انا للہ و انا الیہ راجعون
اللھم اغفر لہ وارحمہ وادخلہ فی الجنت الفردوس آمین:::{ متفرق یادیں}
اردو کے بہترین نثر نگار دنیا سے رخصت ہو گئے۔اردو کے معروف ادیب مسعود مفتی کا اصل نام مسعود الرحمن ہے اورمسعود آاحب کی ولادت 10 جون 1934ء گجرات [ پنجاب پاکستان} کی ہے۔ سول سروس سے وابستہ رہےوہ ایک دیانت دار افسر اور کریم النفس انسان تھے۔ سقوط ڈھاکا کے بعد جنگی قیدی بھی رہے۔ اس وقت وہ سابقہ مشرقی پاکستان میں صوبائی محکمہ تعلیم کے سکریٹری تھے ۔ ان کیتصانیف میں محدب شیشہ، رگ ِ سنگ، ریزے، سالگرہ، توبہ، چہرے، لمحے، ہم نفس، سر راہے، کھلونے ، مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح
۔ کوئز۔ حیات اور خدمات اور تکون کے نام شامل ہیں۔ اسلام آباد میں قیام پذیر رہے۔حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 2009 ء کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا، وہ کچھ دنوں سے علیل تھے۔ 10 نومبر 2020ء بروز منگل کواس جہان فانی کو خیر باد کہا۔
رضی الدیں رضی نے لکھا تھا ": اردو کے معروف ادیب اور ریٹائرڈ بیورو کریٹ مفتی مسعود الرحمن نے کہا ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ تو بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی جمہوری اور فلاحی ریاست کے تصور کو پس پشت ڈال کر ایک ملک گیر چھاؤنی بنانے پر تُل گئی ہے، جس میں فوجی درجہ اول جبکہ سویلین دوسرے درجے کے شہری بن جاتے ہیں۔ لاہور کے ایک ماہنامہ کوپاکستان کے یوم آزادی کے حوالہ سے انٹرویو میں انہوں نے فوجی حکمران جنرل ایوب کو پاکستان کی تباہی اور بربادی کا ذمہ دار گردانا ہے۔مسعود مفتی نے یاد دلایا “قائداعظمؒ نے اپنی زندگی میں ہی اس خطرے کو بھانپ لیا تھا۔ سٹاف کالج، کوئٹہ کی ایک تقریب سے خطاب میں انہوں نے فوجی افسران کی توجہ ان کی ملازمت کے حلف نامے کی طرف دلائی اور یاد دلایا کہ آئین کے تحت فوج صرف اور صرف سویلین اتھارٹی کے ماتحت ہے۔”ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا “جب پاکستان دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کے طور پر ابھرا تو پہلے دس برس ہم نے حیرت انگیز ترقی کی لیکن صدر ایوب خان کے آتے ہی اس نوزائیدہ مملکت پر اپنی برادری، اپنا قبیلہ اور اپنا فوجی مسلک حاوی کرنے کی دوڑ لگ گئی۔ یوں بد قسمتی سے پاکستان ابتدا ہی سے مُلا، ملٹری اور وڈیروں پر مشتمل ’’اتحادِ ثلاثہ‘‘ کی غلامی میں چلا گیا، یہ صورتحال آج بھی قائم ہے”۔”میں نے اپنی آنکھوں سے وطن کی پہلی دہائی والی حیرت انگیز ترقی دیکھی ہے۔ اس سے پہلے اپنے بچپن میں، میں انگریز دور کا حسنِ انتظام دیکھ چکا تھا لہٰذا میں پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ عوام اور بیوروکریسی کے آئیڈیل ازم اور خلوص کی بدولت پہلے گیارہ برسوں میں ہم نے انگریز دور کی ’’گڈ گورننس‘‘ کو حقیقی معنوں میں پیچھے چھوڑ دیا تھا لیکن ایوب کے مارشل لاء نے تباہی و بربادی کے وہ بیج بو دئیے جن کی کڑوی فصل آج بھی ہم کاٹ رہے ہیں۔ بعد میں آنے والے فوجی اور سویلین آمروں نے ایوب کے بوئے ہوئے بیجوں کو اسی انداز میں مزید پانی دیا تاکہ قومی بہبود کی بجائے ان کے مفادات کے پھل اُگتے رہیں۔”سابق بیورو کریٹ کا کہنا ہے کہ مارشل لا حکومتیں پاکستان کی سول بیورو کریسی کے زوال کی ذمہ دار ہیں کیونکہ “ہر فوجی ڈکٹیٹر کی خواہش ہوتی ہے کہ سول افسران ان کے فرامین پر آنکھیں بند کر کے عمل کرتے جائیں۔ جائز یا ناجائز کی بات نہ کریں۔پاکستان میں سول بیورو کریسی کےزوال کے اسباب پر مسعود مفتی کی کتاب زیر طبع ہے۔"{ کتب نما،15 اگست 2017}
