تئیس مارچ 2021 کو ایک بحری جہاز نہرِ سویز میں پھنس گیا اور اس نے اس نہر کو ایک ہفتے کے لئے بند کر دیا۔ اس کی وجوہات کی تفصیل کا تعین ابھی کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس جہاز اور اس نہر کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟ ایک نظر اس پر۔
یہ نہر 193 کلومیٹر لمبی آبی راہداری ہے جو بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کو ملاتی ہے۔ اس کے بغیر بحری جہازوں کو روس کے شمال سے یا افریقہ کے جنوب سے لمبا چکر کاٹنا پڑتا۔ یہ بحری جہازوں کے لئے دو ہفتوں کا اضافی وقت ہے۔ یہ عالمی شارٹ کٹ بحرِ ہند اور بحرِ اوقیانوس کو ملا دیتا ہے۔ اس وجہ سے یہ عالمی تجارت کی سب سے اہم گزرگاہ سمجھی جاتی ہے اور دنیا کی دس فیصد بحری تجارت یہاں سے گزرتی ہے۔
یہ علاقہ اتنا اہم ہے کہ چین نے بحیرہ احمر کے تنگ مقام پر جبوتی میں اپنی بحری بیس بنائی ہے تاکہ تجارت کو ہونے والے کسی خطرے کا مقابلہ کیا جا سکے۔ لیکن اس راستے کا سب سے اہم حصہ نہرِ سویز ہے۔ اس نہر کے درمیان میں بحیرہ المرہ الکبری (بڑی کڑوی جھیل) آتی ہے۔
جب سیسی مصر کے صدر تھے تو انہوں نے آٹھ ارب ڈالر کی لاگت سے اس میں اضافی لین کی تعمیر کروائی تھی۔ اس کی وجہ سے یہاں پر روزانہ گزرنے والے بڑے بحری جہازوں کی کیپیسیٹی 49 سے بڑھ کر 97 ہو گئی ہے۔ 2016 میں یہ توسیعی پراجیکٹ مکمل ہوا۔ اس میں نہر کے بڑے حصے میں اضافی لین بنائی گئی تھی اور اس کے تنگ حصوں کو گہرا اور چوڑا کیا گیا تھا تا کہ اس میں بڑے بحری جہاز گزر سکیں۔ اب یہ سات سو فٹ چوڑی اور اسی فٹ گہری ہے۔ ایسا واقعہ 2004 میں ہوا تھا جب ایک بحری جہاز کے پھنس جانے سے تین روز ٹریفک بند رہا تھا۔ نہر کو پار کرنے میں نصف دن لگتا ہے۔ اس سے گزرنا احتیاط والا کام ہے۔ کئی جگہوں پر ٹریفک کی ایک ہی لین ہے۔ اس وجہ سے بحری جہاز قافلوں کی صورت میں جاتے ہیں۔ صبح صبح جہازوں کی قطار لگ جاتی ہے۔ جنوب کی طرف جانے والے جہاز صبح تین بجے سے آٹھ بجے پورٹ سعید سے جبکہ شمالی کی طرف جانے والے سویز سے نہر میں داخل ہوتے ہیں۔ وقت کو اس طرح سیٹ کیا جاتا ہے کہ کسی بھی مقام پر رکنا نہ پڑے۔
تئیس مارچ کو ایورگون نامی جہاز سویز سے داخل ہونے کی تھوڑی ہی دیر بعد اپنی سمت برقرار نہ رکھ سکا اور مشرقی کنارے سے ٹکرا گیا۔ اور پورا راستہ بند ہو گیا۔ کیوں؟ اس کی ٹھیک تفصیل ابھی معلوم نہیں۔ لیکن ایک وجہ یہ تھی کہ اس وقت طوفان آیا ہوا تھا اور حدِنگاہ دور تک نہیں تھی۔
