بدھ مت اور اسلام
’’میں نے اپنے ایک مضمون ’اسٹوپہ’ میں ایک جملہ لکھا تھا ’’اس سے کچھ جان پیدا ہوئی مگر اس کے بعد اس سرزمین پر سے بدھ مت فنا ہوگیا’‘ اس جملہ پر بہت سے لوگوں اس کی وضاحت چاہی ۔ میں کچھ کو میں مطعین کردیا مگر مجھے اندازہ ہے اور لوگ بھی اس بارے میں سوالات کریں گے ۔ اس لیے میں نے بہتر سمجھا کہ اس کا مفصل جواب دینا چاہیے ۔’’
بدھ مت مذہب کی کتابیں دیکھیں تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے گوتم نے کسی مذہب بنیاد نہیں رکھی تھی بلکہ اس نے ایک مصلح یا فلسفی کی حثیت سے سارا زور اخلاق اور اعمال دیا تھا اور ان بنیادی عقائد جن پر ایک مذہب کی تعمیر ہوتی ہے نظر انداز کردیا تھا ۔ گوتم نے نہ تو خدا کے وجود پر کوئی بات صاف کہی ہے اور نہ کائنات کی تخلیق کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے اور نہ ہی روح کی وضاحت کی ہے بلکہ اسے مادہ کا جز کہے کر خاموشی اختیار کی ہے ۔ جنت و جہنم ، حشر ونشر اور آخرت و قیامت جیسے مسائل کو انہوں نے پس پشت دال دیا ہے اور آواگون کے ہندو عقیدے کو اہمیت دی ۔ اس میں کوئی شعور اور ارادہ کارفرما نہیں ہے ۔
گوتم نے ان تمام مسائل کی وضاحت اور تشریح کے بجائے اخلاقی احکام کی تلفین کی ہے کہ ان کے ذریعے نروان حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ علاوہ ازیں گوتم نے والدین ، اولاد ، استاد و شاگرد ، خادم و آقا اور شوہر و بیوی کے فرائض ، حقوق اور زمہ داریاں والدین کو حکم دیا ہے کہ وہ بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ دیں اور انہیں برائی سے بچائیں انہیں کے لئے ترکے کی شکل میں معاش مہیا کریں ، اولاد کو حکم دیا کہ وہ والدین کی اطاعت اور احترام کریں ۔ اس طرح دوسرے لوگوں کو شفقت ، محبت ، ہمدردی ، احترام ، وفاداری ، ہنرمندی ، مساوات ، حسن سلوک ، ادب اور تعظیم کی ہدایت کی ہے ۔ گویا وہ ایک فلسفی کی حثیت سے انسان کی خصوصیات اور صفات و روپ پر بحث کرتا ہے ۔ ان احکام پر ایک مذہب کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی ہے ۔ گوتم مذہب کے تمام فطری مسائل کو حل کرنے سے قاصر رہے ۔ یہی وجہ ہے بدھ مذہب ان لوگوں کے درمیان توپھیل سکا جو بت پرست اور اوہام پرست تھے ۔ مگر اہل مذہب کے مقابلے میں قطعی ناکام رہا ۔
یعنی گوتم نے جن بنیادی عقائد پر ایک مذہب کی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے نظر انداز کردیا اور نہ ہی وجود اللہ تعالیٰ کے بارے میں کچھ بتایا اور نہ ہی آخرت کا خوف لوگوں کے دلوں میں بٹھایا بلکہ روح کے وجود سے انکار کرکے اخلاقی احکامات کی تمام بندشوں کو ڈھیلا کردیا ۔ اس بنیادی کمزوری کی وجہ سے یہ مذہب علم کے لوگوں میں مقبول نہیں ہوسکا ۔ انہوں نے اسے ایک اصلاحی تحریک سے زیادہ اہمیت نہ دی ۔ نیز مسائل محتاج تشریح کی رہنے کی وجہ سے اس کے متعبین میں وہ شدت پیدا نہیں ہوسکی جو ہونی چاہیے تھے ۔
گوتم نے رہبانیت اور ترک دنیا پر زور دیا تھا ۔ حلانکہ یہ تعلیم چند افرد کے لئے مناسب ہے لیکن عام لوگوں کے لئے ناقابل قبول اور ناممکن عمل ہے ۔ یہ نقص اس مذہب کو ہمہ گیر بنانے میں سخت حائل رہا ۔ اس سے ایک طرح بدھوں کے اندر مختلف دنیاوی امور کو ترقی دینے اور منوانے کے جذبہ کو مردہ کردیا اور دوسری طرف راجاؤں کی سرپرستی اس کے اخلاقی انحاد کا باعث بنی ۔ راہبانہ زندگی میں راجاؤں کی قربت اور نواشات ان کی اخلاقی طاقتوں کے لئے صبر آزما ثابت ہوئی ۔ فطرتی کمزوریاں انہیں آرام طلب عیش پسند اور حریض بنے سے نہیں روک سکیں اور کچھ دنوں کے اندر ان کے سنگھ برائیوں کے مرکز بن گئے ۔ یہ ہندوستان میں وسیع پیمانے پر پھیلا مگر بارویں صدی تک اپنی جنم بھومی سے نست و نابود ہوگیا ۔