مسعود مفتی کو اسلامی تاریخ اور تصوف میں بھی دلچسی رہی ہے ۔۔۔ اپنے ایک مضمون "ایرانیوں کے قدیم ترین صوفی شاعر اور عطار اور رومی کے پیش رو ․․․․․حکمی عبدالمجدد بن آدم سنائی" میں لکھتے ہیں۔
ایرانیوں کے قدیم ترین صوفی شاعر اور عطار اور رومی کے پیش رو ․․․․․حکمی عبدالمجدد بن آدم سنائی․․․․․انہوں نے غزنہ میں جنم لیا تھا،اور وہ بہرام شاہ (1118تا1152 بعد از مسیح) کے دور میں حیات رہے تھے۔اوسلے (Ousley) ان کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ نوجوانی کے دور میں ہی عالم فاضل بن چکے تھے اور اپنے دور کے بہترین افراد میں ان کا شمار کیا جاتا تھا اور ان کی تعریف وتوصیف سر انجام دی جاتی تھی۔
ان کی تعریف ہر ایک زبان پر تھی۔صوفیانہ فلسفے میں مہارت حاصل کرنے کے علاوہ وہ ایک خیر خواہ دل کے بھی حامل تھے اور عمدہ اطوار کے بھی حامل تھے۔اس کے علاوہ وہ شاعری کے عمدہ ذوق کے بھی حامل تھے۔سنائی نے ابتدائی زندگی ہی سے دنیا اور اس کی لذتوں سے منہ موڑ لیا تھا۔
ابو المجدد بن آدم سنائی بہرام شاہ (1118تا1152 بعد از مسیح) کے دور میں حیات تھے،اور انہوں نے غالباً 1152ء میں وفات پائی تھی وہ غزنہ کے رہائشی تھے اور کچھ دیر تک انہوں نے بطور ایک شاعر غزنوی سلطانوں کے دربار میں بھی خدمات سر انجام دی تھیں اور اپنے سر پرستوں کی تعریف اور توصیف میں شاعری سر انجام دی تھی۔
انہوں نے ہدیقت (Hadiqat) لکھنے کا آغاز کیا جس کو انہوں نے 1130ء میں پایہ تکمیل کو پہنچایا۔
ہدیقت الحقائیکا و شریعت الطریقہ (Hadiqa Tul-Haqqah Wa Shariat Al-Tariqa) میں شاعر کے خدا پر آئیڈیاز ․․․․․محبت․․․․․فلسفہ․․․․․اوراستدال کے بارے میں اظہار ہوتا ہے۔وہ 10,000دوہا پر مشتمل ہے اور اس کے دس علیحدہ علیحدہ حصے ہیں۔ پہلے حصے کا 1910ء میں انگریزی میں ترجمہ پیش کیا گیا تھا۔
سنائی کا کام فارسی اور اسلامی ادب میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ وہ اولین ہستی تھے جنہوں نے قصیدہ․․․․غزل․․․․․اور مثنوی کو صوفی ازم کے فلسفیانہ اور صوفیانہ اظہار کے لئے استعمال کیا تھا۔ان کے دیوان میں تقریباً 30,000مصرعے موجود ہیں۔
ہدیقت الحقائیکا ایرانی ادب میں صوفیانہ مثنوی کا پہلا نمونہ ہے اور اس نے مابعد آنے والے لکھاریوں پر اپنے اثرات مرتب کیے تھے بالخصوص جلال الدین رومی․․․․جنہوں نے اپنی مثنوی سنائی کے نمونے پر ترتیب دی تھی۔
1124ء میں سنائی نے اپنے آپ کو خراساں اور عراق کے بہت سے شاعروں اور مفکرین کی ہمراہی میں پایا۔
ہدیقت الحقائیکا یا سچائی/حقیقت کا باغ
اس حقائیکا میں سنائی خدا کے علم کے حصول کے لئے استدال کی بات کرتے ہیں۔خدا کی واحدنیت کی بات کرتے ہیں۔خدا کے خالق ہونے کی بات کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے احسان اور کرم کے بارے میں سنائی رقم طراز ہیں:۔
