قدیم ایرانی زبانیں
ایران کے درمیان ایک وسیع صحرا تھا۔ اس وجہ سے ان دونوں علاقوں کے درمیان کبھی قریبی تعلقات پیدا نہ ہوسکے اور قدیم زمانے ہی ایرانی زبان قدیم دوحصوں اوستا اور قدیم فارسی میں مستقیم ہوگئی تھی۔ اس کی وجہ سے ان کی بولیاں بھی مختلف تھیں۔ اوستا تعلق شمالی ایران سے تھا اور قدیم فارسی کا تعلق جنوبی ایران سے تھا۔ ایرانی زبانوں یعنی اوستا، قدیم فارسی اور پہلوی میں ’ل‘ استعمال نہیں ہوتا تھا۔
اوستا
ایرانی کی قدیم زبان اوستا تھی۔ کیوں کہ زرتشت کی مذہبی کتاب اسی زبان میں لکھی گئی تھی اور اسی نسبت سے اوستا کہلاتی ہے۔ بعض محیقین کا خیال ہے کہ اوستا میدی عہد کی زبان تھی اور قدیم فرنس اسی زبان سے نکلی ہے۔ اوستا کا رسم الخظ آرامی سے ماخوذ ہے لیکن یہ قدیم فارسی کے برعکس دائیں سے بائیں لکھی جاتی تھی۔ ساسانیوں کے دور میں پانچویں صدی عیسویں اردشیر اربکان نے اوستا زبان کو زندہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس لئے یہ یقین کیا جاسکتا ہے کے امتداد زمانہ سے اس میں تبدیلیاں واقع ہوئی ہوں گی۔ اوستا کے اندر گھاٹا کا حصہ ہے دوسروں سے مختلف ہے اور اس کی زبان بھی قدیم معلوم ہوتی ہے۔ اوستا میں قدیم فارسی سے زائد حروف تھے۔ اس میں بے رنگ حروف علت کے علاوہ دوہرے حروف علت ’ااے‘ وغیرہ اور بہت سے حروف صحیح مثلاً تین قسم کی ’ش‘ اور تین قسم کی ’ز‘ وغیرہ پائی گئی ہیں۔ اوستا زبان کی مشابہت ویدک زبان سے ہے۔
قدیم فارسی
قدیم فارسی اس عہد کی فوجی اور شاہی زبان کی حیثیت رکھتی تھی اور عرف عام میں قدیم فرنس کہلاتی تھی۔ یعنی ہخامنشی بادشاہوں کی سرکاری زبان قدیم فارسی تھی اور اس زبان میں ہخامنشی بادشاہوں کے کتبے دستیاب ہوئے ہیں، ان کا رسم الخط میخی تھا جو آرامی رسم الخط سے ماخوذ ہے۔ مگر ایرانیوں نے اس رسم الخظ میں ہجا کے بجائے حروف تہجی استعمال کئے ہیں اور اس کی مشابہت ٹکسالی سنسکرت سے ہے۔
پہلوی
وسط فارسی یا پہلوی اس زبان کو کہتے ہیں جو عہد پارتھائی و ساسانی (226ء تا 642ء) تک ایران میں بولی جاتی تھی اور اس کو کتابی پہلوی بھی کہا جاتا ہے۔ ہخامنشی عہد کے ذوال کے بعد یونانیوں کا ایران پر قبضہ ہوگیا تھا اور سیاسی غلبے کے ساتھ یونانی تمذن کا بھی ایران پر اثر پڑا۔ یونانیوں کے عہد میں ہی اشکانیوں نے سیاسی برتری حاصل کی اور ان کے عہد میں ایک دوسری زبان وجود آئی۔ یہ ہخامنشی عہد کی قدیم فرنس سے نکلی تھی مگر اس پر دوسری زبانوں کے گہرے اثرات پائے جاتے ہیں۔ موجودہ فارسی بھی اسی پہلوی سے مشتق ہے۔ اس وجہ سے اسے میانہ فارسی یعنی قدیم فارسی اور جدید فارسی کے درمیان کی زبان بھی کہتے ہیں۔ یہ زبان ساسانی عہد تک قائم رہی۔ بلکہ اسی عہدمیں عروج پر پہنچی۔ اس زمانے کے تمام سکے اور کتب اسی زبان میں تحریر ہیں۔ پہلوی رسم الخط آرامی سے ماخوذ ہے اور دائیں سے بائیں لکھاجاتا ہے۔ اس کی ایک خاص شکل جو زوادش کہتے تھے۔ اس طرح اس کی تحریروں میں آرامی الفاظ لکھتے تھے اور اس کا صحیح تلفظ اداکرنے کے بجائے اس کے ہم معنی پہلوی الفاظ پڑھے جاتے تھے۔ مثلاً ’ملک‘ لکھتے تھے اور اس کو شاہ پڑھتے تھے۔ لیکن یہ سخت دشوار تھی اور اس کو پڑھنے کے لئے ایک ہزار علامتوں سے واقفیت ضروری تھی۔
وسطی فارسی کی بولیاں
وسطی فارسی کی قابل ذکر بولیاں پارتھی، سوغدی، سکائی اور سغدی تھیں۔
پارتھی
یہ شمالی مغربی ایرانی بولیوں میں تھی۔ لہذا معیاری وسطی فارسی سے جو درحقیقت ایک جنوبی بولی تھی سے بہت کچھ مختلف تھی۔
سوغدی
(چغدی) یہ ایران کے شمال مغرب میں بولی جاتی تھی۔ اس میں بدھ، عیسائی اور مانی مذہب (خاص کر بدھ مذہب کی) متعدد تصانیف برآمد ہوئی تھیں۔
سکائی یا سغدی
اس میں براہمی رسم الخط میں متعدد بدھ مذہب کی کتابیں برآمد ہوئیں ہیں۔ اس بولی کی دریافت سے مغربی بولیوں کی خصوصیتوں پر بہت روشنی ڈالی گئی ہے اور یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ جنوب مغربی فارسی بولیاں شمالی بولیوں سے بہت جدا ہیں اور بلوچی اور کردی درحقیقت شمالی ایرانی بولیاں ہیں۔ سکائی کے الفاظ کے خزانہ الفاظ سے اور بھی ثابت ہوگیا ہے کہ مشرقی اور مغربی ایرانی بولیوں میں کتنا اختلاف ہے۔ یہ ہند سکاتی یا سکاتی گروہ سے تعلق رکھتی ہے۔ جو کہ مشرقی ایرانی زبانیں کہلاتی ہیں جن کی نمائندگی افغانی زبان اور سطح پامیر کی بعض زبانیں (میری، قولی اور دخی وغیرہ) کرتی ہیں۔
تہذیب و تر تیب
(عبدالمعین انصاری)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...