اردو اور مراٹھی کے ادیب اور مترجم وقار قادی کی شخصی یاداشتوں، خاکے/ خاکہ نما کی کتاب " درشن " کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں شامل تمام مضامین اور خاکے وقتا وقتا اردو کے ادبی جرائد اور اخبارات مین شائع ہوتے رہے ہیں۔ جس کا زمانی اور مکانی سفر کئی سالوں پر محیط ہے۔ یہ ان شخصیات کی مشاہداتی رودادی نگاری ہے جس سے مصنف قریب رہے ہیں۔ ان خاکوں مین قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان خاکوں کے کردار اس کے بھی دوست ہیں اور وہ ان کے قریب رہے ہیں۔۔ یہ تطہیری نکتی ادبی نظرۃیے کی رسائی کے تحت ایک تفھیمی اور تشریحاتی عمک سے بھی گذرتا ہے۔ وقارقادری کے زیر نظر خاکوں اور شخصی سراپوں میں شخصیات کے کٹھے میٹھے اور اچھے برے پہلوقں کو اُجاگرکیا ہے۔ جو اس شخصیت کی ایک جیتی جاگتی تصویر قاری کے ذہن میں تخلیق کرتی ہے اور پیکر تراشی کے زریعے انباسظ اور غم آلود ہ پہلوں کو نمایاں کرتی ہیں۔ اسی لیے ڈاکٹر عطش درانی خاکہ نگاری کی اصطلاحات کو " شخصیہ" کا نام دیا ہے۔
ﺍُﺭﺩﻭ ﮐﯽ ﻧﺜﺮﯼ ﺍﺻﻨﺎﻑ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﻭﻝ ‘ ﺍﻓﺴﺎﻧﮧ ‘ ﮈﺭﺍﻣﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺸﺎﺋﯿﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺧﺎﮐﮧ ﻧﮕﺎﺭﯼ ﺑﮭﯽ ﺍﺩﺏ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺟﺪﺍﮔﺎﻧﮧ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﻔﺮﺩ ﺻﻨﻒ ﮨﮯ۔ﺧﺎﮐﮧ ﮐﮯ ﻟﻐﻮﯼ ﻣﻌﻨﯽ ﻣﯿﮟ ” ﮈﮬﺎﻧﭽﮧ ﺑﻨﺎﻧﺎ ﯾﺎ ﻣﺴﻮﺩﮦ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ “ ۔ ﺍﺩﺑﯽ ﻧﻘﻄﮧ ﻧﻈﺮ ﺳﮯ ﺧﺎﮐﮧ ” ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮐﯽ ﮨﻮ ﺑﮩﻮﻋﮑﺎﺳﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ۔ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻇﺎﮨﺮﯼ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﮐﺸﯽ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﺑﺎﻃﻦ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺍﺣﺎﻃﮧ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔ﺧﺎﮐﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﺍﺻﻄﻼﺡ ( Sketch ) ﺭﺍﺋﺞ ﮨﮯ۔ﻓﻦ ﻣﺼﻮﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻠﺘﯽ ﺟﻠﺘﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﺻﻄﻼﺡ ( Portraite ) ﺑﮭﯽ ﮨﮯ۔ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﮨﻮ ﺑﮩﻮ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔
