:::" پاکولا": پاکستان کا پہلا نرم مشروب { سافٹ ڈرنگ} ، کراچی کی شناخت : ایک منفرد ذائقہ کا مشروب { کچھ یادیں} " :::
::: کچھ دن قبل ٹیکساس کے شہر " پلینو " {ڈیلاس کے قریب} کے " انڈین بازار "سے اپنا پسندیدہ مشروب پاکولا کا آئس کریم سودا خریدا۔ اس مشروب سے میرا پرانا رومانس ہے۔ اس مشروب کا نام سے اب بہت کم لوگوں کے زہن میں محفوظ ہوگا۔ یہ پاکستان کا پہلا مشروب ہے ۔ اس کا ذائقہ لاجواب ہے جس کے پینے سے دل اور دماغ باغ باغ ہوجاتا ہے۔
" پاکولا "پاکستان کا پہلا نرم مشروب ھے۔ جسکو 14 اگست 1950 میں باضابطہ طور پر حاجی علی محمد نے متعارف کرایا۔ اس مشروب کا تجارتی نعرہ ۔۔"دل بولا۔۔ پاکولا" ۔۔۔ تھا۔ اب پاکولا برانڈ نام تیلی کے خاندان کی ملکیت ھے۔ 1985 میں یہ کاروبار دو حصوں میں بٹ گیا۔ علی محمد صاحب نے " پاکستاں بیورچ" { واقع سائٹ کراچی} نے پلانٹ { کارخانے} کا انتظام سنھال لیا۔ تو دوسرے گروپ " گل باٹلز" نے پاکستاں کے دیہی علاقوں میں پاک کولا کی تقسیم کے حقوق حاصل کرلیے۔ اور مہربان کمبنی نے کراچی میں پاک کولا کے تقسیم کا کام سبنھال لیا۔ 1977 میں اس کمپنی نے سندھ بیوریچ کے نام سے حید آباد سندہ میں ایک پلانٹ لگایا۔ 1979 میں پاکستان بیوریچ لمیٹڈ نے پیپسی کولا، مرنڈا حقوق تجارت حاصل کئے۔ اس کے کئی زائقے تھے ۔ مگر سبز رنگ کا " آئس کریم" سوڈا سب سے زیادہ مقبول ھوا۔افریقہ خلیج کی ریاستون، مشرق وسطی روس، امریکہ، کینڈا برطانیہ، اسٹریلیا، نیوزی لینڈ میں دیسی پرچون کی دوکانوں پر " آئس کریم" سوڈا مل جاتا ھے۔کراچی کے رھنے والے اس مشروب کو پسند کرتے ہیں۔ کراچی میں میمن برادری کی تقریبات میں پاک کولا کا"آئس کرہم سوڈا" خاصا مقبول ھے۔ مغرب میں بسنے والے دیسی باشندے پاک کولا کے آئس کریم سوڈا کے ساتھ ویینیلا آئس کریم کا " فلورٹ" بڑے شوق سے پیتے ہیں۔ پاک کولا کے آئس کریم سوڈا کا بنیاری ذائقہ " وینیلا" کا ہوتا ہے۔ امریکی میں پاکولا کے آئس کریم کے گیارہ اونس کا "کین" {CAN] امریکی کرانے کی دوکانوں مثلا "گلوبل فوڑ، سبزی منڈی اور انڈیا بازار" وغیرہ میں دستیاب ہے۔ ایک "کین" کی قیمت 99 سینٹ ہے۔ اس کا ذائقہ امریکی سوئٹ ڈرنک " بگ ریڈ" (BIG RED) سے ملتا جلتا ھے۔ اسے امریکی کالے اور دیقانی لوگ پسند کرتے ہیں۔ امریکہ میں اس کا رنگ سرخ ھوتا ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے دوست اقبال آر رحمان صاحب نے اختلافی نوٹ لکھا ہے ۔ جس سے میری بھی معلومات میں بھی اضافہ ہوا۔ اورجس سے کئی پاکولا کے حوالے سے نئی باتوں کا انکشاف ہوا۔ ہم اسے من وعن یہاں نقل کررہے ہیں۔ میں اس تحریر کے لیے اقبال صاحب کا شکر گزار ہوں۔ { احمد سہیل} :::
جواب آں غزل :
——————
ہمارے مہربان احمد سہیل صاحب نے ایک پوسٹ لگائی ہے اور پوچھا ہے کہ میمن دعوت میں پاکولا ہی کیوں پلاتے ہیں ؟
احمد سہیل صاحب کی یہ پوسٹ بدقسمتی سے ایسے مواد پر مشتمل ہے جو کراچی کی سماجی روایات کے بالکل برعکس ہے اور ان سے ہر گز میل نہیں کھاتی ۔
