بہادر شاہ ظفر کے مسائل میں سے ایک ان کے حرم کی خواتین اور ان کا آپس کا تناوٗ تھا۔ جب وہ بادشاہ بنے تو ملکہ عالیہ تاج محل بیگم بنیں۔ لیکن یہ پوزیشن بہت دیر برقرار نہیں رہی۔ چونسٹھ برس کی عمر میں انہوں نے انیس سالہ زینت محل سے شادی کی تھی اور چند ہی ماہ میں نئی بیگم نے تاج محل کی جگہ لے لی۔ بادشاہ نے اس کے بعد چند مزید خواتین حرم میں داخل کیں لیکن زینت محل ان کی پسندیدہ بیوی رہیں۔ بہادر شاہ ظفر کے 16 بیٹے اور 31 بیٹیاں تھیں۔ آخری بیٹے مرزا شاہ عباس کی پیدائش جب ہوئی تو بہادر شاہ ظفر ستر برس کے تھے۔
بادشاہ کے بیٹوں کی زندگی اچھی تھی اور وہ اپنے شوق پورے کر سکتے تھے لیکن لال قلعے کے کوارٹروں میں دو ہزار سے زیادہ جونئیر سلاطین بھی رہائش پذیر تھے۔ یہ پچھلے بادشاہوں کے پوتے اور پڑپوتے تھے یا ان کی بھی آگے نسل سے تھے۔ ان کی زندگی اکثر غربت میں گزرتی تھی۔ کبھی محل سے چوری چکاری کے الزام میں چوبدار ان سلاطین کی پٹائی بھی کر دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ، سو سے زیادہ سلاطین نے ملکر برٹش ریزیڈنٹ کو خط لکھا تھا کہ ان کے حقوق کے لئے کچھ کیا جائے۔
بہادر شاہ ظفر کی کوشش تھی کہ وہ اپنے بعد اپنی مرضی کا جانشین کا تقرر کر سکیں۔ ان کے بڑے بیٹے دارا بخش کی وفات بخار آ جانے کے بعد 1849 میں ہو گئی۔ اگلا نمبر مرزا فخرو کا تھا۔ لیکن زینت محل کی خواہش اپنے بیٹے مرزا جوان بخت کو بنوانے کی تھی۔ یہ بیٹوں میں پندرہوں نمبر پر تھے اور عمر آٹھ سال تھی۔
انگریزوں نے ہندوستان میں حکمرانی کے وراثتی جھگڑوں سے نمٹنے کے لئے قانون بنایا تھا کہ کسی بھی فرمانروا کی موت کی صورت میں بڑا بیٹا حکمران ہو گا اور اس سے کوئی استثنا نہیں۔ نواب، راجہ، خان، مہاراجہ اور شاہ سب پر یہ لاگو تھا۔ 1832 میں اس میں یہ اضافہ کر دیا کہ اگر کسی مقامی حکمران کا کوئی بیٹا نہیں ہو گا تو اس علاقے کا انتظام کمپنی براہِ راست لے لے گی۔ اس کو doctrine of lapse کہا جاتا تھا۔
بہادر شاہ ظفر نے لیفٹیننٹ گورنر کو خط لکھ کر درخواست کی تھی کہ مرزا جوان بخت نہ صرف ان کے ہاتھوں سے تربیت پا رہا ہے بلکہ ان کی جائز بیوی کی اولاد بھی ہے، اس لئے ولی عہد جوان بخت کو بنانے کی اجازت دی جائے۔ یہ درخواست دلچسپ اس لئے تھی کہ بہادر شاہ ظفر کا بادشاہ بننا بھی اسی قانون کے مرہونِ منت تھا۔ بہادر شاہ ظفر کے والد اپنے بڑے بیٹے سے ناخوش تھے اور انہوں نے بھی انگریز سرکار کو خط لکھا تھا کہ ولی عہد کو تبدیل کرنے کی اجازت دی جائے جو مسترد کر دی گئی تھی۔
