مختلف ریاستیں بظاہر جغرافیائی حدود کے اندر دوسروں سے جدا نظر آتی ہیں ۔ مگر ان میں مزید تفریقیں ہوتی ہے جو کہ ایک دوسرے سے وابستہ ہونے کے باوجود جدا ہوتی ہیں ۔ مگر یہ معاشرے میں اہمیت رکھتی ہیں اور ان تفریقوں کو معاشرہ کے مستقل عناصر و مجموعی زندگی کے مختلف رجحات یا سیاسی اہمیت و ترقی کے مختلف مدارج کہہ سکتے ہیں ۔ دوسری لفظوں میں ذاتیں ، طبقات یا درجات کہہ سکتے ہیں ۔
ذات کی تشکیل پر برصغیر میں بہت گہرا اثر اور اہمیت کا حامل رہا ہے ۔ اگرچہ یہ دوسرے ملکوں پر پربھی اثر انداز ہوئی ہے ۔ مگر برصغیر میں ذاتوں تقسیم فطرت کا فعل سمجھی جاتی ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسے خود خدا نے خلق کیا ہے اور وہ غیر تبدل ہے ۔ جب کہ طبقات کسی قوم میں پیشوں کے اختلاف ریاست کے درجات اور اس کی تنظم سے تعلق کی بنا پر وجود میں آتے ہیں ۔
یورپ کی مختلف قوموں میں ذاتوں کے بجائے طبقات کا رواج ہے ۔ ذاتوں کی طرح طبقوں میں بھی قوم کے مختلف اجزا میں ایک عضوی نظم و ترتیب پیدا ہوتی ہے ۔ مگر ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ طبقات کے متحرک ہوتے ہیں اور ان کی قوت میں نمو ہے ۔ ان کی قدیم ترین شکل ذاتوں سے بہت مشابہ ہے ۔ ابتدا میں وہ موروثی تھے اور جو صفات ان سے منسوب تھے ان طبقات کی اندرونی قرابت ذاتوں کے ہندوستان طریقہ سے بالکل مشابہ ہے ۔ مگر ازمنہ وسطی میں ان امتیازی طبقات کی موروثی حثیت گھٹی گئی اور اس میں پیشہ کی حثیت بڑھتی گئی ہے ۔ اب ان کے چند نشانات باقی رہ گئے ہیں ۔ ایک طبقہ سے دوسرے طبقہ میں شامل ہوتا آسان مگر ذاتوں ناقابل تبدیل ہیں ۔
ٍٍٍ برصغیر میں ذات ایک الوہی تنظیم مانی جاتی ہے اس لیے یہ مورثی اور ناقابل تبدل ہے ۔ گویا یہ ایک مظبوط عمارت ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ پر جمی ہوئی ہوتی ہے ۔ طبقات نباتیات کی طرح خود رو بڑھتے ہیں اور قوموں و ریاستوں کی طرح ان میں ایک حیاتاتی نمو ہوتی ہے ۔ ان میں پیشے کا آزادانہ انتخاب مورثی حقوق میں اعتدال پیدا کر دیتا ہے یا انہیں فنا کردیتا ہے ۔ زمانہ قدیم طبقات بھی ذاتوں کی طرح مورثی ہوتے تھے ۔ مگر جس قدر تمدن میں ترقی ہوئی پیشوں میں آزادی بڑھتی جاتی ہے اور طبقات کے درجات میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے ۔
ذاتیں بڑی حد تک انسانی تاریخ کا کارنامہ ہیں ۔ ویدوں کے زمانے میں اگرچہ امتیاز موجود تھے مگر ذاتیں اس وقت تک وجود میں نہیں آئیں تھیں ۔ ویدوں میں زات کے لیے برن استعمال ہوا ہے جس کہ معنی رنگ کے اور یہ رنگ کے اصل اختلاف کو ظاہر کرتا ہے ۔ اہل سیف و امرا خود راجاؤں تک پر برہمنوں کی فوقیت زمانے کے لحاظ سے آخری عمل تھا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ برہما کے ہمہ اوست مذہب نے عروج حاصل کرکے قدیم معبود کی فطرت پرستی کو مغلوب کردیا تھا ۔ برہمنوں ہر طرح جوش و انہماک کے ساتھ ثابت قدم رہتے ہوئے انہوں بخوشی دنیاوی حکومت بادشاہوں کے لیے چھوڑ دی اور بعد میں اسے پر مذہبی مہر ثبت ہوگئی کہ وہ وہ ہمیشہ کے لیے قائم ہوگیا ۔
