ہندو معاشرے کی شادیاں
دوسرا اور آخری حصہ
جنم پتری
اکثر ہندوؤں شادی بیاہ اپنی ذات کی کسی گوت میں کرتے ہیں ۔ یعنی برہمن کی برہمن سے ، چھتری کی چھتری سے ، ویش کی ویش سے اور شودر کی شودر سے ۔ ذات کے علاہ جنم پتری کا ملنا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ یعنی کسی ذات کے لڑکے کا جنم پتر اسی ذات کی لڑکی مل جائے اس کے ساتھ ہی بیاہ کرنا چاہیے ۔ اگرچہ زیاد تر ہندو اپنے بچوں کا جنم پتر ملانے کے بعد ہی بیاہ کرتے ہیں اور جنم پتری کے ملنے کا مطلب سمجھا جاتا کہ دونوں میں محبت اور عمر دراز ہوگی ۔ ہندو معاشرے میں جنم کنڈلی ملنے کے باوجود ناچاقی اور طلاق کے واقعات عام ہیں ۔ اس کے علاوہ بیواؤں کی کمی نہیں ۔ لیکن عام طور پر ہندو بھی جنم پتری پر اعتقاد نہیں رکھتے ہیں ، لیکن اس کے باوجود جم پتری کو ایک سماجی ضرورت اور مجبوری سمجھا جاتا ہے ۔ اکثر اچھے رشتہ کی صورت میں لوگ جنم پتری نہ ملنے کی صورت جنم پتر بنانے والے برہمن کچھ روپیہ دے کر جنم پتری کی خرابیاں دور کروالیتے ہیں ۔ تعلیم یافتہ اور بعض ہندو قومیں مثلاً سادہ کے علاوہ وہ قومیں جو عورت کی دوسری شادی کرتی ہیں وہ بھی جم پتری نہیں پر یقین نہیں رکھتی ہیں ۔
دوسری ذاتوں میں شادی
عام حالات میں ہندو شادی بیاہ صرف ذات کے اندر جائز سمجھتے ہیں ۔ لیکن بعض حالات میں اس کے برعکس بھی عمل ہوتا رہا ہے ۔ مثلاً برطانوی عہد میں جزیرہ انڈومان سزا طور پر بھیجے جانے لوگ گوتر یا ذات کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور کسی بھی ذات کی جو عورت سے شادی کرلیتے تھے ۔ مثلاً کانپور کے کنوجیہ برہمن بھڑ بھونجا کی لڑکی سے ۔ کمایوں کے ڈوم کھاسی راجپوت کی لڑکی سے ، بمبمئی کے کنبھی مرہٹہ کی لڑکی سے ، آسام کے کایستھ بیدیا کی لڑکی سے پنجاب کے سنار اور نائی اور کھاسی کنیٹ کی لڑکی سے سادہارن برہمو سماج کے برہمن ، کایستھ اور بیدیا آپس میں ایک دوسرے کی لڑکی سے بیاہ کرتے ہیں ۔ جاٹ ، گوجر اور راجپوت کے گوتر کے لوگ چماروں اور دیگر کمتر اقوام کی لڑکیاں خرید کر ان کے ساتھ بیاہ کرتے ہیں ۔ ذات پر کوئی بھی اعتراض نہیں کرتا تھا ۔ لیکن اس کے برعکس بنگال میں کوئی ایسی لڑکی سے شادی کرنا چاہے جو اس کی ذات کی نہیں ہے تو اسے ذات سے باہر نکال دیا جاتا ہے ۔
بیویوں کی تعداد
عام طور پر ہندوؤں میں ایک ہی شادی کا دستور اور ایک بیوی ہوتے ہوئے دوسری شادی نہیں کرتے ہیں ۔ لیکن اس کے برعکس راجہ دسرتھ کی تین رانیاں تسلیم کی جاتی ہیں ۔ مہابھارت میں اکثر لوگوں کی کئی بیویاں بتائی گئیں ہیں ۔ سوتیا ڈاہ کی کہاوتیں بھی یہی بیان کرتی ہیں ۔ ‘ کاٹھ کی سوت بری ہوتی ہے ’ یا ’ مورا جیا نہ پتیاوی سوت کا پاؤں ہلتا جائے ’۔
بھوبن ہار ذات میں بیویوں تعداد مقرر نہیں ہے ، ہر شخص اپنی مرضی مطابق جتنی چاہے شادیاں کرے ۔ ۱۸۷۱ء میں کلکتہ سے بھووداہ شائع ہوا اس میں بتایا گیا کہ ایک موضع میں چار افراد ایسے ہیں جن کی بیویوں کی تعداد ۶۵ ، ۵۶ ، ۵۵ ، ۴۱ ہے ۔ ایک شخص جس کی عمر صربیس سال ہے اس کی سولہ بیویاں تھیں ۔ ۱۸۹۶ء میں جگندرو ناتھ بٹھیاچارجی نے لکھا ہے کہ اگلے زمانے اعلی درجہ کی کلیں ( اعلیٰ خاندان ) والے سو بیویاں رکھتے تھے اور اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کے پاس بہت سی بیویاں ہیں اور بیویوں کے نام پتہ اور رہائش کے لیے رجسٹر رکھا جاتا ہے ۔
