(Last Updated On: )
نیہا اور نیر کو دیکھ کر لگتا تھا کہ جیسے وہ بنے ہی ایک دوسرے کے لیے ہیں۔ جس نے بھی دیکھا رشک کی نگاہ سے دیکھا اور یہی دعادی کہ یہ جوڑی سلامت رہے۔ نیہا اور نیر دونوں کے ستارے ایک ہی تھے اور ستاروں بھرے آسمان کے تلے وہ جب بھی ملتے چاند ان کی محبت کا گواہ بنتا۔ ان دونوں کا ساتھ بھی تو اوپر والے نے بنایا تھا۔ نیہا اور نیر کے پا پا توصیف اور نعمان ایک ہی آفس میں کام کرتے تھے اور اتفاق سے ان کی مائیں بھی کالج لائف سے ایک دوسرے کی دوست تھیں۔ یوں ان کے گھروں میں گہری دوستی کا ماحول تھا۔ دونوں کے گھر بھی پاس پاس تھے،بچپن ساتھ گزرا ایک ہی اسکول میں ان کا ایڈمیشن کروایا گیا۔ اسکول کی ہر سر گرمی میں دونوں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔ دونوں موسیقی کے شوقین ۔ نیہا کی آواز اچھی تھی تو نیر ڈرمنگ میں ماہر، پڑھائی میں بھی ہمیشہ اول آتے رہے۔ جب کالج پہنچے تو وہاں بھی ساتھ ہی رہے ۔پورے کالج میں ان کی جوڑی مشہور تھی۔ ان کے ملنے کی جگہ مخصوص تھی جیسے ہی نیہا کی کلاس ختم ہوتی وہ لائبریری کے سامنے ہری گھاس پر بیٹھی اس کی منتظر ہوتی، پھر دھیرے دھیرے سب دوست وہاں آجاتے، نیر کے آنے پر اس کے چہرے کی چمک بڑھ جاتی ہے تو سب اس کا مذاق اڑاتے لیکن وہ بس مسکرا دیتی۔ کہ محبت تو جذبہ ہی ایسا ہے جو آ ّنکھوں سے عیاں ہوتا ہے وہ بھلا کیسے اسے چھپا سکتی تھی۔ محبت تو ایک خوشبو ہے مشک سی کہ جس کے دل میں ہو اسے بعد میں پتہ چلتا ہے اور اس کی مہک ساری دنیا کو پہلے ہی معطر کر دیتی ہے، اسی لیے باد صبا جب ان کا پیام محبت پھیلا رہی تھی
ان کے والدین نے بھی اس خوشبو کو محسوس کرتے ہوئے ان کے ساتھ کو دائمی بنانے کی غرض سے ان کی منگنی کر دی تھی۔ ایک بہت خوبصورت تقریب میں جب نیر نے نیہا کے نازک ہاتھ کو تھام کر اس کی مخروطی انگلی میں ہیرے کی انگوٹھی پہنائی تھی اس وقت وہ ُخود کو دنیا کی سب سے حسین ترین اور خوش قسمت لڑکی تصور کرنے لگی ۔
اس رسم کے بعد تو جیسے ان کی دیوانگی میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ ایک دن بھی ایسا نہ گزرتا تھا کہ وہ نہ ملتے ہوں۔ نیر کے ایم بی اے کے دوران ہی نیویارک کی ایک کمپنی نے یونیورسٹی سے کئی طلبا کا انتخاب کیا،نیر کے ساتھ اس کے چار اور دوست بھی تھے جنہیں منتخب کیا گیا تھا۔ اس کا پلیس منٹ ہونے پر جہاں سارے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی مٹھائی تقسیم کی گئی، دعوتیں ہوئیں خوب خوشیاں منائی گئیں وہیں نیہا کے سرپر تو جیسے غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اس کے لیے تو نیر سے دوری کا تصور ہی سوہان روح تھا،اس نے رو رو کر برا حال کر لیا تھا نیر نے کئی بار اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ ”بس دوسال ہی کی تو بات ہے“
