آریاؤں میں بیٹا اور بیٹی
آریا دعا کرتے تھے کہ بچے عطا کرے۔ (رگ وید منڈل ساتواں ا،اا،۲۱ اور آٹھواں منڈل ۱،۳۱) ان کی خواہش ہوتی تھی کہ بیٹے پیدا ہوں جو پرکھوں کا نام روشن کریں۔ (رگ وید منڈل پہلا ۵۰۱، ۳) جس کا بیٹا نہ ہو وہ نرک میں جاتا ہے۔ اس لیے بیٹے کو پوتر یعنی ذوزخ سے نکلنے والا۔ جس کا بیٹا نہیں ہوتا تھا وہ کسی اور بچے کو متبنیٰ کرلیتے تھے اور کسی بچے کو پالتے تھے۔ مگر پھر بھی انہیں اپنی صلبی اولاد کی طرح اطمعان نہیں ہوتا تھا۔ وقت آنے پر یہ بیٹے اپنے اصلی ماں باپ کی طرف لوٹ جاتے تھے۔ (رگ وید منڈل ساتواں ۲،۷، ۸)
آورش وہ بیٹا سمجھا جاتا تھا جو شکل و صورت میں خوبصورت، قدآور، باہمت، برجستہ، گھر کو سمھالنے والا، عقلمند اور شاستروں کا عالم ہوتا تھا۔ (رگ وید منڈل دسواں ۷۳، ۳) ایک رشی نے دعا کی کرتا ہے ’اے بھگوان! وہ مجھے وہ بیٹا دینا جو مہا پہلوان ہو، زبردست گھوڑے پر چڑھے، جنگ میں دشمنوں پر فتح حاصل کرے اور بڑے یگیہ دان کرے۔ (رگ وید منڈل چھا ۳۳، ۱) اگر کسی کا بیٹا ناخلف ہوتا تو ماں باپ اسے سزا دے کر سیدھی راہ پر لاتے تھے۔ (رگ وید دوسرا منڈل ۹۲، ۵) کبھی کبھی ماں باپ غصے میں نہایت سخت سزا دیتے تھے۔ ایک مثال رگ وید میں ہے کہ راشو Rjasv نام کے ایک جوان کی لاپرائی سے دیہاتوں کی سو بھیڑیں بھیڑیے مار دیں تھیں تو اس کے باپ ورشاگری vrsa-giri اس پر اتنا غصہ آیا کہ اس نے اپنے بیٹے کی دونوں آنکھیں پھوڑ دیں اور بعد میں دونوں آنکھیں اشون کی مہربانی سے صحیح ہوگئیں۔ (رگ وید پہلا منڈل ۶۱۱،۶۱،۷۱۱،۷۱) عام طور پر باپ اپنی اولاد بیٹی اور بیٹوں دونوں کو چاہتا تھا اور اس اپنی اولاد کی بہبود کی فکر رہتی تھی۔ مگر بیٹے سے بہت محبت کرتا تھا (رگ وید آتھواں منڈل ۸۴، ۴) بیٹا بھی اپنے باپ کی بڑی عزت کرتا تھا اور جب وہ اس کے قدموں میں سر جھکا دیتا تھا تو باپ اس کا سر محبت سے اٹھا دیتا تھا۔ (رگ وید دوسر منڈل ۳۳، ۲۱)
قدیم آریاؤں میں تحریری وصیت کا رواج تھا۔ ساری ملکیت کا مالک باپ ہوتا تھا۔ باپ کے بعد ساری ملکیت بیٹوں کو ملتی تھی۔ اگر کسی کا بیٹا نہیں ہوتا تھا تو اس کی ساری ملکیت بیٹیوں کے بجائے نواسوں کو ملتی تھی۔ عام طور پر بھائی اپنی بہنوں کو حصہ دینے کا پابند نہیں ہوتا تھا۔ (رگ وید تیسرا منڈل ۱۳۔ ۲) لیکن کسی لڑکی کو اس کی پسند کا شوہر نہیں ملتا یا کنوارہ رہنا پسند کرتی یا کسی مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے کنواری رہتی تھی تو ایسی صورت میں وہ باپ کی ملکیت میں سے حصہ مانگتی تو اسے ملتا تھا۔ (رگ وید دوسرا منڈل ۷۔ ۷۱) اس طرح بھائی بھی تعاون کرے تو وہ عزت کی زندگی گزارتی تھی۔ لیکن باپ کی کوئی ملکیت نہیں ہوتی تھی تو لڑکی کو مجبوراً کوئی کام کرنا پڑتا اور کبھی کبھی لالچ میں پھنس جاتی تھی۔ جس لڑکی کا آگے پیچھے کوئی نہ ہوتا تو اس کے پیچھے اوباش پڑھ جاتے اور کچھ لڑکیاں پیشہ بھی اختیار کرلیتیں تھیں۔ (رگ وید پہلا ۴۲۱، ۷۱ اور چوتھا منڈل ۵، ۵)
ایسی لڑکیوں کے ناجائز بچے پیدا ہوتے تو وہ انہیں پھینک دیتیں۔ (رگ وید دوسرا منڈل ۹۲،۱ منڈل پانچواں ۵،۵ منڈل نواں ۲۳، ۵) یجر وید کے تترییہ براہمن میں (تیسرا منڈل ۴،۲،۱) میں ایسی لڑکیوں کے بیٹے کماری پتر یعنی کنواری کا بیٹا استعمال ہوا ہے۔ جس لڑکی کے بھائی نہیں ہوتا تھا وہ بدبخت شمار کی جاتی تھی اور اس پر تبصرے ہوتے تھے اور خطرہ ہوتا تھا کہ کہیں بگڑ نہ جائے۔ (رگ وید پہلا ۴۲۱، ۷۱ اور چوتھا منڈل ۵، ۵) اتھر وید کے منڈل چھ (۱۱،۳) میں ایشور سے دعا مانگی گئی ہے کہ اے بھگوان! بیٹی دوسروں کو دینا، ہمارے یہاں بیٹا دینا۔