ایورگون بحری جہاز بیس ہزار کنٹینرز سے لدا دو لاکھ ٹن وزنی، 1300 فٹ لمبا اور ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ سے اونچا تھا۔ یہ گولڈ کلاس کنٹنر ہے۔ ایسے گیارہ جہاز دنیا کے سب سے بڑے بحری جہاز ہیں۔ اس جہاز کو ستمبر 2018 کو جاپان میں تیار کر کے ڈلیور کیا گیا تھا۔ (اپنے سائز کی وجہ سے یہ پانامہ کینال سے نہیں گزر سکتا)۔ چلتے وقت یہ بحری جہاز لاکھوں ٹن پانی کو حرکت دیتے ہوئے گزرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا پچیس افراد کا عملہ ہے جو تمام انڈین ہیں۔ انڈین ہی کیوں؟ کیونکہ انڈیا میں میرین ٹریننگ کے اچھے کالج ہیں جہاں اس مہارت کی تربیت دی جاتی ہے۔ مرچنٹ نیوی یا مرچنٹ میرین میں دنیا میں انڈیا سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
اس بحری جہاز کی ملکیت جاپان کی ہے، جرمنی میں اس کی مینجمنٹ ہے، تائیوان اس کو آپریٹ کرتا ہے، رجسٹریشن پانامہ کی ہے، انڈیا کا عملہ ہے، ملیشیا سے نیدرلینڈز جاتے ہوئے مصر میں پھنس گیا۔ اور اگر اس کے بیس ہزار کنٹیر دیکھے جائیں تو شاید دنیا کے دو تہائی ممالک کا اس سے تعلق ہو گا جنہوں نے اس پر لدا ہوا مال یا تو خریدا یا پھر اس کی پیداوار کی۔ یہ ایک جہاز ہی گلوبلائزیشن کی علامت ہے۔
اس حد تک کہ گلوبلائزیشن کے مخالفین نے اس واقعے کو بنیاد بنا کر گلوبلائزیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ یہ گلوبلائزیشن کے نازک ہونے کی علامت اور اس کی ناکامی ہے۔ لیکن یہ ایسی منطق ہے جیسے کسی حادثے کو بنیاد بنا کر کہا جائے کہ گاڑی کی ایجاد کس قدر مہلک ہے اور ہائی وے بند کر دی جائیں۔ یا پھر انڈیا کے پرانے سوشلسٹ سیاستدان منی رام نے کہا تھا کہ “بھائیو، یہ بجلی آپ لوگوں نے گاوں میں کیوں لگا لی۔ یہ بڑی غلط بات ہے۔ جب تک یہ نہیں تھی، کوئی کرنٹ لگ کر نہیں مرتا تھا۔ نسلوں سے ہم اس کے بغیر زندگی گزارتے آئے ہیں۔ اسے ختم کیا جائے تاکہ انسانوں اور جانوروں کی جانیں بچ سکیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہر سویز کی تعمیر گیارہ سال میں مکمل ہوئی اور اس میں تیس ہزار معماروں کی موت ہوئی تھی۔ اس کا افتتاح 1869 میں ہوا۔ اس وقت تمام سفر بحری جہازوں سے کیا جاتا تھا اور اس کے بننے کے اسی سے نوے سال بعد تک ایسا رہا۔ اس نے سفر کا وقت اور ایندھن کی ضرورت کو بہت کم کر دیا۔ یہ نہر ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی ملکیت تھی جس میں برطانیہ اور فرانس سمیت کئی ممالک کا حصہ تھا اور اس سے بہت اچھا پیسہ کمایا جاتا تھا۔
جمال عبدالناصر دریائے نیل پر اسوان ڈیم کی تعمیر کر رہے تھے اور انہیں اس کے لئے کثیر رقم درکار تھی۔ انہوں نے ان یورپی ممالک سے تقاضا کیا کہ وہ اس ڈیم کے لئے قرض دیں۔ سرد جنگ کے اس دور میں جمال بعث پارٹی سے تھے جو سوشلسٹ تھی اور ان کا رجحان سوویت یونین کی طرف تھا۔ اس وجہ سے برطانیہ اور فرانس نے اسوان ڈیم کو فائنانس کرنے سے انکار کر دیا۔ اس انکار کے بعد جمال عبدالناصر نے 1956 میں نہر سویز کو نیشنلائز کر کے مصری حکومتی تحویل میں لے لیا۔ اور کہا کہ اب یہاں سے ہونے والی آمدنی سے وہ ڈیم بنائیں گے۔ اس سے سویز کا بحران شروع ہوا۔
