امی جی کا سب کچھ، تنویرکا دوست، سبونہ کا شہید
ـــــــ
کرنل اشفاق نے فاتح سبونہ میں لکھا ہے محاذ سے میجرشبیرشریف کی شہادت کی خبر ایک ٹیلیفون تھا جو پڑوس میں آیا
خبرپہنچانے والے پڑوسی نے دروازے پردستک دے کرتصدیق چاہی ’کیا آپ کا کوئی فوج میں ہے؟‘
گھر میں موجود شبیرکی والدہ کا جواب تھا، ’میراتوسب کچھ ہی فوج میں ہے‘
شبیر اپنی والدہ کا سب کچھ ہی تو تھا
بہت سالوں بعد جب راشدولی جنجوعہ امی جی کاانٹرویو کررہے تھے تو امی جی کا کہنا تھا کہ شایدشبیرکو آگاہی تھی کہ وہ کس راستے کا مسافر ہے۔
بیٹ مین کو حکم تھاکہ ہروقت کم ازکم چار وردیاں تیارحالت میں ہونی چاہییں۔ وہ اپنے پروردگار سے اپنی سب سے اچھی یونیفارم میں ملنا چاہتاتھا
امی جی ہرروز فجرکی نماز کےبعد شبیرکی گھرمیں آویزاں تصویر سے باتیں کیا کرتیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ جس دن مجھے اس کی بہت یاد ستائے تو شبیر خواب میں آکرمل جاتا ہے امی جی اب کیویلری گراؤنڈ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئیں، اپنے شہید بیٹے سے ملنے کے لیے اب وہ کسی خواب کی محتاج نہیں رہیں
…
شبیریاروں کا یارتھا۔ اس کےسب سے عزیز دوست جواں سال تنویراحمد نے اپنی جان لے لی تھی۔ شبیرکو قلق تھا کہ دوست نے دل کا حال بتائے بغیرموت کو گلے لگا لیا۔
ماں اپنے لاڈلےکو خواب میں مشکل میں دیکھتی تو پریشان حال میانی صاحب کی قبرکا طواف کرتی ۔ایسے ہی کسی عالم میں تنویرکی والدہ نے شبیرکو کہا تھا کہ شاید تنویرکے پہلو میں کوئی صدیق کوئی شہید لیٹے تو اسے قرار آئے۔ شبیرکی شہادت کے بعد یہ انکی بہن تھیں جنہوں نے یہ یقینی بنایا کہ شہادت کے مرتبے سے سرفراز ہوئے شبیرکو اس کی وصیت کے مطابق میانی صاحب میں تنویر کے پہلو میں لٹا دیا جائے
میانی صاحب کے قبرستان میں شبیرکو تنویرکے پہلو میں خاک نشین دیکھتا ہوں تو یقین ہونے لگتا ہے کہ شبیرنے دوستی کی لاج رکھتے ہوئے شہادت کو لبیک کہا صاحبو! ایک بیٹے اور ایک دوست سے پرے شہید ایک جنگجو بھی تو ہوتاہے۔ شبیر بھی ایک جنگجو تھا اور جنگجو بھی کیا کمال!
کیڈٹ تھا تو پاکستان ملڑی اکیڈمی سے شمشیراعزاز حاصل کی، 1965 میں پہلی جنگ لڑی تو بہادری کے کارناموں پر ستارۂ جرّات کا اعزاز اپنے نام کیا اور اگلی ہی پاک بھارت جنگ میں 1971 میں سلیمانکی سیکٹر میں سبونہ کے محاذپرداد شجاعت دیتے ہوے شہادت کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوئے اور بہادری کا سب سے بڑا اعزاز نشان حیدر ان کے حصے میں آیا۔
ایک سپاہی کو اس سے بڑھ کر اور کیا چا ہیے!
آئیے آپ کو 1971 کے سلیمانکی کے محاذ پرلیے چلتے ہیں میجرشبیر 6 ایف ایف کی براوو کمپنی کی کمان کررہے ہیں اورانہوں نے کمال دلیری سےپیش قدمی کرتے ہوئے سبونہ کےدفاعی نالے پر اہم ترین پل بیری والہ برج ثابت و سالم قبضےمیں لے لیا ہے
دوسری طرف 3 آسام اور 4 جاٹ کی طاقتورحریف قوتیں باوجود بھرپور حملوں کے پل کو 6 ایف ایف کے قبضے سے نہیں چھڑا سکیں 4اور5 دسمبر کی درمیانی رات گھمسان کی لڑائی میں میجر شبیر شریف نے اپنےمقابل 4جاٹ کے کمپنی کمانڈر میجر نارائن سنگھ کو مار گرایا اور خود اس لڑائی میں زخمی ہو گئے
زخموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ محاذ پر رہے اور اگلے دن 6 دسمبر کو مقابل ٹینک کی مشین گن کے فائر کی زد میں آکرشہادت کے رتبے پر فائز ہوئے اور صاحب شجاعت کسی ایک کی تو میراث نہیں۔ جب فوجیں لڑتی ہیں تو جان ہتھیلی پر لیے سپاہی بھلے اس طرف کے ہوں یا اس پار کے بہادری کے نئے کارناے رقم کرتے ہیں۔ میجر شبیرکے ہاتھوں پہلے زخمی ہونے اور پھررجمنٹل ایڈ پوسٹ کے سفرمیں جان کی بازی ہاردینے والے میجر نارائن سنگھ کی بہادری کی تعریف خود پاکستانی سپاہ نے کی اور ہندوستان نے اپنے اس بہادر سپوت کو بہادری کے اعزاز ویر چکر سے نوازا
جہاں سبونہ سے کچھ دور گاؤں نورمحمدمیں ایک دلیرانہ حملے میں 6 ایف ایف کے نائب صوبیدار عارف نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا وہیں 3 آسام اور 4 جاٹ کے جانبازوں نے جان پر کھیل کر پاکستانی سپاہ کی فاضلکا کی طرف پیش قدمی کو روکھے رکھا
جہاں سلیمانکی پوسٹ کا آبزرویشن ٹاور تاحد نظرپھیلے 1971 کے اس محاذ کے پاکستانی جانبازوں کی یاد دلاتا ہے وہیں ہندوستان کے بارڈر سے لگ بھگ سات کلومیڑ اندر آصف والہ کے گاؤں میں شہیدوں کی سمادھی ہے جہاں 1971 میں دو سو سے زیادہ جانبازوں کی آخری رسومات ادا کی گئی تھیں
…
مرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا
صلۂ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...