”میں تو دو دن نہیں رہ سکتی آپ دو سال کی بات کر رہے ہیں“
”نیہا سمجھا کرو اتنی جذباتی نہ بنو۔ ہم فون پر باتیں کریں گے، روز ویڈیو کال کر لیں گے۔“
”نہیں نیر نہیں، تم مجھے چھوڑ کر نا جاو ۔
جیسے جیسے نیر کے جانے کے دن قریب آرہے تھے۔ نیہا کی بے قراریاں بڑھتی چلی جارہی تھیں،اداس تو نیر بھی بہت تھا لیکن ایک اچھا مستقبل اس کا منتطر تھا جس کی وجہ سے وہ نیہا سے جدائی کو برداشت کر رہاتھا۔ وہ اپنے آپ کو سب کے سامنے نارمل دکھانے کی کوشش کر رہا تھا خاص طور سے نیہا کے سامنے۔اس دن سب دوستوں نے مل کر نیر اور باقی جو دوست اس کے ساتھ جانے والے تھے انہیں پارٹی دی تھی سب نے خوب انجوائے کیا،نیر نے نغمہ چھیڑ دیا تھا تو سارا ماحول رومینٹک سا ہو گیا تھا۔ سب ایک دوسرے کو اچھے مستقبل کی دعائیں دیتے رخصت ہوئے۔
واپسی کے راستے میں نیہا نے پھر وہی سوال کر دیا جو وہ پہلے بھی کئی بار کر چکی تھی بلکہ اس بار تو ایک سوال کا اضافہ ہو گیا تھا۔
”نیر زندگی کے کسی موڑ پر مجھ سے جدا تو نہ ہو جاؤگے ۔ تم وہاں جا کر
مجھے بھول تو نہیں جاﺅگے نا؟ “
نیر نے گاڑی کنارے روک لی اور نیچے اتر کر دوسری طرف کا دروازہ کھول کر ہاتھ بڑھا دیا، نیہا اس کا ہاتھ تھام گا ڑی سے اتر آئی۔ باہر موسم سہانا تھا چاندنی ہر سو بکھری ہوئی تھی پورا ماحول خوابناک تھا وہ نیہا کا ہاتھ تھامے تھامے جھیل کے کنارے لے آیا، یہ جھیل ان کے گھر کے قریب تھی اور ان کی محبتوں کی گواہ بھی تھی کیونکہ اکثر وہ اس کے کنارے ٹہلتے رہے تھے۔
جھیل کے کنارے پر رکھی لوہے کی بنچ پر بیٹھ کر نیر نے اس کے دونوں ہاتھوں کو تھام لیا۔ شدت جذبات سے اس کی آواز لرز رہی تھی:
”نیہا تمہیں مجھ پر یقین نہیں نا میری محبت پر اعتبار نہیں“
”یقین تو اپنے آپ سے بھی زیادہ ہے لیکن آپ سے سننا مجھے اچھا لگتا ہے،
ایسا لگتا ہے کہ محبت کی تجدید ہورہی ہے“
”جب میں آخری سانس لے رہی ہو ں گی نیر تب بھی تم میرے پاس رہوگے نا؟ “
نیر نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا
”ایسا مت کہو نیہا، یہ خوبصورت لمحے ان باتو ں کے لیے نہیں ہیں ۔
جانتی ہو میری تو آرزو ہی یہی ہے کہ میری جب سانس ٹوٹے تب تم میرے پاس رہو تمہاری آغوش میں میرا دم نکلے۔“
” پلیز ایسا نہ کہو میرا دم ابھی نکل جائے گا“
کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ نیر نے بمشکل تمام اسے چپ کرایا۔ اور پھر دونوں نے ایک دعا ساتھ ساتھ کی کہ ’جب بھی ہم اس دنیا سے رخصت ہوں ساتھ ساتھ ہوں‘۔ ایک ساتھ آمین کہا۔
ان کی اس دعا کا گواہ پھر وہی چاند بنا جو اسی طرح کی سینکڑوں کہانیوں کو خاموشی سے صدیوں سے سنتا چلا آرہا تھا۔
پھر وہ دن آہی گیا جب نیر کو روانہ ہونا تھا، سب کو اداس کر کے وہ خوشیوں کی تلاش میں نکل گیا، جلد ہی آنے کا وعدہ کر کے وہ نم آنکھوں سے رخصت ہوا تھا۔ وہ کیا گیا نیہا تو اداسی کے گہرے سمندر میں اترتی چلی گئی، جب تک امتحان تھے تب تک وہ پڑھائی میں مصروف بھی رہی لیکن امتحانات ختم ہونے کے بعد سے تو وہ ایک دم گم سم سی ہوکر رہ گئی تھی۔ ادھر نیر کے گھر پر بھی اداسی کا ڈیرہ تھا، اب دونوں کے والدین کو شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ کاش ان کے اور بھی بچے ہوتے، نیہا کی خاموشی نے دونوں گھروں کو بے رونق کر دیا تھا، نیر کی ممی آتیں تو وہ ان سے باتیں تو کرتی لیکن وہ ہنسی وہ کھلکھلاہٹ آواز کی کھنک نجانے کہاں گم ہو کر رہ گئی تھی۔ اب انہیں یہ ڈر لگنے لگا تھا کہ کہیں نیہا بیمار نہ ہو جائے۔ نہ کہیں آنا نہ جانا بس اپنے کمرے تک ہی محدود ہو کر رہ گئی تھی۔ دھیرے دھیرے اس کی صحت پر اثر پڑنے لگا تھا،اور جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا وہ دھیرے دھیرے گھلنے لگی تھی، بخار تھا کہ اتر ہی نہیں رہا تھا،کم ضرور ہوجاتا لیکن پھر بڑھ جاتا،
اسے اسپتال میں داخل کر دیا گیا،جہاں ڈاکٹروں نے یہی کہا تھا کہ کوئی اسٹریس ہے،اس دن بھی نیر کے والدین اسپتال آئے ہوئے تو ڈاکٹر کی بات سن کر وہ سب پریشان ہوگئے،نیہا کی ممی تو رونے ہی لگیں کہ ان کی اچھی بھلی بچی کو یہ کیا ہو گیا ہے، تب توصیف صاحب نے فیصلہ کن انداز میں کہا کہ ”ان دونوں کو الگ رکھنا مناسب نہیں ہے، بہتر ہے کہ ہم نیہا کو بھی نیر کے پاس ہی بھیج دیں“
نیہا کو کیسے بھیج سکتے ہیں“ اس کی ممی نے پوچھا
”ہم ان دونوں کی شادی کر دیتے ہیں اور نیہا کو نیو یارک بھیج دیتے ہیں“
توصیف صاحب نے جواب دیا
”شادی! نیر آرہا ہے کیا ؟ ”
”نہیں نیر کا تو دو سال کا بانڈ ہے آنا ممکن ہی نہیں“
”تو پھر شادی کیسے ” نیر کی ممی حیران تھیں
ارے بیگم آپ بھی نا، ارے بھئی نئی ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہیں ہم،ان دونوں
کا فون پر نکاح کروا کر کاغذات تیار کر نیہا کو بھیج دیتے ہیں۔“
نعمان صاحب نے بھی ان کی رائے سے اتفاق کیا
”کوئی پریشانی تو نہیں ہوگی“ نیہا کی ممی اب بھی فکر مند تھیں ۔
”ارے نہیں بھلا کیسی پریشانی، دیکھیے وہاں نیر بھی اکیلا ہے، دو سال کم
