(Last Updated On: )
پچھلے ایک دو ہفتوں میں مجھ سے دو سوال پُوچھے گئے۔ بظاہر تو یہ سوال مختلف تھے لیکن غور کرنے پر معلوم ہوا کہ سوال اور جواب ایک ہی تھا۔ ایک سوال یہ تھا۔ ’’انسان کو زمین پر بیش بہا خزانے میسر ہیں پھر بھی وہ چاند کی طلب میں کیوں رہتا ہے؟‘‘ دوسرا سوال تھا، ’’انسان کو کیا چیز بے وفائی پر مجبور کرتی ہے؟‘‘
۔ ۔ ۔ ۔
اس سوال کا جواب سائنس کے مطابق زندہ مخلوقات میں ارتقأ کا میکنزم مہیاکرتا ہے۔ احباب مجھے کہتے ہیں میَں بدنی کیمیکلز کی بات بار بار کیوں کرتا ہوں۔ کچھ دِن ہوئے، ایک دلچسپ تحقیقی مقالہ شائع ہوا ہے جس میں نیوروفزیالوجی کا ایک نیا عالمی قانونِ فِطرت ریاضی کے اصولوں پر دریافت ہوا ہے۔ عالمی کا مطلب ہے کہ ایک اکیلے زندہ خُلیے (Cell)سے لے کر کروڑوں خلیوں کے پیچیدہ بدنی نظام پر مشتمل جانور اور انسان سبھی اس قانون پر چلتے ہیں۔ بیرونی محرک جب پہلی دفعہ کسی آرگنازم کو برانگیختہ (Trigger) کر کے متحرک کرتا ہے تو وہ آرگنازم سب سے شدید بائیوکیمیکل رَدِّعمل دکھاتا ہے۔ وہی محرک اگر بار بار متحرک کرے تو وقت کے ساتھ ساتھ آرگنازم کے رَدِّعمل کی شدت کم ہوتی جاتی ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ اس مقالے کانیچے دیا گیا گراف اکثر احباب کی سمجھ میں آ جائے گا۔
یہ لیجئے لڑکپن کی میری پرانی ڈائری میں اسی موضوع پر مجھے کیا ادبی مواد مِل گیا۔۔۔
’’۔۔اِس سے پہلے میَں کئی بار دیکھ چُکا تھا کہ عِشق کی اُنگلیاں جب پہلے پہل بوسہ کے مِضراب سے رُبابِ حُسن کے تاروں کو چھیڑتی ہیں تو کیسے راگ پیدا ہوتے ہیں، ایڑی سے لے کر چوٹی تک ایک تھرتھری سی پیدا ہوتی ہے، جیسے کِسی نے بجلی کا تار رکھ دیا ہو، جیسے تتلی پُھول پر بیٹھی ہو اور اس کے رنگین بازو پنکھڑیوں پر چِپک گئے ہوں۔ جیسے بھونرا کنول کے پُھول پر بیٹھا ہو، پتیاں سُکڑ گئی ہوں اور وہ باہر نکلنا چاہتا ہو کہ دوبارہ گرفتار ہو۔۔۔ایک بے پئے کی مَستی۔ ۔ وہ پہلا پیار۔ ۔ ۔ ۔
مگر آج مُجھے معلوم ہوا کہ آخری بوسہ کیا ہوتا ہے۔ جیسے محبوب کی مُردہ لاش سے کوئی لپٹ جائے اور یہ سوچے کہ میری التجا اسکی آنکھ کھول دے گی۔ جیسے خواب سے جاگ کر کوئی پھر آنکھیں بند کر لے اس توقع پر کہ میَں پھر اس جہانِ جمیل کی سیَر کر سکونگا۔ جیسے بچہ کھلونوں کو توڑ کر رونے لگے کہ اسکے آنسو اِن ٹُکڑوں کو یکجا کر دیں گے۔۔۔‘‘
ادب میں کہتے ہیں پہلا بوسہ ہمیشہ یاد رہتا ہے لیکن دسواں اور پانچ سوواں نہ یادداشت میں کُھبتا ہے نہ اُتنا ہمارے (کیمیکلز) جذبات کو برانگیختہ کرتا ہے۔ یعنی ہمیں عادت ہو جاتی ہے اور ہم ڈھیٹ ہو جاتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ تیز مرچ والا سالن کھایا جائے تو پہلے نوالے میں زیادہ مرچیں لگتی ہیں پھر ہمارے دماغ کا خودکار میکنزم (automatic gain control) اپنی زُودحِسّی گھٹاتا جاتا ہے۔ اس حقیقت کے پیچھے ہمارے بائیو کیمیکلز ہوتے ہیں۔ چوٹ سے درد کی شدت وقت کے ساتھ کم ہوتی جاتی ہے۔مجھے اڈیالہ میں ڈاکو دوستوں کا کہنا یاد آیا۔ ڈاکو کی چھترول سے ڈاکو کو اُتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی پہلی دفعہ کی چھترول میں پہلے جُوتے سے ہوئی ہو گی۔
بوریت کے احساس اور نِت نئے محبوب کی تلاش میں بے وفائی کے پیچھے بھی بائیوکیمیکلز ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ہم ایک ہی قسم کا کھانا روزانہ نہیں کھاتے۔ ہل مِن مزید اور نِت نئے مزے اور لذت کی تلاش کے پیچھے بھی ہمارے بائیو کیمیکلز ہیں۔ پہلا مزا شدید ہوتا ہے۔ چاند کو پا لینے کی خواہش، محرومی کا احساس،یعنی جو ہمارے پاس ہوتا ہے اسے نظر انداز کر کےناشکری کرنا اور اس چیز کی آرزو کرنا جو ہمارے پاس نہیں ہے۔۔ ان احساسات کے پیچھے سب ہمارے بائیوکیمیکلز ہوتے ہیں۔ یہ فطرت کا میکنزم ہے۔ ایک وجہ اور بھی دیکھئے۔ ارتقأ کے میکنزم میں ریاضی اور حیاتی شماریات کے اصولوں میں کسی بھی آرگنازم کی بائیوڈائیورسٹی (Biodiversity) یعنی رنگا رنگ حیاتیاتی تنوع کی اہمیت اُونچا درجہ رکھتی ہے۔