برصغیر میں تمدن ذات کا شگوفہ اور ثمر ہے ۔ اگرچہ اس کی بنیادیں یہاں کے معاشرے میں بہت گہری ہیں ، پھر بھی یہ کبھی بھی ہندوستانی تمدن کو اندرونی ذوال سے نہ بچا سکا اور نہ مخالف قوتوں کے مقابلے میں اپنی آزادی کی حفاظت کرسکا ۔ یہاں طبقات کی طرح ذاتوں کی تریب کوئی ریاستی تنظیم نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ ایک ایسا ایک سانچہ ہوتی ہے جس میں خود ریاست ڈھل جاتی ہے ۔ یہ ایک ایسا ہمہ گیر مستقل انتظام ہے جو تمام تعلقات پر غالب رہتا ہے ۔ اس وجہ سے ریاست کی اعلیٰ ترقی اس وقت تک ناممکن ہے جب تک ریاست اس کے طریقے کے تابع رہے ۔ کیوں کہ وہ خود اپنے اصول زندگی کے موافق آزادانہ نشوو نما نہیں پاسکتی ہے ۔ یہی وجہ ہے برصغیر میں ہمیں موریا کے علاوہ کوئی بڑی سلطنت نظر نہیں آتی ہے ۔ اس کی ترقی اور عروج کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ اس نے ذاتوں کے اس حصار کو نظر انداز کر دیا تھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے مورث اصول بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔ مگر یہ اصول بہترین قوتوں کو شل کردیتا ہے اور سلطنت ایک حنوط زدہ لاش ہوجاتی ہے ۔ مورثی سلطنتوں ذوال کی بھی یہی وجہ ہے ۔ ذات کی بندش سوسائٹی کے طبقات میں سخت تفریق اور مستقل کردینے کی طرف مائل کردیتا ہے ۔ اعلی ذاتیں جنہیں برتری و مورثی اختیارات حاصل ہوتے ہیں وہ مطمعین رہتی ہیں ۔ یہاں تک ان مظبوط بندشوں سے نکلنے کے لیے کسی کے لیے کوئی راستہ باقی نہیں رہتا ہے ۔ یہ اصول اعلٰ طبقات کے اقتدار کو بڑھاتا ہے اور ادنی طبقات کی آزادی برباد کرتا ہے ۔
برصغیر میں ذات کی تشکیل اور اس کی بندش کا طریقہ وہ کمال کا نمونہ ہے ۔ جس کی مثال اور کہیں نہیں پائی جاتی ہے ۔ منو کے قوانین کی رو یہ براہما بنایا ہوا ہے ۔ جس میں برہمن خدا کے منہ سے پیدا ہو ہے اس لیے وہ خدا کا زندہ کلام اور اس کی الوہیت کا مظہر ہے ۔ علم ، مذہب اور قانون ان کے خاص کام ہیں اور ادنیٰ ترین برہمن کا رتبہ بادشاہوں سے برتر ہے ۔ گویا اس کا وجود خود خلقت وجود ربانی ہے ۔
دوسری ذات چھتری جن سے بادشاہ اور سپاہ گیری ہے ، وہ خدا کے بازو سے پیدا ہوئے اور اس کی جسمانی طاقت کے مظاہر ہیں ۔ تیسری ذات دیشوں کی ہے ۔ وہ خدا کی رانوں سے پیدا ہوئے ہیں اور ان کا کام زراعت ، پرورش مواشی اور تجارت ہے ۔ چوتھی ذات شودر کی وہ خدا کے پیروں سے پیدا ہوئے اور کمین دات کی وجہ اور زندگی مادی ضروریات کے لیے مخصوص ہیں ۔
برصغیر میں شادی بیاہ میں نسب کی برابری مقدم رکھی جاتی ہے ۔ اگرچہ ایک برتر ذات کا مرد ایک کمتر عورت سے شادی کرسکتا ہے ۔ مگر ایک عورت ایک کمتر مرد سے شادی نہیں کرسکتی ہے ۔ مگر دو مختلف ذاتوں شادی کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچے کی ذات الگ ہوتی ہے ۔ یہی وجہ اس طرح کی آمیزشوں سے بے شمار مخلوط ذاتیں وجود میں آگئیں ہیں ۔ عام قاعدہ یہی ہے کہ ذاتوں کے درمیان کی تفریق کو قائم رکھا جائے ۔ اس تفریق کی بدولت وہ تسلط قائم ہوجاتا ہے کہ چھتری تک کسی بھی صورت میں برہمن کے درجہ کو نہیں پہنچ سکے ۔
یہ درست ہے منفرد پیشوں میں مقابلہ زیادہ ترقی کا باعث ہوتا ہے اور اس سے وہ اعلی اور قابل داد صلاحیتوں کا پیدا ہونا اس کا لازمی حصہ ہیں ۔ خاندانی توارث و روایت کو اعلی ترین قانون بنا دینے سے انفراددی آزادی سے مکمل انکار کرتا ہے ۔ اس طرح مقدس رشی ، فلسفہ ، شاعر ، سورما تو پیدا ہوسکتے ہیں ۔ جو کہ وقتی طور پر شہرت تو حاصل کرلیتے ہیں مگر معاشرے پر ان کا کوئی دائمی اثر نہیں ہوتا ہے اور یہ کہا جاسکتا کہ کوئی بڑا مدبر پیدا نہیں ہوتا ہے جو معاشرے میں ذہنی آزادی اور بالیدگی پیدا کرے ۔ کیوں کہ ذاتوں اور روایات کی بندش کی صورت میں معاشرے کی تمام تنظیمیں اسے بحال اور برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور کوئی تنظیم زندگی میں آگے قدم بڑھانے کی فکر نہیں کرتی ہے ۔ ان کا مقصد صرف سکون اور متحرک ہونا خطرناک سمجھا جاتا ہے ۔ یہ معاشرے کو ایک ایسے ڈگر پر چلاتا ہے جو ہمیشہ ایک ہی سمت رواں رہے ۔