::: "بہاماس : 700جزائر پر مشتمل پرسکوں ملک" :::
میرے پانچ دن بہاماس کی سیاحت، مہم جاتی اور تحقیقی جستجو میں گذرے ۔یہاں کی تارِیخ ، معاشرت، موسم اور منفرد ثقافت نے مجھے متاثر کیا۔بہاماس (Bahamas) جسے سرکاری طور پر" کامن ویلتھ آف دی بہاماس" کا نام دیا گیا۔ بہاماس کے مقامی زبان اور بولی میں اس کے معنی " کبیر اولی کا متوسظ خطہ" کے ہیں۔ بہاماس اور اور گمبیا دینا کے دو ایسے ممالک ہیں جس کے شروع میں " دی" ( THE) لکھا جاتا ہے۔ بہاماس 27 بڑے جزائر، اور کل ۷۰۰ جزائر اور 2,387 سمندری چٹانوں اور چھوٹی موٹی بہاڑیوں پر مشتمل ہے۔ نقشے میں نظر دوڑائیں تو ہمیں بہاماس کیوبا کے شمال میں بحرِ الکاہل کے کنارے پر نظر آتا ھے۔ اس کے شمال مغرب میں امریکہ کی ریاست فلوریڈا " کی ویسٹ" ( key west) کا علاقہ ہے۔ بہاماس کا کل زمینی رقبہ 13,939 مربع کلومیٹرمیں پھیلا ہوا ہے اور کل آبادی لگ بھگ 3,30,000 رہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نزدیک ترین جزیرے کا نام بمینی ہے جسے بہاماس کا گیٹ وے بھی کہاتا جاتا ہے۔ جنوب مشرقی جزیرہ اناگوا کہلاتا ہے۔ سب سے بڑا جزیرہ انڈروس ہے۔ دارلحکومت نساؤ نیو پرووائیڈنس نامی جزیرے پر آباد ہے۔ اس ملک کا دارالحکومت نساؤ ( NASSAU) ہے۔ جو اس ملک کا سب سے بڑا شہر ھے اور بہت صاف ستھرا اور خوب صورت شہر ھے۔
بہاماس کی سرزمین پر 1492ء میں کولمبس نے قدم رکھا۔۔ کرسٹوفر کولمبس کے قدم جہاں پہلی بار پڑے، وہ جزیرہ سان سلواڈور کے نام سے مشہور ہے۔" نساو" شہر کے وسط میں کرسٹوفر کولمبس کا ایک طویل القامت مجسمہ اسیتادہ ھے۔ جس پر۱۴۹۲ کندہ ھے۔ 1513ء سے 1648ء تک غیر آباد رہا اور اس کے بعد برمودا میں موجود برطانویوں نے یہاں آباد ہونا شروع کر دیا۔ لوکین افراد یورپی اقوام کی لائی ہوئی بیماریوں سے اپنا بچاؤ نہ کر سکے اور ساری قوم ہی معدوم ہو گئی۔ لہذا 17ویں صدی سے قبل یورپی یہاں آباد ہونے سے کتراتے رہے تھے۔ امریکہ کی آزادی کے بعد 7,300 برطانوی وفادار اپنے غلاموں کے ہمراہ نیو یارک، فلوریڈا اور دی کیرولینا سے فرار ہو کر بہاماس پہنچے۔ انہی افراد نے کئی جزیروں پر کاشتکاری شروع کر دی اور جلد ہی سیاسی قوت بن کر ابھرے۔ اس وقت یہاں کی زیادہ تر آبادی سیاہ فام افریقیوں پر مشتمل تھی۔یہان ایک اصطاح " افریقی بہاماس" استعمال کی جاتی ھے۔ افریقی بہاماس سے مراد وہ افراد ہیں جن کے آباؤ اجداد کا تعلق براعظم افریقہ سے تھا۔ بہاماس میں آنے والے اولین افریقی دراصل آزاد کردہ غلام تھے جو نئی زندگی کی تلاش میں بہاماس آن آباد ہوئے۔ اس وقت بہاماس میں افریقی النسل افراد آبادی کے 85 فیصد کے برابر ہیں۔ انگلستانیوں نے 1807ء میں غلاموں کی تجارت کو ختم کر دیا جس کی وجہ سے ان جزائر پر ہزاروں کی تعداد میں آزاد غلاموں نے رہائش اختیار کر لی۔ برطانوی سلطنت سے آخر کار یکم اگست 1834ء کو غلامی بالکل ختم کر دی گئی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جدید سیاسی نظریات بہاماس میں آئے اور سیاسی اور حکومتی انصرام میں نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ ۔ 1950ء کی دہائی میں اولین سیاسی جماعتیں بننا شروع ہوئیں اور 1964ء میں برطانیہ نے بہاماس کو اندرونی خود مختاری دے دی۔ بہاماس میں دو سیاسی جماعتوں کا نظام رائج ھے۔ جس میں مرکذی یساریت پسند/ سوشلسٹ ترقی پسند لبرل پارٹی اور دوسری دائیں بازو کی آزاد قومی تحریک ھے۔ بہاماس کے سیاسی نظام کے تحت ایک ھی وزیر اعظم کئِ بار اس عہدے کے لیے منتخب ھوسکتا ھے۔ اس کی کوئی قید نہیں ھے۔ آج کل مائیکل جانسن نیومن یہاں کے گورنر جزل ہیں۔