میمن برادری گجرات انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آئی، اس کاروباری برادری کا انڈیا میں زیادہ ناتہ ہندو بنیا برادری کے ساتھ رہا لہذہ ان کا کلچر انکا انداز زندگانی میمن برادری کے کلچرل رویے میں با آسانی نظر آجاتا تھا جو سادگی و کفایت سے مستعار تھا جسکے پس پشت ایک نیک نیتی نمایاں تھی وہ یہ کہ اسراف سے بچا جائے اور متوسط اور نیم متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے رشتہ داروں کو مشکل میں ڈالے بغیر شادی بیاہ کی تقاریب سادگی اور کفایت سے منعقد کی جائیں تاکہ معاشرے کہ ہر طبقے میں یونیفارمیٹی برقرار رہے اور کسی بھی سطح پر احساس کمتری کی نوبت نہ آئے اور نہ ہی کسی قسم کا سماجی گیپ ابھرے، اور غالباً ہمارے مذہب کی تعلیمات بھی یہی ہیں ۔
کراچی میں ہماری برادری یعنی میمن برادری میں کھانے کے ساتھ کولڈرنک کا کوئی رواج نہ تھا اور نہ ہی بوفے ڈنر رائج تھا، بوفے ڈنر ۱۹۷۸ کے لگ بھگ آیا اور کھانے کے ساتھ کولڈ ڈرنک اسکے بھی پانچ برس بعد، یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں افراط زر کے سبب عام آدمی پیسے والا ہورہا تھا اور شہر میں نو دولتیا کلچر فروغ پا رہا تھا، کہتے ہیں نہ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی تو میمن بھی چلتی ہوا کے رخ پر چل نکلے، انکی کفایت اور سادگی اب گئے دنوں کی بات ہوئی ۔
میمن برادری کی تقریب رخصتی اور ولیمہ کے دسترخوان ایک طویل عرصے سے ملٹی ڈشش اور کولڈرنک سے مرصع ہیں اور ہم اتنے ہی عرصے سے ان میں مدعو ہوتے ہیں اور گھر کی تقریبات میں میزبان، مگر قاعدہ یہی ہے کہ ایک بلیک اور ایک وائٹ ڈرنک، احمد سہیل صاحب میمنوں کی دعوت میں تواتر سے پاکولا پئے چلے جارہے ہیں وہ کیسے وہ وہی بتا سکتے ہیں ۔
پاکولا کو اگر آپ نے مزاح کے طور پیش کیا ہے تو عرض یہ ہے کہ جب بات ہی درست نہیں تو کیسا مزاح اور کیسی ہنسی، زرا دیر کو توجہ دیجئے گا، جب پاکستان معرض وجود میں آیا تھا تو اس ملک میں محض ایک بین الاقوامی برانڈ تھا “ کوکا کولا “ پاکولا والے یعنی حاجی قاسم تیلی گروپ نے بیوریجز میں سرمایہ کاری کی، پاکولا آئسکریم سوڈا، ومٹو اور اورنج انکی پیش کش تھی، آئسکریم سوڈا کو دیکھئیے برانڈ “ پاکولا “ یعنی پاکستان سے بنا پاک اور اسکا براںڈ پاکولا اور ذائقہ آئسکریم سوڈا جسکا رنگ سبز اور جسکی بوتل سفید، کیا سمجھے آپ ؟ ذرا ایک نظر سبز ہلالی پرچم پر ڈال لیجئے، بحرحال خالصتاً لوکل برانڈ کوئی رائلٹی کوئی فارن ایکسچنج کا نقصان نہیں، اس گروپ کی شاندار محنت کی بدولت آج اس ملک میں رائج تین کو چھوڑ کر سارے بین القوامی برانڈ اسی گروپ کی ملکیت ہیں جو میمن ہیں اور دھوراجی کے ہیں، بقیہ تین برانڈ کوک، فانٹا اور اسپرائٹ بھی ایک میمن فیملی احمد غریب فیملی کی ملکیت ہیں جو ممبئی کے ہیں ۔
ایک تھا شخص زمانہ تھا کہ دیوانہ بنا
ایک افسانہ تھا افسانے سے افسانہ بنا
اتنے سارے بین الاقوامی برانڈ کے زیر سایہ وہ اپنے پیرنٹ برانڈ کو کبھی نہیں بھولے، اسے بناتے ہیں، اسکی سپلائی میں کمی نہیں آنے دیتے اور اسکی پیشکش محبت کے ساتھ سال کے بارہ مہینے جاری رکھتے ہے، دوسرا برانڈ ومٹو جو سیاہ انگور کا شربت ہے متروک ہوچکا مگر ماہ رمضان میں اپنی خالص ترین معیار اور ذائقے میں، دام کے دام یا کچھ نقصان کرکے پیش کیا جاتا ہے تاکہ روزہ دار جب تراویح پڑھ کر گھر آئیں تو کالے انگور کے اس خالص مفرح مشروب کا لطف اٹھائیں ۔
اللہ کریم نے پاکولا کی نسبت سے انہیں جسطرح سے نوازا ہے اسکا شکرانہ وہ آئسکریم سوڈا اور ومٹو کی فراخدلانہ پیشکش کے زریعے ادا کرتے ہیں ۔"