وقار قادری کی اس کتاب کی قرات کرکے یہ محسوس ہوا کہ خاکہ نگاری جسے شخصیت نگاری کے نام سے بھی ہم جانا جاتاہے۔ ہر عہد، ہر ملک اور ہر زبان میں اس کے نمونے اور نقوش ملتے ہیں۔زندگی اور زمانے کے بدلتے ہوئے مزاج و میلان، نشیب و فراز ڈوبتی ابھرتی انسانی زندگی کے تمام رنگ و روپ خاکہ نگاری میں دیکھنے اور پڑھنے کو ملتے ہیں معاملہ معاشرتی وثقافتی ، علمی و ادبی ہو یاسیاسی، بڑی شخصیت ہو یا معمولی، عالم ہو یاجاہل،حکمراں ہو یا سماج کا ایک ادنیٰ انسان، مصنف کسی سے بھی متاثر ہوسکتا ہے اور کسی شخصیت کو موضوع و محور بناسکتا ہے۔ خاکہ ایک بے حد نازک فن ہے۔ یہاں قلم پر بے پناہ گرفت کے ساتھ ساتھ جرأ ت اور سلیقہ مندی بھی درکار ہے۔ تھوڑی سی لاپرواہی اور کوتاہی خاکہ کو مجروح کردیتی ہے۔ ایک ایک پہلو اور گوشے کو مصنف کو ملحوظ خاطررکھنا ہوتا ہے۔ اس لیے دنیا کی مختلف زبانوں میں بے شمار خاکے لکھے گئے ،مگرشاہکار کا درجہ کم ہی کے حصے میں آیا۔
خاکہ موضوع و محور بناسکتا ہے۔ خاکہ ایک بے حد نازک فن ہے۔ یہاں قلم پر بے پناہ گرفت کے ساتھ ساتھ جرأ ت اور سلیقہ مندی بھی درکار ہے۔ تھوڑی سی لاپرواہی اور کوتاہی خاکہ کو مجروح کردیتی ہے۔ ایک ایک پہلو اور گوشے کو مصنف کو ملحوظ خاطررکھنا ہوتا ہے۔ اس لیے دنیا کی مختلف زبانوں میں بے شمار خاکے لکھے گئے ،مگرشاہکار کا درجہ کم ہی کے حصے میں آیا۔
وقار قادری کے ان خاکوں کا یہ خلیقہ اور امتیاز بھی ہے کہ انھوں نے قاموسی رسائی کے تحت جغرافیائی، ثقافتی اور لسانی آکہیایوں سے بھی قاری کو آگاہ کرتے ہیں۔ اس قسم کا مزاج اردو کی خاکہ نگاری مین قدرے کم ہی نظر آتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں " علاقہ کوکن میں ضلع رتنا گیری کی تحصیل داپولی کے سمندری علاقوں پر آباد گاوں کو ہمارے یہاں کوکنی مین " بندر پٹی" یا " کنارہ پٹی" کہا جاتا ہے۔ یہاں بیشتر مسلمانوں کو آبائی پیشہ مچھلی کا شکار کرنا ہے۔ مچھلی کے اس کارو بار سے وابستہ لوگوں کو " دلداری" بھی کہا جاتا ہے ، جبکہ یہی کام جو غیر مسلم براداران کرتے ہین وہ " کولی کہلاتے ہیں ۔ اس پٹی کے لوگ خلیجی ممالک اور کچھ سمندری جہازوں پر سیلر{SAILOR} کے طور پر بھی برسر روزگار ہیں۔ سیلر کو یہاں کی بولی میں " سفری بھائی بھی کہا جاتا ہے۔ " {علی میاں پینٹر/ برونڈکر۔ صفحہ 151}
باقر مہدی اردو کے متنازعہ ادیب ہیں۔ جن سے لوگ جتبی محبت کرتے تھے اتنے ہی لوگ ان کو پسند نہیں کہتے تھے۔ ان کو چاہنے والون اور نہ چاہنے والوں کا تناسب قرب قریب برار برابر ہی تھا۔ وہ کارٹر روڈ کے فلیٹ میِں بیٹھ کر تمام شہر کی خبر رکھتے تھے ۔ اس لیے لوگ انھین " باخبر مہدی" کہا کرتے تھے۔ کتاب میں باقر مہدی کے حوالے سے وقار قادری رقم طراز ہیں۔ " ۔۔۔۔ باقر میں دکھاوا بالکل نہیں تھا۔ صاف گو اور حق گو آدمی تھا، تکلفات میں بالکل یقین نہیں نہیں رکھتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ باقر صاحب کے متعلق یہ لطیفہ ملاخطہ کریں : کسی انٹرویو میں باقر صاحب سے پوچھا گیا " آپ کا قریبی دوست کون ہے؟"