آریا بیٹی کی پیدائش پر اگرچہ خوش نہیں ہوتے تھے لیکن بیٹی کو بھی چاہتے تھے اور اس کی شادی جلد کردینا چاہتے تھے۔ بیٹی کی شادی کے لیے ویدون کے منتر پڑھتے تھے۔ (اتھرا وید دوسر منڈل ۶) لڑکیاں جب بالغ ہوجاتی تھیں تو ان کی شادی کی جاتی تھی۔ (رگ وید دسواں منڈل ۵۸) میں کہا گیا کسی دوسری کنواری کی طرف بہتری نہیں جو ابھی تک باپ کے گھر میں بیٹھی ہوئی ہے اور شادی کی ساری علامتیں اس میں موجود ہیں ”۔
رگ وید کے منڈل دس (۷۲،۲۱) سے معلوم ہوتا ہے جو لڑکیاں شادیوں کے لیے وہ اپنے دولہا کا انتخاب خود کرتی تہیں۔ ور معنی دولہا کے ہیں مگر اس کے لغوی معنی چنا ہوا اور سویمور کے معنی خود انتخاب کرنا، لڑکیاں خاص طور پر وہ دولہا پسند کرتیں جو ان کے دل کو بہاتا تھا۔ یعنی محبت کی شادی (رگ وید آٹھواں منڈل ۲۲، ۴) بچپن کی شادی کا رواج سوتروں کے زمانے میں ہوا۔
رگ وید کے زمانے میں ذات پات کا مسلہ نہیں ہوتا تھا۔ صرف سگوتر (ایک جدی کی اولاد) اور سپنڈ (رشتہ داروں) میں شادی ممنوع تھیں۔ لیکن اپنے سے کمتر خاندان میں شادی کو پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ کوئی مال و دولت رکھتا ہو مگر اچھا چال چلن یا خوبصورت سے محروم ہوتا تو اسے کوئی بھی اپنی بیٹی دنیا پسند نہیں کرتا تھا۔ اگرچہ بعض لاکچی لوگ لالچ میں آکر اسے اپنی بیٹی دے دیا کرتے تھے۔ لیکن جو لڑکا مال و دولت کے ساتھ اچھے چال و چلن کا مالک ہوتا تو بہت سے لوگ اپنی بیٹی کی شادی کرنا اس سے کرنا چاہتے تھے۔ اس طرح لڑکی خوبصورت اور اچھے چال و چلن کی مالک ہوتی تو وہ بھی پسند آجاتی تھی۔ لیکن اندھی، کانی بھینگی اور معذور لڑکیاں کی شادی بہت مشکل سے ہوتی تھی۔ (رگ وید آٹھواں منڈل ۳۲، ۱۱)
خوبصورت جوان لڑکی سے شادی بہت سے جوان کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے لڑکی کو سوچ بچار کرنا پڑتا تھا اور وہ اپنے ماں باپ سے مشورے کرتی تھی۔ پھر شادی کے لیے مناسب لڑکے کا انتخا؎ب کرتی تھی۔
میلوں اور محفلوں اور دوسری جگہوں پر جوان لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے سے ملتے اور پسند کرنے پر پہلے ایک دوسرے سے بات پکی کرلیتے تھے اور بعد میں ماں یا بااپ یا لڑکے کے ماں باپ کے گھر جاکر رشتے کی بات پکی کرسکتا ہے۔ رگ وید کے دسویں منڈل کے سوکت ۵۷ میں درج ہے کہ سوریا کی بیٹی سوریا کی شادی سوما دیوتا سے شادی کی بات سوما کی طرف سے اشونوں نے چلائی تھی۔ اس سے محقیقین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ لڑکے کی طرف سے کوئی جاکر بات چلاتا ہے۔ بعد کی سمرتیوں سے معلوم ہوتا ہے دلہن کو دیکھنے والوں کو لڑکی والے پہلے رسمی انکار کرتے۔ مگر بعد میں راضی ہوجاتے تھے اور لڑکا اور لڑکی اور ان کے ماں باپ برہمنوں کے پاس جاتے تھے۔ وہاں لڑکی کا باپ لڑکے کے باپ سے کہتا تھا کہ اپنے بیٹے کے لیے میری کنواری بیٹی جو دل میں دی گئی ہے اب دیکھ کر فیصلہ کرلو اور جواب دو۔ لڑکے کا باپ اس کے جواب میں کہتا تمہاری کنواری بیٹی اپنے بیٹے کے لیے قبول کرتا ہوں جو دل میں پہلے ہی آ جاچکی ہے، آپ میرا بیٹا دیکھ لیں اور فیصلہ کرکے جواب دیں۔ دلہن کا باپ لڑکے کو دیکھ کر تسلی کرتا اور پھر کہتا واگدان (واکدان) وچن دان یعنی لڑکی کا باپ برہمنوں کے سامنے لڑکی دینے کا وعدہ کرتا تھا۔ اسے وچادت Vachadatta یعنی زبانی دی ہوئی۔ یعنی پہلے دل میں منظور کیا تھا اب لڑکی دینے کا حتمی وعدہ کرلیا۔ اس وقت پہلے برہمنوں میں پان اور بعد میں مصری دینے کا رواج ہوگیا۔
آریاؤں میں شادیاں