بدھ مت کے بنیادی طور پر دو فرقوں ہیں ان میں ہنیان فرقہ جزویات کو چھوڑ کر کلیات میں قدیم مذہب پر کاربند ہے ۔ یہ گوتم کی تعلیمات کے مطابق روح اور خدائی کا قائل نہیں ہے نیز گوتم کو ہادی مانتا ہے ۔
مہایان اس کے برعکس گوتم کو اور اس کی مورت کو بحثیت دیوتا کے پوجا کرتا ہے ۔ اس فرقہ میں مقامی دیوتاؤں کی بھی پوجا کی جاتی ہے ۔ یعنی جہاں بھی بدھ مت پھیلا وہاں کے عقائد اور دیوتاؤں بھی اس میں شامل ہیں ۔ اس لیے جب ڈاکٹر لی بان نے نیپال میں بدھ ہندو دیوتاؤں کا سنگم دیکھا تو اس نے کہا کہ بدھ مت کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوئیں اور اب ایک مذہب کی شکل میں وجود میں آگیا ۔ اس فرقہ کو نیپال منگولیا ، چین ، جاپان اور تبت میں ہے اور ہر جگہ یہ مقامی عقائد کے اور دیوتاؤں کے ساتھ اب بھی موجود ہے ۔
اس مذہب کے اندر ایک اہم نقص عدم تشدد کی تھی جو اس کے ذوال کا اہم سبب بنی ۔ یہ تعلیم ممکن ہے راہبیانہ زندگی کے لئے اہمیت رکھتی ہو مگر اجتماعی زندگی میں بہت تباہ کن اور مہلک چابت ہوئی ۔ بدھوں نے اس اصول پر ان لوگوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جو وشنو کے عدم تشدد کے قائل تھے اور انہوں نے تشدد کے لفظ کو بے معنی بنا دیا تھا ۔ ایسی حالت مین جب وشنو کے ماننے والے ان کے خلاف آرستہ ہوئے تو بچاؤ کی کوئی صورت پیدا ہو نہ سکی اور وہ تباہ ہوگئے ۔ ہنوں نے ان امن پسند بدھوں کا قتل عام کیا اور ان کی خانقاہوں اور دھاروں کو آگ لگا کر سیکڑوں اور ہزاروں لوگوں کا قتل عام کیا ۔
مسلمانوں کے حملے بدھ مت کے خاتمہ کا سبب بنے ۔ بدھ مت برصغیر میں اگرچہ کمزور ضرور ہوگیا تھا مگر پھر اپنا وجود قائم کئے ہوئے تھا ۔ اس وقت وادی کابل ، ، شمالی علاقوں ، موجودہ پاکستان ، مشرقی ہندوستان اور بنگال کے علاقہ میں لوگوں کی کثیر تعداد بدھ مت سے تعلق رکھتی تھی ۔ مسلمانوں کی جب ہندو راجاؤں سے کشمش شروع ہوئی تو مسلمان بدھوں اور ہندوؤں میں تمیز نہیں کرتے تھے ۔ کیوں کہ دونوں بت برست تھے اور ان کہ خانقاہوں دھاروں کو سازش اور گڑھ سمجھتے اس لیے بدھوں کی خانقائیں اور دھار جلا گئے اور گنجے سادھوں کا قتل عام بھی کیا گیا ۔ پشاور میں اس وقت کنشک کا عظیم مینار باقی تھا ۔ مگر اسے بھی آگ لگا کر نست و نابود کردیا گیا ۔
لیکن اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ بدھ مت کے پیروکاروں نے مسلمانوں کی آمد کے بعد تیزی سے بغیر کسی جبر کے رضاکارنہ طور پر نہایت تیزی سے اسلام قبول کرلیا ۔ یہی وجہ ہے وادی کابل ، شمالی علاقوں موجودہ پاکستان اور بنگال کے علاقوں میں مسلمانوں کی اکثیریت ہے جو کہ پہلے بدھ مت کی پیرو کار تھی اور اسی قسم کی صورت حال وسط ایشیا اور افغانستان میں پیش آئی جہاں کا ٖغالب مذہب بدھ مت تھا اور بلخ اور بخارا اس کے بڑے مرکز تھے ۔ یہاں بھی بدھ مت کے پیروؤں نے اسلام کو اس تیزی سے قبول کیا کہ ان تمام جگہوں پر بدھ مت کا کوئی پیروکار باقی نہ نہیں رہا ۔ اگرچہ اس قبول اسلام کا سہرا اہل تصوف پر باندحا جاتا ہے ۔ مگر یہ درست نہیں ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