ابن حزم ابو محمد علی بن احمداسپین کے مشہور مورخ، شاعر و فقیہہ تھے۔ ان کی ولادت قرطبہ میں 994۔ء میں ہوئی۔ ان کی تعلیم وتربیت وسیع پیمانے پر ہوئی۔ ان کے دادا عسیائی تھے جنھون نے اسلام قبول کرلیاتھا۔ جب 1014 میں عامرئین کی حکومت پر زوال آیا تو انہوں نے قرطبہ چھوڑ کر المیرا میں رہائش اختیار کی۔ پھر پانچ سال کے بعد القاسم کے زمانے میں دوبارہ قرطبہ واپس ہوئے اور یہیں عہدۂ وزارت پر فائز رہے۔ ابن حزم کو مناظروںاور علمی مباحث کا بڑا شوق تھا اور بعض اوقات وہ راسخ العقیدہ ائمہ پر بھی الحاد کا الزام لگا دیا۔ جسکی وجہ سے عالموں کا ایک بڑا حلقہ اب حزم کے خلاف ھوگیا تھا۔ تھا اور ان کی تصانیف کوبرسرعام اشبیلیہ میں نذر آتش کی گئیں اور اسے گوشہ نشینی پر مجبور ہونا پڑا۔ اسکے جواب میں اس نے مخالفین کے بارے میں طنزیہ اور ہجویانہ نظمیں لکھیں۔ ابن خلدوں نے بھی اب حزم کی تحریروں سے متاثر تھے۔ان کا انتقال 406ھ بمطابق 1064ء میں ہوا۔ ان کی مشہور تصانیف میں نقاط العروس فی تواریخ الخلفاء، جمہرۃ الانساب نہایت ہی مشہور ہیں۔ فقہ الحدیث میں آپ کی بلند پایہ تصنیف"المعلیٰ" کا اردو ترجمہ چار جلدوں میں پاکستان سے شائع ہو چکا ہے۔ ابن حزم تمام حقائق عام کو تخلیق اصل قرار دیتے ہیں نہ کہ محض کسی عین کی نقل یا ثبوت صفت ہستی کا اضافہ ۔۔۔ ابن حزم کا دعوی کی شے اور شے کی ذات یا عین کے دوسرے سے متہائن ہستیاں نہیں ہیں۔شے میں بعین وھی زات جوہر ھے اور وہ جوہر جو ذات عین بعین وہ : شے" ھے۔امام ابن حزم نے قیاس اور اجماع کے اصولوں کو رد کیا، آٹھویں صدی کے امام ابن تیمیہ(رح) نے فقہی مذاہب کی قطعیت سے انکار کیا اور دسویں صدی کے علامہ سیوطی نے تقلید کو رد کر کے اجتہاد کو از سر نو زندہ کیا.(علامہ اقبال کا تصور اجتہاد -اقبال اکادمی لاہور.-ص-١٩)اپنے ایک خطبے میں اقبال یہ واضح کرتے ہیں کہ، ہئیت اسلامی میں اصول حرکت کا نام اجتہاد ہے. لیکن روایت نےاجتہاد کے تصور کی درجہ بندی کر کے اسے فقہی مذا ہب میں محدود کر دیا. جس سے اسلامی فقہہ اور قانون جامد اور میکانکی بن کر رہ گنے. علامہ اقبال اجتہاد کی ان درجہ بندیوں کو ترک کر کے اجتہاد کے بنیادی یعنی اجتہاد مطلق کے معنوں کو ترجیح دیتے ہیں؟علامہ اقبال کا کہنا ہے کہ اہل سنت اجتہاد مطلق کے نظری امکانات کو تو رد نہیں کرتے لیکن مذاہب فقہ عملی طور پر اس کے امکان کو تسلیم نہیں کرتے ۔ علامہ اقبال کا کہنا تھا امام تمییہ خود بھی اجتہاد کے دعوی داد تھے۔ انھوں نے ابن حزم کی طرح فقہ جنفی کے اصول قیاس اور اجتہاد کے منکر رھے۔ ان کا یہ قول بہت شھرت اختیار کرگیا ک"دوست کی سرزنش ایسے ہی ہے جیسے سونے کی ڈلی کو بھٹی میں ڈالا جائے یا تو وہ نکھر کر سامنے آئے گی یا ختم ہو جائے گی"۔ ان کا کہنا ھےدلیل نص اور اجماع سے ماخوز ہوتی ہے۔ابن حزم کا خیال ھے کہ قیاس سے استدلال کے جواز میں اختلاف کا نتیجہ ھوتا ھے۔
کتاب مداوۃ النفوس یا الاخلاق والسیر از حافظ ابن حزم
امام ابن حزم تقریباّ چار صد کتب کے مولف کہلاتے ہیں.آپ کی وہ کتابیں جنہوں نے فقہ ظاہری کی اشاعت میں شہرت پائی وہ المحلی اور" الاحکام" فی اصول الاحکام ہیں. المحلی فقہ ظاہری اور دیگر فقہ میں تقابل کا ایک موسوعہ ہے . یہ کئی اجزاء پر مشتمل ایک ضخیم فقہی کتاب ہے جس میں فقہ اور اصول فقہ کے ابواب شامل ہیں.المحلی کا اردو زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے.(اور اسکی تین جلدیں کبھی کبھی بازار میں آ جاتی ہیں لیکن اکثر نہیں ملتی) موخرالذکر کتاب کا مو ضو ع اصول فقہ ہے. کہتے ہیں کہ اگر یہ دونوں کتابیں نہ ہوتیں تو اس مسلک کا جاننے والا کوئی نہ ہوتا. ظاہری مسلک کے متبعین نہ ہونے کے با وجود یہ مسلک ہم تک جس زریعہ سے پہنچا ہے، وہ زریعہ یہ دونوں کتابیں ہی ہیں.(اصول فقہ -بک نمبر -٢٢- شریعہ اکیڈمی -فصل مسجد اسلامآباد)اب حزم نے اولیا پرستی، قبر پرستی تصوف کے عقائد، دیگر بدتوں اور علم نجوم کو بھی ہدف تنقید بنایا ۔ اس نے عیسائیوں اور یہودیوں کے عقائد سے بھی بیزاری کا اظہار کیا ھے۔ اب حزم فکر اسلامی میں ایک متنازعہ شخصیت ہیں ۔ اور آج بھی ان کے حق اور رد میں دو فکری دبستان موجود ہیں اور ابن حزم کے علمی فکریات کے بہت سے سوالات ہنوز الجھے ھوئے ہیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