کروڑوں سالوں کے عرصے میں ہمارا کُرّۂ ارض شدید گرمی شدید سردی شدید حبس شدید خشکی وغیرہ ادوار سے گزرا ہے۔ فطرت میں اگر اردگرد کی آب و ہوا اور ماحول کسی بھی وجہ سے تبدیل ہونا اور ناسازگار ہوناشروع ہو جائے تو ہر وہ زندہ آرگنازم جس کے اندر متنوع تبدیلی کی قدرتی صلاحیت ہوتی ہے اسکے بچنے کے مواقع، چانسز زیادہ ہوتے ہیں۔ وہ آرگنازم حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیتا ہے اور وہ اور اسکی آئندہ نسلیں بچ جاتی ہیں۔ مثلاً سورج کی روشنی سے ہماری کھال وٹامن ڈی بناتی ہے۔ شمالی انتہائی سرد علاقوں میں سورج کم نکلتا ہے۔ سفید رنگت کی کھال کالی کھال کی نسبت وٹامن ڈی بنانے میں زیادہ اہل ہوتی ہے۔ ہزاروں سالوں میں سفید رنگت والے باشندے بچ جاتے ہیں جبکہ براؤن اور کالی کھال والے ناپید ہو جاتے ہیں۔ چمکتے سورج سے گرم علاقوں میں اُلٹا حساب ہوتا ہے۔ کالی رنگت والی کھال اُتنی اہل نہیں ہوتی، اس کو وٹامن ڈی بنانے میں زیادہ عرصہ لگتا ہے اورسورج کی روشنی زیادہ چاہیے۔ کالی رنگت والے لوگ جب سرد ممالک میں جا کر رہتے ہیں تو انہیں وٹامن ڈی کی گولیاں کھانی پڑتی ہیں۔
دوبارہ کہوں گا۔ ارتقأ کا میکنزم ریاضی کے اصولوں پر چلتا ہے۔ جو بچ سکتا ہے وہ بچ جاتا ہے۔ جو تبدیلی کی صلاحیت رکھتا ہے وہ حالات کے مطابق خود کو بدل سکتا ہے۔انسانوں میں نِت نئے متنوع پیار اور ساتھی کی تلاش عَین ارتقا کے مطابق ہوتی ہے۔ آئندہ نسل بھی متنوع ہوتی ہے اور بچنے کے چانسز بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ شادی شدہ احباب اگر غیر مرد یا غیر عورت کو دیکھ کر کشش محسوس کرتے ہیں تو اس کے پیچھے بھی ارتقأ کا میکنزم اور تنوع کی طلب بالکل فطرت کے مطابق ہوتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس خواہش یا طلب سے احساسِ گناہ میں مبتلا ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ ارتقأ کا تحفہ ہے جو ہمیں ہمارے آباؤاجداد سے وِرثے میں مِلا۔ اُن میں نہ ہوتا تو آج ہم روئے زمین پر موجود نہ ہوتے اور اتنے مختلف قبیلوں اور شکلوں میں نہ بٹے ہوتے۔ اس طلب کو سمجھئے، اس سے سمجھوتہ کیجئے۔ بے وفائی کرنا ہماری غیر شعوری فطرت میں ہے لیکن شعور کا مالک انسان ہونے کے ناطے اپنے ساتھی سے وفاداری ہمارے اختیار میں ہے۔ صرف ہمارا شعوری انتخاب ہی ہمیں اشرف المخلوقات بناسکتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے، اگر تنوع واقعی اتنا اہم ہےتو کیا ہم اپنے ساتھی، دوست، رشتہ دار سے بے وفائی کرنے کی بجائے اپنے تعلق میں ہی تنوع اور رنگا رنگ دلچسپی پیدا کر سکتے ہیں؟ مرضی کی بات ہے اور اہلیت کی بھی ۔ کیا ہم خود اہل ہیں، قابل ہیں یا ہماری نااہلی ہمیں سراب دکھاتی ہے؟
اور ہاں! بات سے بات نکلتی ہے۔۔ اپنے قبیلے، برادری، خاندان میں اپنے/اپنی کزن کو پسند کرنے سے پہلے اس امر پر غور کر لیجئے کہ شادی ہو گئی تو آئندہ نسل میں تنوع کا چانس بڑھے گا یا گھٹے گا۔ کئی نسلی جینیاتی بیماریاں خاندان میں شادیوں کی وجہ سے نہ صرف چلتی ہیں بلکہ ارتکاز کا شکار ہو جاتی ہیں یعنی گاڑھی ہوتی جاتی ہیں۔ آپ کو یقین نہیں آتا تو اصلی خالص نسل کے کُتے پالنے والوں سے پُوچھیے کہ ایسے کُتوں کی جینیاتی بیماریاں کیا ہوتی ہیں۔۔۔
This graph shows an idealized sensory adaptation response. At the onset of a new stimulus, the organism’s initial state, called the spontaneous rate (SR), rises to a peak response (PR) and then falls to a final steady state (SS).