کنیا دان کی تیسرا مرحلہ دھاراوت ہوتا یعنی بیاہ کی تاریخ طہ ہوتی۔ شادی کی بات پکی ہوجاتی تو شادی کے لیے مہورت نکلواتے تھے۔ شادی کے دن دولہا قیمتی کپڑے جڑاؤ والے زیور پہن کر خوشبوئیں لگا کر اپنے عزیزوں اور دوستوں دلہن کے گھر جاتا۔ (رگ وید پانچواں منڈل ۶، ۴) جہاں دولہن والے استقبال کرتے اور شادی کی رسمیں ادا کی جاتیں۔
شادی کے منتری پجاری بڑھتے تھے وہ گرییہہ سوتروں میں درج ہیں ان میں سے کچھ دولہا و دلہن ایک دوسرے سے قول و قرار کرتے تھے۔ اس کے علاوہ دلہن کا باپ بھی دولہا سے کچھ وعدے لیتا تھا۔ مثلاً مذہب، مال و دولت کے بارے میں میں اور دوسرے خانگی معاملات کے بارے میں۔ بعد کے زبانوں میں یہ قول و قرار دو برہمن دولہا و دلہن کی جانب سے آپس میں سنسکرت میں کرنے لگے۔ جب کہ دولہا اور دولہن خاموش کھڑے رہتے تھے۔ بارتیوں میں اس وقت بھی کچھ کھانے میں مصروف رہتے تھے۔
دھان (شادی) سنسکرت کے لفظ وداھ سے بنا ہے۔ جس میں ’و’ریت یعنی رسم اور ’وھ’لے جانا۔ یعنی رسم کے ذریعے لے جانا۔ اس ایک اہم لفظ پرنو اور یہ بھی شادی سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے بنیادی معنی پھیرنا۔ سنسکرت میں پر کے معنی چاروں طرف اور نیہ کے معنی لے جانا۔ شادی کے وقت دولہا اور دلہن ایک دوسرے کا پلو باندھ کر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر یگییہ کے چاروں طرف سات چکر لگاتے ہیں۔ جب تک دولہا دلہن چکر نہیں لگاتے ہیں شادی نہیں ہوتی ہے۔ جب دولہا دلہن پلو باندھ اور پانی گرہن کرکے یعنی ہاتھ پکڑ کر سات چکر لگاتے ہیں تو شادی مکمل ہوتی ہے۔ اس سپت بدھی یعنی سات پھیروں کی رسم اہم ہونے کی وجہ سے پرنو کے معنی دھان (شادی) کے ہیں۔ شادی کے سات پھیروں کے بعد دلہن کا پیر چکی کے ایک کے پاٹ یا کسی پتھر پر رکھواتے یہ پتھر استھرنا یا وائل کہلاتا۔ پھر دولہا اور دلہن کے سر ملائے جاتے ہیں۔ اسے اب لاؤں کہتے ہیں اور نمن یعنی سر جھکانا۔ اس لیے لاؤں دلہن کے معنی شادی کے ہیں۔
آریاؤں میں شادی کو سنکار کہتے ہیں۔ ہندو شاستروں میں ہر ایک سنکار کرتے وقت سرادھ اور ترکن سدھی کرتے۔ یہ دو اہم باتیں ہوتی تھیں، سرادھ ہے سر سردھا (سچی سردھا) اور ترن سدھی میں دل منہ اور ہاتھ نہیں بولا جائے اور ہاتھ سے کوئی خراب کام نہیں کیا جائے۔ اس کے لیے اول سنگلف لیتے تھے۔ سنگلف سنکلپ ہے اور اس کے معنی اردہ یا فیصلہ ہے۔ سنکلپ لیتے وقت ہاتھ میں چاول، پانی اور ڈکھنہ (تحفہ) لیتے تھے۔ اور یہ دکھنہ اپنے پروہت کو دے کر عہد کرتے ہیں۔ اس سنکپ کی نشانی دولہا اور دولہن رکھڑی (گنگن) باندھتے ہیں۔ جس ست مراد دیوتا ان کی رکھشا (حفاظت) کریں۔ سنکلپ لیتے وقت ہاتھ میں اکشت (دھان) لیتے تھے جو بعد اچھٹ میں بدل گیا اور اب یہ اچھٹ کہلاتا ہے اور یہ سنکلپ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
شادی کے وقت تینوں لوکوں (بھؤ BHuh، بھؤھَBHuvah اور سُوھ Suvah) کے دیوتاؤں سے التجا کرتے ہیں کہ اس نیک کام میں شامل ہوئیں اور دولہا دلہن کو دعا دیں کہ وہ سکھی زندگی گزاریں۔ شادی کے میں تینوں لوکوں کے دیووتاؤں (ترلو کی ناتھ) کو حاضر و ناضر سمجھتے ہوئے دل، قول اور اعمال کی پاکیزیگی کو ضروری سمجھتے ہوئے پرانام بھی کرتے تھے اور جلدی جلدی پرانام کرنے سے حلق خشک ہوجاتا تھا۔ اس لیے بار بار آچن (پانی کا گھونت لیتے تھے، شادی کے وقت نندی دیوتاؤں (پتروں یعنی اجداد) کو پاکرتے کہ اس نیک کام میں شامل ہوں اور اانہیں دعائیں دیں۔
جوتش کے مطابق ستاروں کا اثر ہوتا ہے۔ اس لیے ستاروں کے لیے نوگری یعنی نو سیاروں کی پوجا کرتے تھے۔ اب گنپتی یعنی گنیش کی پوجا بھی کی جانے لگی ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے گنپتی فضلوں کا دیوتا ہے اور گن Demignds فضلوں کی رکھوالی کرتا تھا۔ اس کی پوجا کا رواج شادی اور نیک کاموں میں کرنے کا رواج ہے۔