برٹش، فرنچ اور اسرائیلی فوج مصر پر حملہ آور ہوئی۔ اس پر اقوامِ متحدہ نے مداخلت کی۔ امریکہ اور سوویت یونین نے فوج کشی کی مخالفت کی۔ (دونوں ممالک سرد جنگ کے اس دور میں یہاں عسکری تنازعہ نہیں چاہتے تھے)۔ کینیڈا کے لیسٹر پئیرسن کی طرف سے امن فارمولا دیا گیا (جس پر انہیں بعد میں امن کا نوبل انعام ملا) ۔ مصر کو کامیابی ہوئی۔ برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے اپنی افواج نکال لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس جنگ کے بعد نہر کھلنے میں چھ مہینے لگے۔ مصر نے جنگ میں نہر کو بند کرنے کے لئے بہت سے جہاز غرق کئے تھے۔ یہ وقت اس کی صفائی میں لگا۔
مصر نے 1967 میں اسرائیل کو نہر کے استعمال سے روک دیا۔ اس کے بعد ہونے والے واقعات تیسری عرب اسرائیل جنگ (جو چھ روزہ جنگ کہلاتی ہے) پر متنج ہوئے۔ اور مصر نے نہر کو بند کر دیا۔ اس سے ایک عالمی بحران شروع ہوا۔ 1973 میں دوسری عرب اسرائیل جنگ ہوئی۔ اس کے بعد جب آئل شاک آیا تو نہر بھی بند تھی جس نے اس شاک کی شدت میں اضافہ کیا۔ تیل کمیاب تھا اور ٹینکروں کو افریقہ کا چکر کاٹنا پڑتا تھا۔
دوسری جنگ کے دوران نہرِ سویز میں بھاری تعداد میں بارودی سرنگیں لگائی گئی تھیں جن کی صفائی کرتے بہت وقت لگا اور یہ 1975 میں آٹھ سال کی بندش کے بعد دوبارہ کھلی۔
اسرائیل اور مصر نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد صلح کر لی۔ اسرائیل نے سینا کا تمام علاقہ مصر کے حوالے کر دیا جس پر چھ روزہ جنگ میں قبضہ کیا تھا۔ مصر نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور جنگ ختم ہو گئی۔
علاقے میں طویل عرصہ امن رہنے کی بعد امید یہ ہے کہ یہاں اب دوبارہ جنگ نہیں ہو گی۔ اور اس وجہ سے مصر نے اس پر بھاری سرمایہ کاری کی۔ اور اس وجہ سے یہاں پر 2011 سے 2016 تک آٹھ ارب ڈالر کی لاگت سے نہر کا توسیعی پراجیکٹ کیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانامہ نہر جنوبی اور شمالی امریکہ کو کاٹتی ہے جبکہ سویز نہر افریقہ اور ایشیا کو۔ سستے سفر اور تجارت کے لئے کئے گئے کاٹے گئے یہ برِاعظم سول انجینرنگ کے شاندار ترین پراجیکٹ ہیں جہاں سے لاکھوں ٹن وزنی بحری جہاز روزانہ گزرتے ہیں۔ چین کے موبائل فون ہوں یا پاکستان کا کپڑا، پرتگال کا کاغذ یا ملیشیا کے برقی آلات، تیل اور گندم، خام مال اور مشینری ۔۔۔۔ ان بحری جہازوں پر لدا سامان اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتا ہے۔