لگ رہے ہیں لیکن ہے تو یہ ایک طویل عرصہ، نیہا چلی جائے گی تو ہمیں بھی نیر کی طرف سے اطمینان ہو جائے گا ۔“
سب کے چہرے کھل اٹھے ۔
نیہا بھی خوش تھی اسپتال سے گھرآنے تک وہ تو پوری بدل چکی تھی نیر کے پاس جانے کا خیال ہی اس کو نئی زندگی دے گیا تھا۔ نیر بھی خوش تھا نیہا کی دادی اور دادا بھی گھر آگئے تھے۔ ادھر نیر کی پھوپھیاں اور دادی آچکی تھیں۔ کزنز جمع ہو گئے تھے دونوں گھروں میں خوشیوں کے شادیانے بجنے لگے تھے۔
ساری رسمیں ہوئیں اور پھر وہ دن آگیا جب اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیر کا ہو جانا تھا ۔
میرج گارڈن میں بڑی سی اسکرین لگی تھی جس میں نیر دولہا بنا اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا نظر آرہا تھا۔ ادھر نیہا اپنی سہیلیوں میں گھری سجی سنوری دلہن بنی سارے جہان کے حسن کو مات دے رہی تھی۔ مہمان اس کے حسن کو سراہ رہے تھے۔ شادی بھی جس دھوم دھام سے ہوئی تھی اس نے بھی اسے یادگار بنا دیا تھا۔ نکاح کے کاغذات پر دستخط کرتے ہوئے نیہا کی آنکھیں خوشی سے چھلک اٹھی تھیں۔ کہ اب اس کے اور نیر کے بیچ کی دوریاں ختم ہونے کو ہیں۔
جلد ہی نیہا کے جانے کی تیاریاں بھی مکمل ہو گئیں اور وہ نیر کے پاس پہنچ بھی گئی۔
ان دونوں کی دنیا جنت بن گئی تھی۔ دونوں کا معمول تھا کہ روزانہ اپنے والدین سے ویڈیو کال کرتے ان کے ہنستے چہرے دیکھ کر ان کا سیروں خون بڑھ جاتا۔
نیر نے اب انڈیا جانے کے بجائے وہیں رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ دونوں کے والدین سال میں ایک بار باری باری سے دو دو مہینوں کے لیے ان کے پاس چلے آتے تھے، تو چھٹیاں ہونے پر نیہانیر بھی ملنے آجاتے تھے۔ زندگی کا سفر بہت خوبصورت ہو گیا تھا۔ وقت گزرنے کے بعد بھی ان دونوں کی محبت میں ذرا کمی نہیں آئی تھی۔ وہ دونوں آج بھی ایک دوسرے کے لیے لیلی مجنوں ہی بنے رہتے تھے۔ نیر کو آفس سے گھر پہنچنے میں ذرا بھی دیر ہوجاتی وہ بے چین ہو جاتی اور فون لگا بیٹھتی۔
کئی بار نیر نے ہنستے ہنستے کہا بھی ”نیہا ذرا بھروسہ کیا کرو بھئی کام ختم کرکے گھر ہی آو ں گا۔ یہ امریکہ کی رنگینیاں تمہارے حسن کے آگے ماند تھیں آج بھی ہیں اور ہمیشہ رہیں گی،کیوں پریشان ہوتی رہتی ہو”
اور اس کے چہرے پر لالی بکھر جاتی۔
یونہی زندگی انہیں خوشیوں کے جھولے میں جھلا رہی تھی۔
اس دن بھی نیر کو آفس سے آنے میں دیر ہوگئی تھی نیہا بے قرار ہو گئی،آج اس نے نیر کو فون نہیں کیا بلکہ دروازے میں کھڑے ہو کر اس کا انتظار کرنے لگی۔ جیسے ہی اس کی گاڑی گھر کے نزدیک آئی نیہا کا چہرہ کھل اٹھا۔ اور نیر اس کی دیوانگی پر مسکرا دیا۔