شادی کی رسومات جاب ایک دفعہ شروع ہوجائیں تو مسلسل جاری رہتی ہیں۔ قدیم زمانے جب ان رسومات کے درمیان کوئی مرجاتا تھا تو باقی رسومات لاش کے ساتھ ادا کی جاتی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ سات چکروں کے درمیاں دولہا اور دلہن کی روحیں دونوں مل کر ایک ہوجاتی ہیں۔ اس لیے سپت پدی کے بعد کوئی ان میں سے مرجاتا تھا تو کہا جاتا تھا کہ جسم جو آتمہ کوش یعنی اناج کا پردہ ہے اس میں اس کی سانس چلی جاتی ہے۔ لیکن ہران می کوش اور دیگر کوشوں میں دولہا اور دلہن کی روحیں ساتھ رہتی ہیں اور مرنے سے بھی یہ رشتہ توٹ سکتا ہے۔ شادی رسومات کے بعد دلہن جاب گھر وادھ ہوکر اپنے دولہا کے ساتھ جاتی تو گھر میں رونا دھونا مچھ جاتا، بعض اوقات اتنا رونا دھونا ہوتا کہ لگتا کہ کسی کی موت واقع ہوگئی ہے۔
پدی کی علامت ہوتا ہے کہ لڑکی کا قدم سسرال میں جم جائیں۔ پھر لڑکی قطب ستارے کی طرف دیکھ کر کہتی ہے، اے دھرو تارا تو جس طرح جم کر کھڑا ہے اس طرح میں سسرال میں پدوی (مقام) حاصل کروں اور دولہا دلہن کے پیر ناپتے۔ جس کا مقصد یہ آپس میں پیئار محبت سے رہیں اور ایک دوسرے کی آتتمک انتی (روحانبی ترقی) کی فکر کرتے رہیں۔ کنیا دان کرتے وقت دولہن کا باپ دولہے سے وعدہ لیتاا ہے کہ مذہب، ارٹھ اور کام کی پرایتی میں میرے بیٹی کو نظر انداز نہیں کرنا۔ دولہا اس کا وعدہ کرتا ہے کہ ناتی چرامی یعنی اسے کبھی نظر انداز نہ کروں گا۔ یہ وعدہ وہ تین دفعہ کرتا ہے۔ کہ وہ اس کے لیے تینوں لوکوں کے دیوتاؤں کے سامنے کے سامنے وعدہ کرتا ہوں۔ اس کے بعد دولہا اور دلہن زندگی کے بھر ساتھی ہوتے ہیں اور ان میں سے کوئی مر جائے تو زندہ مرے ہوئے کا نتمہ دلاتا ہے۔ یعنی مرنے کے بعد بھی ایک دوسرے کی فکر کرتے ہیں۔ دلہن اپنے گھر پالکی یا بیل گاڑی میں جاتی تھی۔ جن دلہن کا جہز گاڑی مین رکھا جاتا تھا تو دولہا دہن سے کہتا اے دلن میرے ساتھ بیٹھ اپنا جہز بھی گاڑی میں رکھ۔ ہمارے گھر میں تو ہمارے سر کا موڑ (تاج) بننا۔ کاش سسرال میں تیری بڑی قدر کرے، کاش ساس کو تو اچھی لگو، کا ش بیٹیاں اور نندیں تم سے محبت کریں۔ اس طرح آریا شادیوں میں نہ صرف مہمانوں، بلکہ دیتاؤں اور پتریوں (آبا) کو بھی مدعو کرتے تھے۔
آریاؤں میں شادیاں
رگ وید کے مطابقق دولہا دلہن سے کہتا تھا ”اے دلہن اپنے پتی کے گھر میں خوش قسمتی والا قدم رکھ، تو ہمار گھر کے افراد اور مویشیوں پر برکت ہو، کبھی بھی آنکھ میں شور نہیں دالنا، نرم دل رکھنا، سورما اور دھر ماتما بیٹے جننا جو بھگوان کی بھگتی کریں۔ اے دلہن تو ساس سسر اور اپنے دیور اور نندوں پر رانی بن کر راج کر۔ کاش ورن دیوتا اور دوسرے دیوتا ہمارے دلوں کو جوڑ دیں ۔ (رگ وید دسواں منڈل ۵۸، ۳۴۔۔۷۴)
دلہن جب سسرال پہنچتی تو تو دولہے کے ساتھ دامن گرہیں باندھ کر ہوم کرتی تھی۔ اس سے بڑا اہم ہوم پردھان آہوتی کہلاتا تھا۔ ہر دولہا یہ سمجھتا تھا دلہن دیوتاؤں کی دی ہوئی نعمت ہے۔ اس لیے وہ دیوتاؤں کی تعریف میں بھجن گاتا تھا جن سے یہ نعمت اسے ملتی تھی۔ پردھان آہوتی ہوم کرتے وقت دولہا اپنی دلہن سے کہتا پہلے سوم دیوتا نے تمہیں پایا۔ پھر گندھروں اور ان کے بعد اگن دیوتا نے تمہیں پایا اور اب میں انسان ذات سے پیدا شدہ تمہار شوہر بنا ہوں تاکہ تم سے اولاد پیدا کروں ۔
آریا سوم جو ایک نشیلی بوٹء تھی کا رس پیتے تھے اور وہ اس بوٹی کو دیوتا سمجھ کر پیتے تھے اور ان کا خیال ہے سوم نباتات کا دیوتا ہے اور اس دیوتا کی پوجا سے انسان کا بدن بڑھتا ہے اور بدن پر اس سے بال نکلتے ہیں، جس طرح سورج کی تپش سے درخت نکلتے اور بڑھتے ہیں۔ اسی طرح سوم دیوتا کے کرم سے سے کنواری لڑکی کے بدن پر بال نکلتے ہیں۔ گویا سوم دیوتا سے اسے پاتے ہیں۔
