپرسٹار بنا دیا۔ ان کی اہمیت معاشرے میں کہیں زیادہ ہو گئی کیونکہ ان تک رسائی صرف سٹیڈیم جانے والوں تک محدود نہیں رہی۔
ٹی وی چینلز کی تعداد زیادہ ہو جانے کے بعد دکھانے کے حقوق حاصل کرنے پر زیادہ سے زیادہ بولی لگانے کی جنگ شروع ہوئی جس نے بہترین کھلاڑیوں کو بہت امیر کر دیا۔ سپرسٹار اور سٹار کے درمیان آمدنی کی خلیج بہت زیادہ کر دی۔ کیونکہ ہر کوئی بہترین کھلاڑیوں کو دیکھنا چاہتا ہے۔ بہترین سے تھوڑے سے کم کھلاڑی کو نہیں۔
ٹیکنالوجی کی تبدیلی اچانک ہی ڈرامائی تبدیلیاں پیدا کر دیتی ہے اور ان کو ہضم کرنا آسان نہیں ہوتا۔ لوگوں کی مہارت میں فرق تو نہیں پڑا لیکن آمدنی میں بہت زیادہ پڑ گیا۔ کچھ کے لئے مثبت، کچھ کے لئے منفی۔ اور اس کے مقابلے میں کیا کیا جائے؟ اس کا کوئی آسان جواب نہیں۔ اور یہ غیرمساوانہ تقسیم کسی حکومتی پالیسی، ٹیکس کوڈ، کسی پریشر گروپ، بڑے اداروں کی اجارہ داری کی وجہ سے نہیں۔ اس لئے اس میں کوئی شے نہیں جس کے خلاف احتجاج کیا جائے۔ مثلاً، گوگل یا فیس بک پر پابندی اس لئے نہیں لگائی جا سکتی تا کہ اخباری رپورٹر کی روزی کو بچایا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسویں صدی میں نئی ایجادات، جیسا کہ کیسٹ، سی ڈی، ڈی وی ڈی وغیرہ نے گراموفون کا ماڈل برقرار رکھا۔ اور پھر انٹرنیٹ اور ایم پی تھری آ گئی۔ اب آن لائن گانے سنے جا سکتے تھے اور اکثر مفت۔ اس نے اس کاروبار کو ایک بار پھر بدل دیا۔ لیکن اس وقت فنکاروں کے شعبے میں ٹاپ کے ایک فیصد نیچے کے پچانوے فیصد کی کل آمدنی کے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ آمدنی رکھتے ہیں اور ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ فرق مزید بڑھ رہا ہے۔
گراموفون تو گزر گیا لیکن ٹیکنالوجی کی مدد سے جیتنے اور ہارنے والوں کے درمیان کی وسیع خلیج ہمارے ساتھ رہے گی۔
اس سب کا بیج بونے والا گراموفون ہماری دنیا پر، لوگوں کی وصیت ریکارڈ کرنے سے کہیں زیادہ گہرا اثر رکھنے والی ایجاد تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...