::: "سکھوں اور اورنگ زیب کی آپسی دشمنی : ایک سوال جو اب بھی الجھا ہوا ہے " :::
سکھوں کی تاریخ میں میں ارونگ زیب کو سکھوں کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا جاتا ہے اور یہ تاچر بھی رہا کہ ہندوؤں اور سکھوں کے خلاف مغل شہنشاہ اورنگزیب نے جو کچھ کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ان کی تہذیب اور مذھب کو انھوں نے تباہ و برباد کرنا چاھا اور یوں اورنگ زیب ایک تخریب کار دہشت گرد کے نام سے ان کی شناخت کی گی اور انھین ایک برا ایک حکمران بھی کہا گیا۔ جو سکھ دشمن تھا۔ سکھوں کے مطابق جو غیر مسلم جزئیہ نہیں دیتا تھا اسے ظالمانہ طور پر اورنگ زیب کے حکم پر قتل کروادیا جاتا تھا۔ .نویں گرو سکھ، تیخ بہادر (1621-75) اور ہیروں کاروں کو اس لیے قتل کروادیا تھا کی انھوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا تھا اور ان کو دہلی گرفتار کرکے لایا گیا ام کس سر قلم کیا گیا۔ اور ان کے چاندنی چوک کے گردوارے میں دفن کیا گیا۔
ان واقعات کے تناظر میں سکھوں کے دسسویں گرو، گوبند سنگھ (1666-1708) کی قیادت میں میں ایک عسکری دستہ بنایا گیا۔ جو سکھوں کی جانی ،مالی اور معاشی حفاظت کے لیے تھا، اس نئی عسکریت پسندی کے پس منطر میں سکھ عقیدے کا تحفّظ بھی تھا۔ انہوں نے ایک بپتسمہ دینے والی تقریب کی بنیاد رکھی جس میں سوراخ پانی میں تلوار کی منتقلی بھی شامل تھی جو سرکیوں کو وقفے وقفے کے لئے خسارے (خالہ، فارسی کے اصطلاح سے "خالص کی فوج" کے طور پر اکثر الفاظ میں لے جانے کے لۓ) کا آغاز ہوا۔ جس نے جنگجو " سنت" کو جنم دیا۔ جو حکم گرو گوبند سنگھ کے حکم پر قائم کیا۔ کہا جاتا ہے سکھوں کی کی بغاوت اورنگ زیب کے خلاف آخری بغاوت تھی۔ حکمرانون کی طرح سکھ گرووں نے اپنا رہن سہن وضع کرلیا تھا۔ تک مرکذ کےاور فوج کے لشکر بھی کھٹرے کردئیے جو خود کو " سچا بادشاہ " کہتے تھے۔ ۱۶۷۵ تک مرکذ کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ لہذا اورنگ زیب نے سکھوں کے خلاف کسی ردعمل اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ ایک انگریز افسر میٹکاف نے اپنی کتاب " سکھوں کی تواریخ" میں میں لکھا ہے کہ۔ " اورنگ زیب نے کرو تیخ بہار کو سزائے موت دی۔ مگر اس سے پہلے اس کا کئی ثبوت یا حوالہ نہیں م لتا۔ اس سے اہم ایک نکتہ یہ بھی ہے مٹکاف کے بعد شائع ہونے والی دوسری کتاب میں میٹکاف کے اس خیال کو " ارونگ زیب نے گرو تیخ بہادو کو موت کی سزا دی" کافی اہمیت دی گ ۔ جب کی مٹکاف سے پہلے ایک دوسری بات سے آگہی ہوتی ہے۔۔۔۔ بھاءی منی سنگھ کی ۱۸۹۲ میں شائع ہوئی کتاب ۔۔" بھگت رتنا دلی" میں صاف صاف لکھا ہے ایک سکھ نے ہی ان کی اجازت سے ان کا سر قلم کیا۔ اور لکھا اورنگ زیب کو اپنی کرامت دکھانے کے لیے انھوں نے کہا کہ وہ ایک ایسا منترلکھین گے کی جو بھی اسے اپنی گردن سے باندھے گا، ۔۔ تلوار کا بھاری سے بھاری وار کا بھی کوئی اثر اس کی گردن پر نہ ہوگا۔ اس منتر کو انھوں نے خود اپنی گردن پر باندھا اور اپنے چیلے کو وار کرنے کا اشارہ کیا۔ تلوار کی بھاری ضرب جیسے ہی ان کی گردن پر پڑی سرتن سے جدا ہوکر ایک طرف گرا۔ اور واقعہ کے راوی وہ لوگ ہیں جنھنیں گرو جی کی خدمت میں ہمیشہ حاضر رہنے کی سعادت حاصل تھی۔ ۱۹۱۲ میں یہ کتاب بھگت وتنا ولی جب دوبارہ شائع ہوئی تو یہ واقعہ کتاب سے حذف کردیا گیا۔ کیونکہ اس سے قبل مٹکاف کی کہانی آچکی تھا ۔ ایک کتاب ۔۔" سکھا دے راج" جو ۱۸۶۲ اور ۱۸۹۲ میں دوبار چھپی اس کتاب میں بھگت رتناول کے طرح گرو تیخ بہادو کو اورنگ زیب کے زریعے سزائے موت دِئے جانے کا کا کوئی ذکر نہِیں ہے۔ لیکن اس کتاب کے گرمکھی ایڈیشن میں اصلیت کے برخلاف اورنگ زیب کا نام اور یہ واقعہ شامل کردیا گیا ہے۔مگر یہ درست ہے کی ارونگ زیب کے عہد میں مرہٹون ، سکھوں اور جاٹون کی بغاوتیں ہوئین لیکن کوئی فرقہ وارنہ فساد نہیں ہوا۔ بھائی ہیر سنگھ پٹیالوی نے اپنی کتاب " سنگھ ساگر" اور براون کنگھم نے کچھ یہ ،تاثر دیا ہے کی اس مین شبہ نہیں کی گربند سنگھ کے اہم منصوبوں اور مرکز مخالف تحریکوں سے اورنگ زیب چوکنا ہوگیا تھا اور دیگر مرکز بغاوت کرنے والوں کی طرح اس نے سکھوں کو بھی کچلا لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کے کہ ارونگ زیب نے گر بند سنگھ کے دو بیٹوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ گربند سنگھ کی موت ایک پٹھان کے ہاتھوں ہوئی تھی جس کے دو بیٹوں کو گربند جی نے قتل کروادیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ گروبند سنگھ نے ملکر حالات کو معمول پر لانے اور صلح جوئی کے لیے خواہش کا بھی اظہار کیا تھا مگر ۱۷۰۷ میں اوررنگزیب کا انتقال ہوگیا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