ارض پاکستان کا ماقبل تاریخ کا زمانہ
انسانی زندگی کے گزرے ہوئے واقعات کو بیان کرنے کو اصطلاح میں تاریخ کہتے ہیں ۔ تاریخ مختلف قوموں کے ظہور تنزل ، ترقی ، آثار ، رسوم ، عقائد اور مشہور لوگوں کے کارنامے کو بیان کرتی ہے اور جو اہم امور ظہور پذیر ہوئے ان کے اسباب اور نتائج بتاتی ہے ۔
لیکن ابتدا میں انسان تحریر سے نا آشنا تھا تو وہ اپنے حالات لکھ نہیں سکتا تھا اس لیے ہم اس زمانے کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں اور ہم ان کے آثار سے کچھ نتیجے اخذ کرتے ہیں کہ ان کا طرز رہائش ، مذہب اور ثقافت وغیرہ کیسی تھی ۔
ہم جانتے ہیں ابتدا میں انسان غاروں میں رہتا تھا جانوروں اور مچھلیوں کا شکار کرکے کھاتا تھا اور ساز و سامان چند چیزوں پر مشتمل ہوتا تھا ۔ اس کے استعمال کی چیزیں ہڈی ، پتھر اور کھالوں کی ہوتی تھی ۔ وہ پتھر کو ٹور کر اس کے چھری یا نیز نیزے بناتا تھا ۔ ان پتھروں کو کسی لکڑی کے سرے پر کسی طرح باندھ کر اس کے نیزے بنالیا کرتا تھا اور اس نے رفتہ رفتہ ترقی کرکے اس حال تک پہنچا ۔ یہ ابتدائی زمانہ قدیم حجری زمانہ کہلاتا ہے ۔ پاکستان بھی اس حجری دور سے گزر کر تاریخ کے دور میں داخل ہوا تھا اور یہ زمانہ ماقبل تاریخ کا دور یا زمانہ کہلاتا ہے ۔
یہ حجری دور کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ (۱) بالائی یا قدیم حجری دور (۲) وسطی حجری دور (۳) جدید حجری دور ۔
بالائی یا قدیم حجری دور
پاکستان میں بالائی یا قدیم حجری دور تقریبا چھ لاکھ قبل سے سے شروع ہوکر ایک لاکھ قبل تک جاری رہا ۔ اس دور میں انسان صرف پتھروں اور لکڑیوں کے بھدے اوزار بنانا سیکھ گیا تھا اور جھاڑیوں اور جھاڑوں اور لکڑیوں کی مدد سے جھوٹے موٹے گھر یا جھگیاں بنانے لگا تھا ۔ یہ انسان جانوروں کا شکار کرنے کے بعد اس کی کھالیں لباس کے طور پر استعمال کرتا ہوگا ۔ یہ اس زمانہ میں لوگ مل جل کر رہتے ہوں گے اور ان کے آثار وادی سون و پوٹھوار کے علاقہ میں کثرت سے ملے ہیں ۔ یہاں ایک انسانی کے جبڑے کے کچھ حصہ ملے ہیں اور اس انسان کو پاکستان نے سرکاری طور پر پوٹھوار مانس نام دیا ہے ۔
وسطی حجری دور
وسطی حجری دور میں انسان نے ترقی کی اور اس نے چھوٹے موٹے جانوروں مثلاً بکریوں کا شکار کرنا اور انہیں آگ پر بھوننا سیکھ گیا اور دور میں بعض جانوروں یعنی گائے ، کتاب ، بکری اور گھوڑا وغیرہ پالتو بنالیے گئے ۔ یہ دور پچاس ہزار قبل سے پندرہ ہزار سال قبل تک رہا ۔ اس دور میں انسان نے غاروں میں رہنا سیکھا اور وہ اپنے جذبات کے اظہار کے لیے تصویریں بھی بنانا سیکھ گیا ۔ اس کے علاوہ اس کے پتھروں کے اوزار بھی بہتر ہوگئے ۔ ان میں کھال چھیلنے والے دستی کلہاڑے اور چھریاں وغیرہ شامل ہیں ۔ اس دور کے آثار پاکستان کے شمالی علاقہ میں ملے ہیں ۔ اس میں مردان کے قریب شنگھاؤ کے غار کے آثار اور اور چیلاس کی تصویریں قابل ذکر ہیں ۔