کنیا کی مزید خوبصورتی اسے گندھروں کی مہربانی سے ہوتی ہے اور اس کی چھاتی ابھر آاتی ہے اور اس میں جوانی کے آثار نمودار ہوتے ہیں۔ اس طرح گندھرو لڑکی جوان کرتے ہیں اور اس کے لڑکی کو اگنی کے حوالے کرتے ہیں۔
اگن یعنی اگنی دیوتا، یہ دیوتا لڑکی میں آگ بھر دیتا ہے۔ جس سے اسے ہر ماہ ماہواری آتی ہے۔ جس کو ماہواری نہیں آتی ہے وہ ’گوری’کہلاتی ہے۔ لیکن ماہواری آنا شروع ہوجائے تو تو وہ ’روہنی’کہلاتی ہے۔ گویا اگنی دیوتا گوری کو روہنی بنادیتا ہے۔ پھر وہ بھرپور جوان ہوجاتی ہے اور شادی اور اس کے بعد بچے جننے کے لائق ہوجاتی ہے۔ لہذا وہ دیوتاؤں کے نعت ہوتی ہے۔ کیوں کہ دیوتاؤں کے کرم سے کنواری کنیا جوان ہوکر بچے چننے کے لائق ہوجاتی ہے۔ دولہا ان دیوتاؤں کی شکر گزاری کرتا ہے کہ اسے شادی کے لائق لڑکی ملی اور اس کے لیے ہوم کرتا ہے۔
ویدوں میں یہ درج نہیں ہے کہ لڑکی کس عمر میں بیاہی جائے۔ لیکن اتنا واضح درج ہے کہ جب اگن دیوتا اسے پالیتا ہے، یعنی جب اسے ماہواری آتی ہے تو شادی کے لائق ہوجاتی ہے۔ اس لیے موجودہ دور میں شادی جو بچپن میں کی جانے لگی تھی وہ ویدوں کا دستور نہیں ہے۔ پردھان ہوم کے منتروں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ لڑکی کی شادی اس وقت ہوتی تھی جب وہ بالغ ہوجاتی تھی۔
مگر شادی کی رسومات کے بعد بھی کچھ عرصہ تک دولہا دلہن کے قریب نہیں جاتا تھا۔ پہلے بعض ایک ماہ، چھ ماہ یا سال بھر اپنی بیوی کے قریب نہیں جاتے تھے۔ اگر بہت جلدی ہوتی ہے تو تیسری رات ہم بستر ہوتا تھا۔ دولہا اور دلہن تین راتوں تک دور رہتے۔ اس کی ویدوں میں وضاحت نہیں ہے۔ لیکن گربھ شاستر میں آیا ہے کہ شادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی نفسیانی خواہش پوری کی جائے۔ بلکہ اولاد پیدا کی جائے جو آنے والی نسل کا سہارا بنے۔ اولاد تین طرح کی ہوتی ہے۔
(۱) نامسک، تمی گنوں والی۔ جو خود اور اپنی کل (خاندان) کو بھی بدنام کرتی ہے یعنی کالی بھیڑ۔
(۲) راجسک، یہ رجی گنوں والی۔ عقل مند، محنتی ہوتی ہے لیکن اس کا مذہب کی طرف رجحان کم ہوتا ہے۔
(۳) ساتوک، ساتوک یعنی ستی گنوں والی، جو بڑی دھرماتما ہوتی ہے اور ایسا اتم بیٹا اپنی سات نسلوں کا نام روشن کرتا ہے۔
ساتوک اولاد کے لیے ضروری ہے ماں باپ اپنی نفسیانی خواہشات کو قابو میں رکھیں۔ اس لیے شادی کے وقت یہ سنکلپ کرتے تھے کہ ساتوک پد یعنی سات گنوں والی اولاد پیدا کریں۔ اس لیے دولہا دلہن کوئی نمکین چیز نہیں کھاتے تھے اور زمین پر ایک ہی کمرے میں سوتے تھے مگر درمیان میں کچھ فاصلہ رکھتے تھے کہ درمیان میں وشواوسو گندھرو دیوتا بیٹھا ہوا ہے۔ اس لیے وہ ایک دوسرے کے قریب نہیں آتے تھے۔ اس طرح تین راتیں تک اپنے نفس کو قابو میں رکھتے تھے۔ اسے ’ترراتربرہمچر’یعنی تین راتوں کا نفس پر قابو۔ چوتھی رات دولہا ہوم کرکے گندھرو دیوتا سے کہتا کہ ’اے وااشو وسو! ہم تمہاری منت کرتے ہیں کہ اب ہمارے درمیان سے اٹھ جاؤ۔ اب جاکر کوئی ابھرتی ہوئی جوان کنیا تلاش کر، جسے تمہاری مدد کی ضرورت ہے، اس کی جوانی مکمل کرنے میں مدد کرو۔ یہ دولہن جو میری بیوی ہے، اسے میرے پاس چھوڑ جاؤ تاکہ ہمارا آپس میں ملاپ ہو‘۔ اس طرح چوتھی رات ساتوک سنتان پیدا کرنے کے ارادے سے ہم بستر ہوتے۔
آریاؤں میں عورت کی گھریلو زندگی