پولندری بیاہ
کایستھ کہتے کہ ایک عورت کا ایک شوہر ہونا چاہیے ۔ ان میں کوئی عورت بدچلن ہو تو اسے اور اس کے رشتہ کو برادری والے فوراْ ذات سے باہر کردیتے ہیں ۔ بدچلن عورت کی دوبارہ شادی نہیں ہوسکتی ہے اور نہ اس کے یا اس کے رشتہ داروں کے ساتھ کھانا کھاسکتا ہے ۔ اس کے برعکس ڈیرہ وون کی پہاڑی قوموں ، پنجاب کے بعض قبائل اور جنوبی ہند میں ایک عورت کے کئی شوہر ہوتے اور یہ شادی پولندری بیاہ کہلاتی ہے ۔
طلاق
راسخ عقیدہ ہندو طلاق کو کو جائز نہیں سمجھتے ہیں ۔ اگرچہ اب اسے قانونی طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے ۔ لیکن اس کے برعکس سادہ کی تمام تمام کمتر زاتیں جب چاہتی ہیں اپنی بیویوں سے قطع تعلق کرلیتی ہیں ۔ لیکن برودھ ، جموں ، وسط ہند کی بعض قومیں ایک دوسرے سے جب چاہتی ہیں قطع تعلق کرلیتی ہیں ۔ ہوشنگ آباد میں جادم راجپوت کی عورتیں اپنی زندگی میں دس شوہروں کی تبدیلی کا حق رکھتی ہیں ۔ چھتس گڑھ کی تمام اقوام اور آسام میں کھاسی قوم کی عورتیں جب چاہے شوہر کو تبدیلی کرلیتی ہیں ۔
بیوہ کی شادی
راجپوتوں اور جاٹوں کی بہت سی ذاتیں مشترک ہیں راجپوت بیواؤں کی شادی نہیں کرتے ہیں ۔ جب کہ جاٹوں میں بیواؤں کی شادی کا رواج رہا ہے ۔ اس طرف راجپوتوں اور جاٹوں فرق بیواؤں کی شادی کا ہے ۔ راسخ عقیدہ ہندو بیواہ کی شادی کو جائز نہیں سمجھتے ہیں ۔ لیکن دیگر علاقوں میں جاٹوں کے علاوہ دوسری قومیں بیواؤں شادیاں کرتی ہیں ۔ مدراس کی بعض ذاتیں مثلاً وسط ہند کے بنجارے ، مارواڑ کے راجپوت ، پنجاب کے جاٹ اور کی پہاڑی قومیں ، برودہ اور اوڑیسہ کی تمام ذاتیں بیواؤں کی شادی کرتی ہیں ۔
نیوگ
شوہر بیمار ہو یا کسی وجہ سے اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں ہے یا وہ مرچکا ہو تو وہ نیوگ کے ذریعہ اولاد پیدا کرسکتی ہے ۔ نیوگ اور بیاہ میں فرق یہ ہے بیاہ میں تعلق زندگی بھر رہتا ہے اور کبھی قطع نہیں ہوسکتاہے ۔ مرد کو عورت کی کفالت اور عورت کو مرد کی خدمت کرنی پڑتی ہے ۔ لیکن نیوگ میں مرد اور عورت جینسی تعلق کے علاوہ کچھ اور سروکار نہیں رکھتے ہیں ۔ یہ تقریباً شیعوں کے متعہ کی طرح ہے ۔
ہندو ناٹکوں میں ایسی بہت سی کہانیاں ملتی ہیں جن میں عورتوں نے لب دم یا موت سے پہلے شادی کی اور ان عورتوں نے نیوگ کے ذریعہ پیدا کی اور وہ اولاد مرنے والے کہلائی اور اس اولاد نے اپنے باپ کو نرک سے بچایا ۔ اس طرح کشمیر میں ٹھاکر قوم کی عورتیں اگرچہ دوبارہ شادی نہیں کرتی ہیں لیکن اگر اولاد نہیں ہو تو کسی شخص سے تعلق پیدا کرلیتی ہیں اور اس کے نقطہ سے جو اولاد پیدا ہوتی ہے اس کو مرے ہوئے شوہر کی قرار دیتی ہیں ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...