کوئر نظرئیے کی سادی سی تعریف یہ ہوسکتی ہے ۔۔۔" ادبی اور ثقافتی مطالعہ کے نقطہ نظر جو جنسی اور جنسی تعلقات کی روایتی اقسام کو مسترد کرتی ہے " ۔۔۔ برلنٹ و وارنر،کے بقول "کوئر تھیوری خاص طور پر کوئی نظریہ نہیں ہے، اور اس کی کوئی درست سوانحی شکل نہیں ہے۔
کوئر نظریہ کا ابھی تک کوئی اردواصطلاحی ترجمہ نہیں ہوسکا، اس کا ترجمہ ، ھم جنس، نادار یا عجب طرفہ " کیا جاسکتا ہے۔ مگر مین اس سے مطمن نہیں۔ لہذا میں " کوئر" پر اکتفا کروں گا۔ کوئر قدرے نیا ادبی ، ثقافتی ، سیاسی اور معاشرتی نظریہ ہے۔ 1990 کے عشرے میں اس کی بازگشت سنی گئی۔ اور تدریسی اور فکری بنیادوں پر اس نطرئیے پر مباحث کا آغاز ہوا۔ جو اصل میں پس ساختیات کے بطن سے پیدا ہوئی جس کا ماخذ " نسوانی مطالعات تھے۔ اسی/ 80 کی دہائی کے شروع میں جب راقم الحروف امریکہ کی کنساس اسٹیٹ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا تو مجھے پروفیسر پا ل فرائی ( Paul Fry) کے " کوئر نظرئے اور اس کی مبادیات پر کچھ خطبات دئیے۔ ان خطبات میں انھوں نے جوڈتھ بٹلر، لیوی اسٹروس اور مثل فوکو کے نظریات کے حوالےسے کوئر نظرئیے کی توجیح و تشریح پیش کی۔ ۔ ان سلسلے میں ان کا یک خطبہ ۔۔۔" Queer Theory and Gender Performativity" معرکے کا ہے۔ پروفیسر پال فرائی کا یہ خطبہ بہت شفاف تھا جس نے " کوئر نظرئیے" کو میرے زہن میں اتار دیا۔ انھی دنوں میں میں اپنی کتاب " ساختیات، تاریخ ، نظریہ اور تنقید"( 1999، نئی دہلی) لکھ رہا تھا۔ اور میں نے " کوئر نظرئیے کو اپنی کتاب میں جگہ دی۔ اس سے پہلے کوئر نظرئیے کو اردو میں کوئی نہیں جانتا تھا۔ اور نہ ھی اس موضوع پر میں نے کسی کو بات کرتے ہوئے دیکھا اور نہ ھی کوئی تحریر میری نظروں گذری۔ میں نے اس زمانے میں اردو کے چند اہل فکر اور " جدید نظریوں کو دانشوروں اور ناقدین " سے بات کرنا چاہی تو وہ اس کر بات نہیں کرسکے اور کچھ تو بتانے کے باوجود کوئر نظرئیے پر بات کرتے ہوئے بھی" شرما" گئے۔
کوئر نظریہ اس بات کو رد کرتا ہے کہ جنسی خوشی یا انبساط hedonistic سرگرمی کی ایک شکل ہے؛ دوسری بات یہ ہے کہ،یہ روایتی شرم پر قابو پانے میں ناکامی کا دوسرا نام ہے اور اس کی جراثیمی حساس اداروں کی جراحی تخلیق کے ساتھ ڈگری حاصل کی جاسکتی ہے. تیسری بات یہ ہےکہ خوشی اور شرمناک سطح پر دونوں روایتی سنجیدگی، اور ثقافتی تنقید کے لئے حسیات کی بنیاد پر لامحدود نظریہ کے تصورات کا مجموعہ ہیں ۔
کوئر نظریہ کی بحث 'فطرت بمقابلہ فطرت ' ہے . جو کیند کی طرح اچھلتے ہیں۔ ناقدین اس کے متعین پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے،یہ کہتے ہیں کی اس پر بلا خوف و ڈر بات چیت ہونی چاہیے۔ ورنہ مزید تنازعات سر اٹھائیں گے۔ اس نظرئیے میں کئی ذیلی نظریات اور تصورات پوشیدہ ہیں۔ .