اگر چوٹھی رات کوئی بیمار ہوجائے اور ہم بستری نہیں کرسکتے تھے تو وہ ضروری منتر ضرور پڑھتے تھے۔ اس طرح دولہن و دولہا گرہست آشرم کی زندگی بھی گزارتے تھے۔ دھایوں کے گربھ سوتر (پہلا پرشن، ساتواں ادھیا، گیارواں کانڈ) میں درج ہے تین راتوں تک برہمنچریہ کا پالن کیا جائے تو تروتریہ یعنی برہمن پیدا ہوگا جو ویدوں کا مطالعہ کیا جانے والا ہوگا۔ بارہ دن برہمچریہ کیا جائے تو انوچن یعنی وہ برہمن پیدا ہوا گا جو ویدانگ جانے والا ہوگا۔ ایک ماہ برہمنچریہ کا پالن کیا جائے تو رشی کلپ پیدا ہوگا جو سوتروں اور پروچنوں کا ماہر ہوگا۔ چھ ماہ پرہمچریہ کا پالن کیا جائے تو رشی پیدا ہوگا جو چاروں ویدوں کا جاننے والا ہوگا۔ اگر دولہا دلہن ایک سال تک برہمچریہ کیا جائے تو وہ بجنسی دیوتا ہوگا۔
نئی دولہن کو سسرال میں بڑی عزت ملتی تھی لیکن وہ ہر معاملے میں شوہر کے آگے سرجھکاتے تھے۔ (رگ وید پانچواں منڈل ۰۸،۶) اور جو کام شوہر کہتا تھا وہ کرتی تھی۔ (رگ وید پہلا منڈل ۲۲۱،۵۲) بیوی شوہر کا نصف کہلاتی تھی وہ یگوں اور پوجا میں پلو باندھ کر بیٹھتے تھے۔ دونوں بیوی اور شوہر مل کر راتھنا (دعا) مانگتے تھے۔ بیوی شوہر کا سنگار یا زیور تھی۔ (رگ وید پہلا منڈل ۶۶،۳)
’بیوی آبروورانہ، سچی، کام چست، نیک گھر کی مالکن، جنہیں صبح کام نمٹانے کی فکر ہوتی وہ صبح الصادق اٹھتی تھیں۔ (رگ وید پہلا منڈل ۹۷،۱) وہ سمجھتی تھیں صبح طلوع ہونے کے بعد جو لوگ سوئے ہوئے ہیں ان کے نصیب ضائع ہوجاتے ہیں۔ (اتھرا وید ساتواں منڈل ۳۱،۲) صبح پوجا کے لیے نہانے کی ضرورت ہوتی تھی۔ گھر کی مالکن صبح اٹھ کر نہاتی اور یگیہ کی اگنی جلاتی اور شوہر کے ساتھ اگنی کی پوجا کرتی۔ (رگ وید پہلا منڈل ۳۷۱،۲ اور تیسرو منڈل، پانچواں اور آٹھواں) جو لوگ سوئے ہوتے ان کو اس طرح اٹھاتی جس طرح سوئے ہوں کو مکھیاں اٹھاتی ہیں۔ (رگ وید پہلا منڈل ۴۲۱،۲) اس وقت خود اور گھر والے سوم رس پیتے تھے۔
سنسکرت میں دھتر، پارسی میں دختر اور انگریزی میں ڈاٹر یعنی بیٹی۔ اس کا مادہ ’دھ‘ یعنی دودھ دوہنا۔ پہلے قدیم زمانے میں غالباً بیٹیاں گھر کے پالتو جانورں کا دودھ دھوتی ہوں ہوگی۔ بعد کے دور میں یہ کام گھر کے ملازمین کرنے لگے ان کے لیے اتھر وید (ساتواں منڈل ۳۷۱،۶) گؤدھگ یعنی گائے کا دودھ دھونے والا استعمال ہوا ہے۔ دودھ پاریوں میں آتا تھا اسے گھر کی مالکن گرم کرتی تھی اور جتنا جمانا ہوتا تھا جماتی تھی۔ مکھن نکالنے والی مندھانیاں گھر کے کھنبوں اس طرح بندھی ہوتی تھیں جیسے گھوڑا جیسے آگے اور پیچھے سے بندھا ہوا ہو۔ (رگ وید پہلا منڈل ۸۲،۴) گھر کی مالکن صبح سویرے سب کو روز مرہ کے کام پر لگاتی تھی۔ (رگ وید پہلا منڈل ۸۰۱،۸۴،۶) بعض لکڑیوں کی اوکھلی میں چاول بھوسے سے الگ کرتی تھیں۔ (اتھر وید بارواں منڈل ۳،۳۱)۔ جن کے پاس نوکرانیاں ہوتی تھیں ان سے پوری طرح لیکن نرمی سے کام لیا جاتا تھا۔ (اتھر وید دسواں منڈل ۵۸،۳۴) ان پر نظر رکھی جاتی تھی کہ کام صحیح کر رہے ہیں کہ نہیں۔ (اتھر وید دسواں منڈل ۵۸،۴۴)۔ جن گھرون میں نوکر نہیں ہوتے تھے ان میں گھر کی مالکن خود برتن دھوتی اور گھر کی بیٹیاں کؤں سے پانی بھر کر لاتیں۔ (رگ وید پہلا منڈل ۱۹۱،۴۱) ان کے سروں پر گھڑے عمدگی سے رکھے ہوتے تھے۔ (اتھر وید دسواں منڈل ۸،۴۱) گھر کے کام کاج میں ان کی بیٹیاں ہاتھ بٹاٹیں اور اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کا خیال رکھتیں۔ دوپہر کے کھانے کے بعد گھر کی مالکن کنگی کرتی۔ خود بھی کپڑے بدلتی اور بچوں کو نہلا کے کپڑے بدلتی۔ (اتھر وید پہلا منڈل ۳۲۱،۷ اور چوتھا اور دسواں منڈل) وہ کپڑے پہن کر ہار سنگھار کرکے تیار ہوتی (اتھرا وید چوتھا منڈل ۸۵،۸) جس وجہ وجہ سے وہ اپنے شوہر کواچھی لگتی تھی۔ وہ شوہر کا تمام کام کرتی اور اس کا پستر لگاتی تھی۔ (اتھرا وید چوتھا منڈل ۳،۲) بچوں سے محبت کرتی تھی اور بچوں میں اس کی جان ہوتی تھی۔ (اتھرا وید ساتواں منڈل ۱۸،۴)