جدید حجری دور
جدید حجری دور سے مراد جب انسان پتھر کے انتہائی ترقی یافتہ اوزار جنہیں رگڑائی ذریعہ بہتر اوزار بنانے لگا ۔ وہ متفرق ٹکڑوں جوڑ کر اوزار بنانے لگا ۔ مگر ابھی تانبہ یا کانسی سے واقف نہیں ہوا ۔ یہ دور چھ ہزار سال قبل سے شروع ہوا اور تین ہزار قبل سال تک رہا ۔ اس دور کے آخر میں تانبہ دریافت ہوگیا اور ہاتھ سے مٹی کے برتن بنانے لگا ۔ ابتدا میں ٹوکری والے برتن اور اس دور کے آخر میں ست ترین چاک دریافت ہوگیا تھا ۔ مذہب کا آغاز ، پیشوں کی تقسیم اور سماج میں طبقات پیدا ہوگئے تھے ۔ اس دور میں انسان نے جگہ جگہ بستیاں قائم کرلیں تھیں ۔ وہ گہوں اور کچھ اناج بھی اگانا سیکھ گیا گیا ۔ جن کی بالیاں وہ بھون کر کھاتا تھا ۔ ابھی اس کو آٹا بنانا نہیں سیکھا تھا ۔ اس نے مختلف مقامات پر بستیاں قائم کرلیں تھیں ۔ پاکستان میں یہ بستیاں سب سے پہلے بلوچستان کے علاقہ میں ملیں اس لیے اس دور گدروشی دور یا ثقافت کہتے ہیں ۔ اس ترقی یافتہ بستیاں آمری ، کوئٹہ سیاہ ، دمب نال ، سرائے کھولا (ٹیکسلا ) ، کلی گل محمد اور توگاؤ (قلات) وغیرہ میں ہیں ۔
خیال کیا جاتا تھا پاک و ہند میں تمذن کی بنیاد آریاؤں نے 1500 ق م میں ڈالی تھی ۔ اس سے پہلے یہاں کے باشندے جنگلی اور تہذیب و تمذن سے کوسوں دور تھے ۔ مگر وادی سندھ کی تہذیب کی دریافت ساتھ اس نظریے میں یک لخت تبدیلی پیدا کردی اور اس ملک کی تاریخ کو ڈیرھ ہزار پیچھے کردیا ۔ ایک طرف موہنجودڑو اور ہڑپا کے آثار سے سندھ کی قدیم تہذیب کے بارے میں جو معلومات ہوئیں ان سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ کی ہے کہ کہ آریوں کے آنے سے بہت پہلے یہ ملک تہذیب و تمذن کا گہوارہ بن چکا تھا ۔ وادی سندھ کی تہذیب ارض پاکستان کی قبل از تاریخ دور کی سب سے شاندار چیز ہے ۔ اس تہذیب کی بہت سی خصوصایت ایسی ہیں جو صرف اس کے ساتھ مخصوص ہیں ۔
جب ہم متاخر حجری عہد سے گزرتے ہی سندھ کی وادی میں ہماری نظر تمذن کے ایسے آثاروں پر پڑتی ہے کہ ہم ٹھٹھک کر رہ جاتے ہیں ۔ ہم ابھی اجتماعی زندگی کی بنیاد پڑنے ، بستیاں بسنے ، صنعت میں کس قدر مشق و صفائی پیدا کرنے کا ذکر کر رہے تھے ۔ اب یک بارگی ہمیں عالی شان شہر دیکھائی دیتے ہیں ۔ ان کے مکانات پختہ اور مظبوط دو دو تین تین منزلہ اونچے ہیں ۔ ان میں سڑکیں ہیں ، بازار ہیں ۔ ان کے باشندوں کی زندگی و رواج اور عادات سانچے میں ڈھلی ہوئی معلوم ہوتی ہے ۔ وادی سندھ کی تہذیب کی بے نقابی اور تشریح شاید بیسویں صدی کا عظیم ترین عصریاتی واقعہ ہے ۔ کیوں کہ اس تہذیب کی وسعت اور معنویت کو 1922 میں موہنجودڑو کی کھدائی سے پہلے سمجھا ہی نہ جاسکا ۔