باقر صاحب نے ممبئی کے ایک بڑے انگریزی اخبار کے ایڈیٹر کا نام لیا۔ رام جی نے دبے الفاظ میں کہا ۔ " انگریزی اخبار کے مدیر صاحب سے بھی پوچھ لیجیے کہ کیا وہ باقر صاحب کو اپنا دوست مانتے ہیں" ۔۔۔۔ یہ لطیفہ رام جی نے ساجد رشید کے اخبار میں اپنے کالم میں لکھ مارا ۔ باقر صاحب باخبر آدمی تھے۔ انھون نے ساجد کی خبر لی۔ بعد میں جس نشت میں باقر صاحب ہوتے، رام اکری نشتون میں دبکے پڑے پائے جاتے" {" جئے رام جی کی ۔ [ڈاکٹر رام پنڈت] صفحہ 207}
" درشن" کے اسلوب نگارش میں وضع داری بھی ہے، سچائی بھی ہے بذلہ سنجی بھی ہے اور یہ رنگ اس کتاب کو دلچسپ باتی ہے۔کتاب تین ابواب پر پر مشتمل ہیں پہلے باب میں " صورتیں کیا کیا ملی ہیں خاک میں" کے تحت پروفیسر عالی جعفری، ندا فاضلی، بدیع الزناں خاور، یوسف ناظم ، پروفیسر میمونہ دلوی، محافظ، محمود ایوبی، ساجد رشید، انور ظہیر خاں ، م ناگ، مظہر سلیم، سیتو مادھو راو پگڑی، وجے تیندولکر، جیونت دلوی، دیاہورا، نیلو پھلے،شفیع انعام دار، جیتن داتار،رشید باوا، علی میاں برونڈکر، کبیر پالیکر، انور شیخ ۔۔۔ دوسرے باب میں رونق تمھیں جہان کی" اس عنوان سے علی ایم شمسی، سلام بن رزاق، یعقوب راہی، رام پنڈت ، اسماعیل یوسف کالج کی یادین، اقبال نیازی کے حوالے سے ۔۔۔۔ اور تیرے باب میں "محبت نامے" کی سرخی کے تحت ڈاکٹر قاسم امام اور عباس مجّہد نے وقار قادری کی شخصیت پر اچھی یاد نگاری کی ہے۔ کتاب میں علی امام نقوی اور انور خان کی کمی محسوس ہوئی۔ اس کتاب میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جن کو اردو دنیا نہیں جانتی یا بہت کم جانتی ہے ۔ خاص طور پر پاکستاں کے قارئین کتاب مِیں شامل بہت سی شخصیات کو تو ان کے نام اور کام سے جانتی ہیں مگر زیادہ تر نام ایسے ہیں جن سے پاکستانی دوست آگاہ نہیں ہیں۔ "درشن" میں کَی ایسے مراٹھی فنکاروں اور ادیبوں سے ملاقات ہوئی جو ابھی تک ہمارے ذہنوں سے معدوم تھے۔ جن کو کتاب کا کا جازب نظر سرورق التمش رشید نے بڑی محنت اور فنکاری سے بنایا ہے۔ میریوقار قادری سے دو بار ملاقات رہی ہے ان کے محلے میں میرا روڈ پر شیم عباّس کے گھر میں ایک ادبی نشست میں اور دوسری ملاقات منٹو کی صد سالہ جشن {کتنے منٹو} کےموقعے پر ایک سیمنار میں ہوئی۔ مجھے وہاں یہ محسوس ہو یہ بہت متحرک ہستی ہیں۔ جن کو آپ " چھلاوا" بھی کہ سکتے ہیں۔ یہ ادبی محفلوں، تقریبات اور نشتوں کی بہترین مہمان داری کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ " درشن" کو " کتاب دار" ممبئی نے شائع کیا ہے۔ کتاب حاصل کرنے کے لیے ان فوں نمبرز پر رابطہ کیا جاسکتا ہے:
کتاب دار/ شاداب رشید
…….
وقار قادری