چھوتے بچے گھر ہی میں کھیلتے تھے، وہ گھر کی زینت ہوتے تھے۔ (اتھرا وید ساتواں منڈل ۶۵،۶۱) چھوٹے بچوں کو جب کسی ضرورت ہوتی تھی تو توجہ مبذول کرانے کے لیے باپ کی قمیض کا دامن کھنچتے اور اسے بتاتے کہ اسے کیا چیز کی ضرورت ہے۔ (اتھرا وید تیسرا منڈل ۸۵،۸) بچوں کو کھیل کا بہت شوق ہوتا اور وہ کھیل میں مگن رہتے تھے جب ماں انہیں کھانا کھانے کے لیے کہتی تو وہ ہاتھ کے اشارے سے منع کرکے کہتے ایک طرف ہوجاؤ۔ (اتھرا وید دسواں منڈل ۴۹،۴۱) دودھ پیتا بچہ زمین پر گھسیٹا ہوا ماں کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا اور جب ماں دیکھتی کہ اس کی چھاتیوں سے دودھ بہہ رہا ہے تو وہ بچہ کو منگوا کر اس کو اپنے پہلو میں سلا کر اسے پلاتی اور اسے پیار کرتی تھی۔ (اتھرا وید نواں منڈل ۱۶،۴۱) ماں بچے کو جب گود میں رکھ کر بیٹھتی تو وہ اچھی لگتی تھی۔ (اتھرا وید ساتواں منڈل ۳۴،۳) بچے جب اپنے باپ کے پاس جاکر اس سے توتلے پن سے بات کرتے تو ان کا توتلا پن اچھا لگتا تھا۔ (اتھرا وید ساتواں منڈل ۳۰۱،۳) لڑکیوں کی طرح لڑکے بھی کانوں میں بالیاں پہنتے تھے۔ (اتھرا وید پہلا منڈل ۲۲۱،۴۱)
گھر میں کھانا دن ڈھلنے سے پہلے تیار ہوجاتا تھا، گو سورج کو پتھروں سے بھگا کر کھانا کھاتے تھے۔ بچے کھا کر فارغ ہوتے تو ماں ان کا بستر بچھا کر انہیں سلا دیتی تھی۔ وہ وقت بے وقت چرخہ چلاتی تھی۔ چرخہ چلاتے ہوئے یاگھر کا کوئی دوسرا کام کرتے ہوئے بعض عورتیں گیت گاتی تھیں۔ کبھی کبھی عورتیں مل کر تفریح کے لیے نکلی تھیں۔ (اتھرا وید پہلا منڈل ۶۵،۲) اگر کوئی عورت کسی کے گھر میں رات کو شب گزارتی تو اس کے خلاف باتیں بنتیں، (اتھرا وید پہلا منڈل ۳۴،۷۸) اگر کسی مرد کو اپنی بیوی پر شک ہوجاتا تو وہ آگ کے الاؤ پر چل کر اپنی پاکدامنی کا ثبوت دیتی تھی۔ جب میاں بیوی میں آپس میں نہیں بنتی تو عزیز و احباب بیچ میں پڑ کر صلح کرا دیتے تھے۔ (اتھرا وید پہلا منڈل ۸۲،۲)
آریاؤں کی گھریلو زندگی
رگ وید کے ساتویں منڈل (۵۵،۸) میں تلپ Talpa ایک لکڑی کا صندوق ہوتا تھا جس میں سوتے تھے۔ پروستھ Prostha ایک کشادہ بیچ یا صندوق ہوتا تھا جس میں عورتیں سوتی تھیں۔ شاید اپنے ساتھ چھوٹے بچوں کو بھی سلاتی تھیں۔ وہیہVahya ایک قسم کا کوچ یا آرام دہ بستر ہوتا تھا۔ تکیہ کو اُپبِرہنہ Upa-barhana کہتے تھے۔ لوگوں کے پاس دھاتوں، لکڑی اور مٹی کے برتن ہوتے تھے اور مٹی کے برتن جلد ٹوٹ جاتے تھے۔ (رگ وید ساتویں منڈل ۱۹۱،۴۱) سونے کے پیالے اور چاندی کے برتن بھی ان کے پاس ہوتے تھے۔ چمڑے کی چھوٹی مشکیں ان کے پاس ہوتی تھیں۔ ڈوئیاں، کرنڈیاں، اکھلیاں، مہلہاں اور چھاچ بھی ان کے پاس ہوتے تھے۔ چھت پر چھبیاں لٹکاتے تھے۔ جن میں کھانے پینی کی اشیاء رکھتے تھے کہ چوہے نہیں کھائیں۔ (رگ وید پانچواں منڈل ۸۷،۵)
لوگوں کے پاس جو مال و دولت ہوتی تھی۔ وہ جن میں نشک جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کسی قسم کے تقریباً سکے ہوتے تھے۔ یا سونے پر کسی قسم کے ٹھپہ لگا کر بنائے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ مختلف قسم کے زیورات جو ہوتے تھے انہیں گھڑے میں رکھ کر زمین میں دفن کیا جاتا تھا۔ (رگ وید پہلا منڈل ۷۱۱،۲۱)
رگ وید میں دھانیہ یعنی ہر قسم کا اناج ہوا تھا۔ تلوں اور جو کی فضل بہت اچھی ہوتی تھی اور اس کے بارے میں رگ وید میں کئی جگہ آیا ہے۔ اس طرح مونگ کے دال کے کھانے کو مدنگ یعنی مونگ کا سالن۔ یہ غالباً جو کی روٹی کے ساتھ کھاتے تھے۔ جو کو بھون کر آش بناتے تھے جس میں گھی بھی ڈالا جاتا تھا اور اسے کرنبھ Karambha کہتے تھے۔ (رگ وید پہلا منڈل ۷۸۱ٍ،۶۱ اور تیسرا منڈل ۲۵،۷) اگر اس میں لسی ملا کر کھاتے تھے تو اسے دؤدھیہ اوؤن Duhya onda یعنی لسی کا کھانا کہتے تھے۔ جو اور گھی کے ساتھ روٹی بنا کر کھائی جاتی تھی ہے۔
