{ مضامین کا انتخاب}
مرتب : جاوید اقبال ندیم { اسٹنٹ پروفیسر فلسفہ۔ یونیورسٹی اف ایجوکیشن، لوئر مال کیمپس، لاہور}
ناشر: وکٹری بک بنک،لاہور
صفحات : 279
تاریخ اشاعت دوم : 2009
تبصرہ نگار: احمد سہیل ***
یہ کتاب بیس/20 مختف ادیبوں کے وجودیت کی مختلف جہتوں، وجودیت کی ماہیت اور مزاج کا مطالعہ ، تجزیہ اور زور قلم کا نتیجہ ہے۔ ان مضامیں مین وجودیت کا تعریف، تاریخی پس منظر، داخلیت ، وجود لاشئیت،وجودی انسان پرستی،، مظہریت ، تعلیم ، تصور خیرو شر، فکسفہ مظہریت، مناج خیر و شر، موت کا تصور اوراخلاق اور کئی اہم وجودی موضوعات پر پر مغز مقالات داخل کتاب ہیں۔ جاوید اقبال ندیم نے 'حرف آغاز' میں لکھا ہے، " فلسفہ وجودیت انسان کو اندورنی اور بیرونی طور پر مضبوط کرتا ہے۔ اندورنی، جذبی اور فکری احساس کو اجاگر کرتا ہے اور بیرونی طاقتوں کا پتہ لگاتا ہے" { صفحہ۔7}اس کتاب میں قاضی جاوید حسین نے اہنے مضمون میں یہ سوال رکھا ہے۔۔۔۔"آیا ایسا فلسفی وجود ممکن نہیں، جو محض جدائی، یاس اورشدید حزن ملال کی طرح امید و اعتماد کے احساسات کا بھی حامل ہو؟ کیا یہ جہان رنگ وبو محض غم والم حزن و ملال، دکھ درد اور سوگ اور ماتم کے لیے وقف ہے؟ کیا یہاں مسرت و انبساط، طرب و نشاط حسن و جمال اور امید ورجا عنقا ہیں؟ کیا یہ جستجوروا نہیں؟" { صفحہ 224} تجسّس کنان کے عنوان کے تحت ندیم عزیز نے لکھا ہے ۔ "پروفیسر جاوید قبال ندیم نے یہ کتاب ترتیب دے کر ایک بڑا کار نامہ سر انجام دیا ہے۔ جسے علمی اور فکری حلقوں مین پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کی دیگر تصانیف، ذوق سلیم، مبادیات فلسفہ، بارود کی بارش، شذرات فلسفہ، ابن مسکویہ کا فلسفہ اخلاق، مبادیات فلسفہ اور منطق معلومات افزا مفید مطلب ثابت ہوئی ہیں" ۔۔۔
وجودیت ایک فلسفیانہ تحریک ہے جو خود کفیل ایجنٹ کی حیثیت سے فرد کی انفرادیت پر زور دیتا ہے جو کائنات میں بامقصد اور مستند انتخاب کو بے مقصد یا غیر معقول سمجھتا ہے جس کا ذمہ دار فرد ہوتا ہے: وجودیت عقلیت/ استدلایت، اور جذباتیت کو مسترد کرتی ہے۔
وجوددیت کی مباحث اردو میں خاصی پرانی ہے اس کو نظریاتی، فکری اور ادبی سیاق میں آج تک وجودیت کےبخیئے ادھڑے گئے ۔ جس پر اردو دان دانشوروں اور اہل علم نے کوب لکھا ۔ اس فکری نظام اورتحریک پر مضامین کے تراجم بھی ہوئے۔ وجودیت ایک ایسی فلسفیانہ فکر ہے جس میں سورین کرکے گارڈ پاسکل مارسیل سارتر، ہیڈیگر پیش پیش رہے ہیں جس کی ابتدا کرکیگارڈ سے منسلک کی جاتی ہے۔ ۔ وجودیت کے کئی رنگ ہیں ابتہ کئی مفکرین کی تعلیمات میں وجود انسانی کی انفرادیت پر اصرار کیا جاتا ہے۔ جو انسان کی ماہیت نہیں ہوتی ۔۔ انسان وہ ہے یو وہ ہوتا ہے، عمل کرتا ہے۔ اس کا موضوع صداقت ہوتی ہے۔ کائنات کی کوئی معقول غائیت نہیں ہوتی اور اخلاقی ضابطے مہیا نہیں کرتی ہے ۔یو افراد کے لیے انتخابت سے مفر نہیں ہوتا،ہیگل کے فلسفیانہ نظا٘م میں المانوی[جرمن} عنیت پسندوں کی رسائی ہوئی۔ یہ غالبا اس کے خلاف حد درجے کا شدید ردعمل تھا۔ جس کے ترجمانوں مین پرہارٹ، ولیم کیمز، فائر باغ، ، کارل مارکس کرکیگارڈ نے مستقل دبستاں فکر کی کی بنیادیں پڑی۔ یوں کرکییگارڈ کو وجودیت کا بنیاد گزار تسلیم کیا گیا۔ مگر ان کی کچھ فکریات کو پیش قیاسی ایک کیتھولک راہب پاسکل نے کی تھی۔ جن کی فکریات کو " مسیحی وجودی" سے جوڑا گیا۔
کچھ کے نزدیک فلسفہ وجودیت کی اب موت ہوچکی ہے مگر ایسی بات نہیں ہے کیونکی اب بھی وجودیت کو "زندہ" فلسفہ کے طور پر سمجھا جاتا ہے جس کی تفہیم اور اس کی کھوج ، تحقیقق اور تفشیش کے ذریعے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ فرد ایک "نظام" کے بجائے کسی طور پر زندگی گزارتا ہے ، اس کے مطالعے کے لیے فلسفے اور علوم انسانیہ کی کتابوں سے رجوع کرنا پڑتا ہے ، لہذا یہ غیر متوقع بات نہیں ہے کہ ادبی شکل میں بہت زیادہ وجودی فکراس میں پائی جائے جیسے ہم ڈراموں اور فکشن کی مختلف شاخوں میں محسوس کرتے ہیں۔ اور نہ صرف روایتی فلسفیانہ مقالات میں۔ در حقیقت ، وجودی تصنیف کی کچھ سب سے اہم مثالوں خالص فلسفیانہ ہونے کے بجائے زیادہ تر ادبی ہوتی ہیں۔
ادبی وجودیت کی کچھ نمایاں مثالوں میں انیسویں صدی کے روسی ناول نگار فائیوڈور دوستوفسکی کی تخلیقات میں پایا جاسکتا ہے جو تکنیکی طور پر بھی ایک وجودیت پسند نہیں تھا کیونکہ انہوں نے خود سے آگاہی وجود جیسے وجود کی موجودگی سے بہت پہلے لکھا تھا۔ دوستوفسکی ، تاہم ، انیسویں صدی کے مشترکہ فلسفیانہ دلیل کے خلاف ہونے والے احتجاج کا ایک حصہ تھا کہ کائنات کو ایک مکمل ، عقلی ، قابل فہم نظام اور نظریات کے ساتھ برتاؤ کیا جانا چاہئے – بالکل وہی رویہ جس پر وجودی فلسفیوں نے عام طور پر تنقید کی ہے۔اس کی مثال اردو مین انیس ناگی کی کتابوں " دیور کے پیچھے"، "محاصرہ "اور"جنس اور وجود "میں بھی ملتی ہیں ۔
زیر نظر کتاب میں وجودی فکریات کے باغ میں رنگا رنگ پھول کھلے ہوئے ہیں۔ یہ تمام مضامین وجودی فکر کے کئی الجھے ہوئے سوالات کی گرہیں کھولتی ہیں اور سوالات بھی اٹھاتی ہیں اور وجودیت کے افقی اور عمودی سمتوں کو بھی ابحارتی ہے