1967ء میں سر لنڈن پیڈلنگ یہاں کے پہلے پریمئر بنے۔ 19688ء میں ان کا عہدہ وزیر اعظم کا بن گیا۔ 1973ء میں بہاماس مکمل طور پر آزاد ہو گیا تاہم دولتِ مشترکہ کی رکنیت کو برقرار رکھا۔
فی کس آمدنی کے اعتبار سے شمالی امریکہ میں بہاماس تیسرے نمبر پر امریکہ اور کینیڈا کے بعد آتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ اور میکسیکو کی سرحد کے جنوب میں واقع امیر ترین ملک ہے۔ اس کے علاوہ سیاہ فام آبادی کی بھاری اکثریت والے ممالک میں سب سے زیادہ امیر ملک بہاماس ہی ہے۔ بہاماس کی معیشت سیاحت اور بینکاری پر محیط ھے۔ یوں کہ لیں کی یہ ملک سیاحوں پر ھی چل رہا ھے۔ میں نے جب بہاماس کے چھوٹے سے جزیرے میں قدم رکھا تو دیکھا کہ ایک دن میں یہاں سات/۷ سیاحتی بحری جہاز لنگر اندوز ھوئے۔ عموما ایک بحری جہاز میں اوسطا چار/ ۴ ہزار افراد ھوتے ہیں۔ یہ ملک دینا کی لوٹی ھوئی کالی کمائی سے بھی چل رہا ھے۔ دینا کے محصول چور، دینا کے کرپٹ اور داغی سیاست دانوں اور تجار کی لوٹی ھوئِ دولت کے یہاں خفیہ کھاتے بہاماس کے مالیاتی اداروں میں کھلے ھوئے ہیں۔ اس کاروبار میں یہاں کے دو بنک " سنٹرل بینک آف بہاماس" ۔۔۔ اور "بہاماس بین الالقوامی سیکیورٹی ایکسچنج پیش پیش ہیں۔ اور یہاں کے لوگ مسکراتے ھوئے یہ کہتے ہیں"یہی ھماری خوشحالی کی چابی ھے"۔۔۔ بہاماس میں ہندوستانی سندھیوں کی ایک بڑی تعداد میں آباد ہیں جو تیں نسلوں سے یہاں آباد ہیں اور بڑی کامیابی سے کاروبار کررھے ہیں اور بہت خوشحال بھی ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر " گفٹ شاپ" کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ یہاں پر ہنڈی کرافٹ اور دستاکاریوں بحی بہت اچھی ملتی ہیں۔ یہاں پر لکڑی کو تراش کر مختلف کھلونے اور گھر کے ڈیکوریشن اور تزئین کی مضوعات بنائی جاتی ہیں۔ یہاں کے حکومتی اور اور نوکر شاھی پر برطانوی نوآبادیات کے گہرے اثرات بھی دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں کی پولیس کی وردی اور سفید ٹوپ (HAT) دیکھ کر انگریز سامراج کی یاد تازہ ھوجاتی ہے۔ میں نے مشاہدہ کیا کہ یہاں ہر گرجے کے آس پاس کئی شراب کی دکانین اور "مئے خانے"(BAR) کھلی ھوئی تھی۔ حالانکہ دینا کے بشتر ممالک میں مذھبی عمارتوں اور تعلیمی اداروں کے کے قریب کوئی شراب اور اس سے متعلقہ کوئی کاروبار نہیں ھوسکتا۔ یہاں سامراجی عہد کے ایک بدنام زمانہ جیل/ عقوبت خنے کو اب قومی عجائب خانے اور کتب خانے میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ یہاں لوگوں کی مرغوب غذا، مچھلی، مرغی، چاول اورمختلف النوع لوبیا ہیں۔ یہاں پر میں نے زندگی میں پہلی بار بادام کے درخت کے پتوں سے تیار کی ھوئی خوش ذائقہ چائے پینے کا تجربہ ھوا۔ بہاماس میں زراعت کوئی خاص نہیں ھے۔۔ چاول اور گہیوں دوسرے مالک سے درآمد کی جاتی ہیں۔ لیکن یہاں پر پیاز، ٹماٹر، مالٹے/ موسمی چکوترے گنا، لیمو، آلو اور شکر قندی، خوب پیدا ھوتی ہیں۔ یہاں پر ہالی وڈ کی فلموں کی شوتنگ ھوتی رھتی ھے۔ یہاں جمیز بانڈ سلسلے کی کئی جاسوسی فلموں کی فلم بندی ھوئی ھے۔ بہاماس کے آس پاس دینا کے امیر ترین حکمرانوں، تاجروں، کھلاڑیوں، فلمی شخصیات کے ذاتی جزائر اور محل نما گھرہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