”جب وہ اپنے رزق کی میز اپنی مخلوق کے سامنے سجاتا ہے وہ اپنی مخلوق کی ضرورت سے بڑھ کر اسے رزق عطا فرماتا ہے ہم سب کا رزق منجانب اللہ ہے۔خوشی اور خوش قسمتی منجانب اللہ ہے۔وہ ہر ایک کو اس کا روزانہ کا رزق فراہم کرتا ہے اور اپنی عطا کے دروازے کبھی بند نہیں کرتا خواہ کوئی اس کو ماننے والا ہو یا اس کا منکر ہو․․․․․․غریب ہو یا امیر ہو․․․․․ان کو ان کا روزانہ کا رزق عطا کیا جاتا ہے۔
”رزق اور زندگی خدا کے خزانے میں ہیں۔کیا اس نے نہیں فرمایا ہے کہ میں ہی پالن ہار ہوں․․․․․․جو کچھ چھپا ہے اور جو کچھ ظاہر ہے․․․․ سب کا جاننے والا ہوں۔میں ہی زندگی عطا کرتا ہوں۔تم جو کچھ مجھ سے مانگتے ہو میں وہ سب کچھ تمہیں عطا کرتا ہوں۔تمہارا رزق میرے ذمے ہے ۔تمہارا روزانہ کا رزق ایک تحفہ ہے جو ہر دن اپنے ہمراہ لاتا ہے۔“ { اردو پوائنٹ، 10 اکتوبر، 2020}۔
مسعود مفتی مرحوم کے متعلق اوریاں مقبول جان نے یہ دلچپ باتیں لکھی ہیں:
"یہ پینتالیس سال پہلے کی بات ہے کہ جب میں نے اپنا پہلا افسانہ حلقہ ارباب ذوق لاہور کے تنقیدی اجلاس میں پیش کیا تو وہاں موجود میرے ایک مرحوم ادیب دوست نے کہا، ’’تم نے مسعود مفتی کو پڑھاہے ‘‘، انکار میں سر ہلایا، تو اس نے اصرار کرتے ہوئے کہا، ضرور پڑھو۔ لاہور سے گجرات واپسی تک ان کا ناول ’’کھلونے‘‘میرے ہاتھ میں تھا۔ بس کی کھڑکی والی نشست پر بیٹھے بیٹھے میں وہ ناول پڑھتا جا رہا تھا اور لطف و انبساط کے آنسو آنکھوں سے رواں تھے۔ اس دن سے لے کر آج تک زندگی کا ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرا کہ مسعود مفتی سے میرے عشق میں کمی آئی ہو۔ موپساں سے منٹو تک ہر کسی کو پڑھنے کے باوجود مسعود مفتی کا سحر نہیں ٹوٹتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس خوبصورت انسان کی شخصیت بھی میرے دل میں بسنا شروع ہو گئی۔ مقابلے کے امتحان کے بعد سول سروس کی نوکری شروع کی تو بلوچستان میرا مقدر ٹھہرا۔یہاں آکر پتہ چلا کہ چراغ راہ اور نشانِ منزل کے طور پر مسعود مفتی کے قدم اس پسماندہ صوبے میں مجھ سے بہت پہلے پڑ چکے تھے۔ لوگ اس افسانہ نگار بیوروکریٹ اور لورالائی کے ڈپٹی کمشنر سے اسقدر محبت کرتے تھے کہ وہ لائبریری جو اس نے وہاں بنائی،اسکے ہال کی دیوار پر تصویر لگانے کے لئے جب اس سے تصویر مانگی گئی تو درویش صفت مسعود مفتی نے تصویر دینے سے انکار کردیا، اخبار سے تصویر لے کر فوٹوسٹیٹ سے بڑی کرکے لگوا دی گئی۔ اب وہ میرا افسانہ نگاری میں ہی نہیں سول سروس میں بھی محبوب بن چکا تھا۔ یوں لگتا ہے اللہ نے مجھے اس سے محبت کرنے کے لئے بار بار انہی منزلوں سے گزارا جس سے وہ گزرا تھا۔میرا بچپن بھی گجرات کے اسی محلے میں گزرا جس میں وہ مجھ سے سولہ سترہ سال پہلے مقیم رہا۔افسانہ نگاری، سول سروس اور پھر بلوچستان۔ مسعود مفتی کے نقش پا مجھے اس قدر عزیز ہوگئے تھے کہ میں بھی جہاں ڈپٹی کمشنر تعینات رہا، وہاں میں نے ایک لائبریری ضرور بنائی اور آج یہ لائبریریاں ان شہروں کی پہچان بن چکی ہیں۔ اس ایک شخص سے میری محبت کا یہ عالم رہا ہے کہ میں دل میں شدت کی خواہش رکھتا تھا کہ کبھی اس سے آٹوگراف لوں، اس کا خط یا تحریر میرے پاس موجود ہویا پھر، اس کے ساتھ میری کوئی تصویر موجود ہو" { 'دلیل' 19 اپریل 2020}۔۔۔۔ مسعود مفتی صاحب کے دنیا سے جانے سے اردو ادب کی دنیا سونی ہوگئی ۔ہے۔