جوڈتھ بٹلر {JUDITHBUTLER} نے 1990 میں جنس کے معاصر " کوئرز نظرئیے " کو متعارف کروایا۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس نوعیت کی صورتحال فطرت کا نتیجہ نہیں بلکہ سماجی طور پر تشکیل یا وضع کیا جاتا ہے۔ جاتا ہے. ان کا کہنا یہ ہے کہ مرد اور عورت کے رویے اور کردار حیاتیات مظاہر کا نتیجہ نہیں ہیں لیکن زرائع ابلاغ اور ثقافت کے ذریعہ اس کی تشکیل اور مضبوطی کی بناء پر اس کی جہات کو نہیں سمجھا گیا۔ بٹلر کا کہنا ہے کہ متعدد بار مبالغہ آرائی 'زبان کے الجھاوے' کے سبب اور نسائیت کو الجھادیا گیا۔
کوئر جدید ادبی اور معاشرتی تنقید اور نظریے کا حاشیائی رویہ ہے۔ جس میں فکری رویے اور متنوع تصورات حتمی اور متعین نہیں ہوتے اور نہ ہی کسی مظہر کا مثبت اورر منفی پہلو پیش نظر ہوتا ہے۔ ریڈیکل سطح پر اسے فکری اور عقلی تحدیدات سے بھی مبرا تصور کیا گیا ہے۔ ان تفاعلی اور تجزیاتی مطالعوں کی تشکیل میں کلیدی مباحث اس نکتے پر ہوتی ہے کی " ہم جنسیت" اور " فطری جنسیت (HETERO SEXUAL) ایک نارمل اور فطری رویہ ہے۔ اس سلسلے میں ایواسیڈوک، جیوڈتھ بٹلر کے کوئر نظرئیے نے جنسیاتی اور ثقافتی تشکیل سازی کے کئی فکری سوالات اٹھاتے ہوئے ھم شہورت کاری ( HONOOEROTIC) تعلقات کو کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ جبکہ تانثییت پر مکالمہ کرنے سے قبل کوئر مطالعے اور مختلف نسلی مطالعوں نے مناجیات سے فکری قوت اور اس کی معاشرتی تحریک سے منسلک دیگر پہلووں سے علیحدہ ہوکر ان کی حکمت عملیوں اور نظریات پر خاصی عرق ریزی کی۔
کوئر نظریہ ایک جنسی تنوع کا نظریہ ہے جوجنسی رجحان اور صنفی شناخت اور اس سے متعلقہ مسائل سے کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ جس مین جنس پرستی۔ ہم جنس پرستی کی مخصوص ثقافت پر عام جنسی رویوں سے ہٹ کر ایک مستحکم طرز زندگی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کوئر نظرئیے میں " ہم کون ہیں" کا تعین نہیں کیا جاتا مگر خواتین کے بارے میں " بے معنی" باتوں سے پرہیز کرتا ہے۔ اس حوالے سے " ھم جنسیت نظریہ محبت" کو نیوزی لینڈ کی ماہر کوئر نظریہ انو ماری ہوگورے (Annamarie Jagose) نے اپنے نظرئیے میں پیش کی۔ اس نظرئیے کو لسانی نظرئیے سے بھی منسلک کیا گیا ۔ یہ کبھی سکونی تصور نہیں رہا۔ جو وجود کے خارجی احوال میں ایک توانا ثقافت کی نشاندھی کرتاہے۔ اس کو مثل فوکو نے اپنی کتاب " جنسیت کی تاریخ " میں سترھوین صدی سے بیسویں صدی کا " جابرانہ مفروضہ" قرار دیا۔ ۔ کوئر نظرئیے میں صنف اور خواہش کو ایک دوسرے سے جوڑا نہیں جاسکتا۔ جس میں دہری جنسیت ، "گے ازم" اور لزبن ازم کے صنفی ابہام کے موضوعات کی جراحی کرتا ہے۔ یہ فرد کی وہ ثقافت ہے جس میں فرد مختلف انداز سے اپنی زندگی گزارتا ہے۔ جو اپنا فریم ورک خود تشکیل دیتا ہے۔ اس حوالے سے یہ دو کتابیں بہت اہم ہیں ؛
Foucault, Michel. "The History of Sexuality." In The Critical Tradition, ۔۔۔۔۔Butler, Judith. "Imitation and Gender Insubordination." In The Critical Tradition, .
کوئر نظرئیے کو جدید جنسیات کا نشاۃ ثانیہ بھی کہا جاتا ہے۔ ایواسیڈوک کے بقول " خواہش" شناخت اور رقابت سے تشکیل پاتی ہے۔ فطری جنسی عمل میں مشغول مرد سے جنسی خواہش اس کسی "ہیرو" کی شناخت کے بعد دریافت ہوتی ہے۔ جس کے ساتھ رقابت کی مصنوعی خواہش ابھرتی ہے۔ "ہیرو" اس مرد کا آردش بھی ہوسکتا ہے۔ واہمے یا فینٹسی کے سراپے ذہنی اور قلبی تسکین میسّر آتی ہے۔"
**********
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...