پہلے اس تہذیب کے بارے میں ماہرین کی رائے تھی کہ یہ مغربی ایشیاء سے اس سرزمین سے لائی گئی تھی اور مغربی ایشیاء کے تہذیبی عروج و ذوال کا تمتہ تھی ۔ مگر بعد کی دریافت کے بعد نئی چیزیں سامنے آئیں اور تصورات میں تبدیلی واقع ہوئی ۔ کوٹ ڈیجی کی آبادی ہڑپہ سے بھی 800 سال پرانی ہے ۔ اب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ اس تہذیب کے سرچشمے اسی سر زمین میں تھے ۔ یہ مقامی سماج کے ارتقاء کا لازمی نتیجہ تھی اور بیرونی اثرات جو بھی تھے وہ ثانیوی اور کم اہم تھے ۔ اس تہذیب کا پختہ زمانہ تو 2500 ق م سے لے کر 1700 ق م ہے ۔ لیکن در حقیت اس کا تسلسل 3800 ق م تک نظر آتا ہے ۔ اس تہذیب کا دائرہ اثر شمال میں شمالی افغانستان کے علاقہ بدخشاں سے لے کر جنوب میں ساحل سمندر تک ہے ۔ جہاں یہ بلوچستان کے ساحل سے لے کر کاٹھیاواڑ تک محیط ہے ۔ ابتدا میں کھدائیوں میں اس تہذیب سے وابستہ شہر اور قبضوں کی تعداد بیالیس تھی ۔ مگر اب ان کی تعداد میں سیکڑوں کا اضافہ ہوچکا ہے ۔ صرف چولستان میں ڈاکٹر رفیق مغل نے اس تہذیب سے وابستہ تین سو تریسٹھ مدفون بستیاں نکالی ہیں ۔ اس کے علاوہ سرائے کھولا ، جھنگ ، بٹھیال ، وادی سوات میں غالاگئی ، وادی گومل میں کے کئی مقامات ، بلوچستان کے علاقہ کچھی کے علاقے میں مہر گڑھ میں اس تہذیب کے اثرات ملے ہیں ۔ بھارت میں دریائے گھگھر )ہاکڑہ( اور اس کے معاون دریاؤں کے طاس کا علاقہ ان آثار سے پر ہے ۔ اس میں راجپوتانہ ، مشرقی پنجاب اور ہریانہ کے صوبے شامل ہیں ۔ یہاں جن مقامات سے اس تہذیب کے آثار ملے ہیں ان میں کالی بنگن ، سیسوال ، بانے والی منڈا اور دوسرے بہت سی جگہیں شامل ہیں ۔ ساحل کے قریب لوتھل اور رنگ پور بڑے شہر تھے ۔ اس تہذیب کا سب سے پہلے ملنے والا شہر ہڑپہ تھا اور اس وجہ سے اسے ہڑپہ سویلائزیشن بھی کہا جاتا ہے ۔ دوسرا بڑا شہر موہنجودڑو تھا ۔ بعد میں گنویری والا دریافت ہوا ۔ جو ہڑپہ سے بڑا شہر ہے لیکن ماہرین زیادہ اہمیت ہڑپہ اور موہنجودڑو کو دی ۔ اس تہذہب کے نمایاں شہر موہنجودڑو ، ہڑپہ کے علاوہ چنھودڑو ، ستکگن دڑو ، بالاکوٹ ، سوتکا کوہ ، ٹوچی ، مزینہ دمب ، سیاہ دمب ، جھائی ، علی مراد ، گنویری والا اور معتدد شہر شامل ہیں ۔
اس تہذیب کا سب سے پہلے ملنے والا شہر ہڑپہ تھا اور اس وجہ سے اسے ہڑپہ سویلائزیشن بھی کہا جاتا ہے ۔ اس دور میں تانبہ اور کانسی کا استعمال شروع ہوگیا تھا ، مگر لوہے کی دریافت آخر میں ہوئی ۔ لوہے کی چند اشیاء آخر دور میں ملیں ۔ اس دور انسان تحریر سے آگاہ ہوچکا تھا ۔ اس دور میں چکی ایجاد نہیں ہوئی تھی اور لوگ گندم کو کوٹ کر اس کا آٹا بناتے تھے ۔
اس تہذیب کے ذوال کے ساتھ ہی برصغیر پاک و ہند میں آریوں کی آمد ہوئی اور تاریخی دور کا آغاز ہوا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