آریوں کو دودھ بہت پسند تھا یہ دودھ مختلف شکلوں میں استعمال کرتے تھے۔ ہر خاندان کچھ گائیں ضرور رکھتا تھا۔ یہ دودھ کو گرم کرکے دھی بناتے۔ جس کی لسی بھی بناتے۔ دھی کے لیے وید میں ودھی آیا ہے۔ (رگ وید آٹھواں منڈل ۹ اور نویں منڈل ۷۸،۱) لسی بنانے کے لیے ان کے پاس مندھانی ہوتی تھی (رگ وید پہلا منڈل ۸۲،۴) اور مکھن بناتے تھے۔ جس کو پگھلا کر گھرت Gharta (گھی) بناتے تھے۔
سندھ میں قدیم زمانے میں سردی بہت پڑتی تھی۔ جس کی وجہ سے سال کو ھم (برف) یعنی سخت سردی کہتے تھے۔ (رگ وید پہلا منڈل ۴۶،۰۱ اور ۱،۱۱،۲۳،۲، پانچواں ۴۵،۱۵، اور چھٹا ۰۱،۷۸۴،۸) اس لیے وہ مچھلی اور گوشت کا زیادہ استعمال کرتے تھے۔ وہ بکری، بھیڑ، گائے، بھینس اور گھوڑے کا گوشت استعمال کرتے تھے۔ انتریہ برہمن میں جب کو بڑا مہمان گھر میں آتا تھا تو وہ دھت یعنی وہ گائے جو بچے نہ دیتی ہو اسے ذبیح کرنا چاہیے۔ (پہلا منڈل ۳،۴) شپتھ برہمن میں بڑے آدمی کے لیے مہوکش (بڑے عمر کا بیل) ذبیح کرنا چاہیے۔ گو بعد میں میں بیل کے لیے اگھنیہ اور گائے کے لیے اگھنیا یعنی جسے ذبح نہیں کرنا چاہیے۔ رگ وید میں اگھنیہ تین دفعہ اور اگھنیا سولہ دفعہ استعمال ہوا ہے۔ رگ وید کے آٹھویں منڈل (۷۶) میں درج ہے کہ لوگ مچھلی جال سے پکڑتے تھے۔ یعنی وہ مچھلی کھاتے تھے اور رگ وید کے منڈل پہلے، دوسرے، چوتھے اور آٹھویں میں شکاریوں کا تذکرہ آیا ہے اور وہ پرندوں کے پر کاٹ دیتے تھے کہ اڑ نہ جائیں۔ (پہلا منڈل ۲۹،۰۱) ہرن کے شکار کا رواج تھا۔ لوگ مرگ چھالہ (ہرن کی کھال) اڑھتے تھے۔ لوگ گھروں میں مرغی پالتی تھے۔
آریا میوے اور پھلوں کے کھانے کے بھی شوقین تھے اور لوگ درختوں کے نیچے آرام کرتے (رگ وید دسواں منڈل ۵،۶)۔ کنڈا لکڑی میں باندھ کر پھل درختوں سے گرا کر کھاتے تھے۔ (رگ وید تیسرا منڈل ۵۴،۴) میووں کے نام نہیں آئے ہیں البتہ میٹھے بیروں کا تذکرہ ہے جن پر پرندے چونچ مارتے تھے۔ (رگ وید نواں منڈل ۶۸،۸۱) اکشو (گنا) کا ذکرہ ملتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے یہ اس کا رس پیتے۔ مدھ (شہد) ذکر کئی جگہ آیا ہے۔ (رگ وید منڈل پہلا، دوسرا، تیسرا اور چوتھا ۸۳۔۰۱) وہ اناج کو دیوتا سمجھتے تھے۔ (رگ وید پہلا منڈل ۷۸۱)
قدیم زمانے میں اشوتھ کی لکڑی پر شامی کی لکڑی رگڑتے تھے۔ جس شعلہ نکلتا تھا اور گھانس پھونس کو آگ لگ جاتی تھی۔ یہ لکڑیاں ارنیاں کہلاتی تھیں۔ اس لیے اسے دوی ماترک (دو ماؤں کا بیٹا) کہا گیا ہے (رگ وید پہلا منڈل ۴۳،۲،۱) اور اگن دیوتا دو لکڑیوں سے ایسا پیدا ہوتا ہے کہ نوزائید بچہ (رگ وید پانچواں منڈل ۹،۳)۔ آگ دو پتھروں کی رگڑ سے بھی پیدا کی جاتی ہے۔ اس اگنی کو ’اوریھ سُوٹھ’یعنی پتھر کا بیٹا یا پتھروں سے پیدا ہوا۔ (رگ وید دسواں منڈل ۷،۰۲) چونکہ آگ جلانا آسان نہیں تھا اس لیے گھروں میں سال کے بارہ ماہ جلتی رہتی تھی۔ اس آگ میں تین دفعہ صبح، دوپیر اور رات کو آہوتی (لکڑیاں، جو اور گھی وغیرہ) ڈالتے تھے۔ اس اگنی کو ’گرھ پتی’یعنی گھر کا مالک یا گھر دیوتا سمجھتے تھے۔ اس لیے صبح صادق کے وقت آگ کی پوجا کی جاتی تھی۔ یگیہ اور ہون کی ابتدا اس طرح کرتے تھی۔ یگیہ کے لیے اگنی کو جلانے کا رواج انگیراس نے رائج کیا تھا۔ (رگ وید پہلا منڈل ۵۴،۳،۱۷،۲۔ تیسرا منڈل ۳۸،۴) گوتم رشی، بھار دواج اور دیگر کئی رشی انگیراس کی کل (خاندان) سے تعلق رکھتے تھے اور اگنی کے پجاری تھے۔ گھروں میں اگنی دن رات جلتی رہتی تھی وہ اکھنڈ جوت کہلاتی تھی۔