ولی عہد مرزا فخرو نے انگریزی سیکھنی شروع کر دی تھی۔ اور انگریز افسروں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے انگریز لیفٹیننٹ جنرل سے بات طے کر لی تھی کہ وہ انہیں بادشاہ بننے دیں تو وہ دو سو سال سے مغل بادشاہت کا مرکز لال قلعہ انگریزوں کے حوالے کر کے مہروالی منتقل ہو جائیں گے۔ انگریز اسے اسلحہ ڈپو، فوجی بیرک اور انتظامی مرکز کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ دوسری بات فخرو نے یہ طے کر لی تھی کہ وہ مغلوں کے پرانے دعوے سے دستبردار ہو جائیں گے کہ مغل برٹش گورنر جنرل سے بالاتر ہیں اور برابری کو رسمی طور پر تسلیم کر لیں گے۔
بہادر شاہ ظفر کو جب اس معاہدے کا علم ہوا تو فخرو پر بہت غصہ کیا۔ ان کا مشاہرہ بند کر دیا۔ سرکاری پوزیشنوں سے معزول کر دیا۔ ان کی جائیداد چھوٹے شہزادوں کے حوالے کر دی۔ لوگوں کو ان کا بائیکاٹ کرنے کو کہا۔ لیکن جب آہستہ آہستہ واضح ہو گیا کہ کچھ نہیں ہو سکتا تو ظفر مایوسی کا شکار ہو گئے۔ انہوں نے میٹکاف کو لکھا کہ “میری ہر خواہش رد کر دی جاتی ہے اور یہ میرے لئے ناخوشی کا باعث ہے۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں بادشاہت چھوڑ کر حج کرنے مکہ چلا جاوٗں اور باقی ایام وہیں گزاروں۔ اس دنیا تو میں ہار چکا ہوں لیکن کہیں اگلی دنیا میں بھی نہ ہار جاوٗں”۔
بعد میں انہوں نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔
تھامس میٹکاف چالیس سال سے دہلی میں تھے۔ اپنے پیشرووٗں کے برعکس مغل پگڑی اور لباس نہیں پہنتے تھے اور نہ ہی پچھلے برٹش ریزیڈنٹ ڈیوڈ اوکٹرلونی کی طرح تھے جنہوں نے ہندوستان میں تیرہ شادیاں کی تھیں اور ہاتھیوں کے قافلے پر سیر کرنے نکلتے تھے جس میں ہر بیوی کا اپنا اپنا ہاتھی تھا۔ میٹکاف کی بیوی فوت ہو چکی تھیں۔ وہ اکیلے رہا کرتے تھے۔ نہ کوئی شوق رکھا ہوا تھا۔ کام میں جٹے رہا کرتے تھے۔ دہلی کے آرٹ سے دلچسپی تھی۔ دہلی آرکیولوجیکل سوسائٹی بھی انہوں نے شروع کی تھی جس کے ایک پرجوش ممبر سید احمد خان تھے۔ اس سوسائٹی کے رسالے کا انگریزی ترجمہ خود کیا کرتے تھے۔
جہاں پر دوسرے برٹش افسران ہندوستان میں تعیناتی کو عارضی سمجھتے تھے، میٹکاف نے یہاں مستقل رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ان کے لئے یہی گھر تھا۔ دہلی میں اپنے لئے گھر تعمیر کروائے تھے۔ بہادر شاہ ظفر سے دوستانہ روابط تھے۔ ان کا انتقال 1853 میں ہوا۔
تھامس میٹکاف کے بیٹے تھیو میٹکاف جو کہ مجسٹریٹ بنے اور انہیں “کانا میٹکاف” کہا جاتا تھا۔ 1857 میں ان کا سفاکانہ کردار ایک وجہ رہی کہ برٹش پارلیمنٹ نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے 1858 میں اختیارات چھین لئے اور ہندوستان کو براہِ راست تاجِ برطانیہ کے ماتحت کر دیا۔
ساتھ لگی تصویر مرزا فخرو کی پینٹنگ ہے، جو مغل خاندان کی آخری ولی عہد تھے۔ 1856 میں ان کی وفات کے بعد کوئی ولی عہد نہیں بنا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...