پوری دنیا میں چین سے پھیلنے والے وائیرس کی بیماری کاخوف پھیلا ہوا تھا،
کہیں نہ کہیں ہر انسان اندر سے ڈرا ہوا تھا لیکن جن ممالک میں ابھی یہ نہیں پہنچا تھا وہاں کے باشندے بے خوف تھے، نیویارک میں بھی یہ وبا پہنچ چکی تھی ، پورے ملک میں احتیاطی تدابیر برتنا شروع کر دی گئی تھیں۔ وہ بھی بہت احتیاط کر رہے تھے،گھر سے نکلنا کم سے کم کر دیا تھا،نیہا تو بالکل بھی باہر نہیں جا رہی تھی لیکن چونکہ ابھی نیر کا آفس بند نہیں ہوا تھا اس لیے اسے جانا پڑ رہا تھا۔ وہ جتنی دیر باہر رہتا نیہا کی جان اسی میں لگی رہتی، ہر تھوڑی دیر میں وہ فون کر کے اصرار کرتی کہ وہ گھر آجائے۔ اس کی فکرمندی،آنے والے خدشات کے پیش نظر درست بھی تھی کیونکہ وہ دن بھر ٹی وی پر خبریں دیکھتی رہتی تھی اور ہولاتی رہتی۔ اور اب تو یہاں بھی تیزی سے کرونا کے مریض ملنے لگے تھے۔
اس رات بھی وہ پارک میں ٹہل رہے تھے وہ ہی کیا کئی لوگ جن کا چہل قدمی معمول تھا وہاں تھے، ان دونوں کا کیا ساری دنیا کا ہی موضوع گفتگو بھی صرف کروناوائیرس کی ہولناکیاں تھیں۔ وہ دونوں بھی محبت اور وائیرس کی بحث میں الجھے ہوئے تھے نیہا کا خیال تھا کہ ”یہ وائیرس محبت کا دشمن ہے۔“
”ارے نہیں بھئی ایک وبا ہے جو وقتی طور پر اپنا اثر دکھا رہی ہے۔“
نیر نے جواب دیا۔
”آپ مانیے تو یہ سچ میں محبت کا دشمن ہے اب دیکھیے نا محبت تو لمس کی
متقاضی ہوتی ہے،اور یہ سب سے پہلے کسی کو بھی چھونے سے منع کرتا ہے، نہ ماں اپنے بچوں کو چھو سکتی ہے نہ ہی باپ بیٹے کو، شوہر بیوی کو، دوست سے دوست ہاتھ نہیں ملا سکتا یہ تو ہر رشتے کو ختم کر رہا ہے نیر یہ تو سیدھے سیدھے لمس کا دشمن بن گیا ہے۔“
”ہاں یہ تو ہے لیکن میں نے کہا نا اس سے بہت ڈرنے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔“
”ارے کیوں نہ ڈریں یہ تو انسانوں کو عفریت کی طرح نگل رہا ہے۔“
”اور نیر کچھ بھی کہو مجھے تو موت سے بہت ڈر لگتا ہے“
”ارے کیسی باتیں کر رہی ہو، موت تو بر حق ہے،وہ تو ہر حال میں آئے گی۔“
”لیکن بس ابھی نہ آئے۔“
”نہیں آئے گی بابا بس ذرا احتیاط کی ضرورت ہے اور کچھ نہیں۔“
”چلو اب گھر چلتے ہیں“
وہ آگے بڑھے ایک بزرگ جوڑا ان کے نزدیک سے گزرا، عورت کو تیز کھانسی آ رہی تھی وہ گرنے لگی اس کا ساتھی اسے سنبھالنے لگا نیہا نے جلدی سے دوسری طرف سہارا دیا۔ تب ہی نیر نے اس کا بازو کھینچ کر آگے بڑھا دیا لیکن وقت اپنا کام کر چکا تھا، محبت کا دشمن اس کی جان کا دشمن بنا اس کے اندر سرایت کر چکا تھا گو کہ گھر آکر انہوں نے معمول کے مطابق خوب رگڑ رگڑکر ہاتھ دھو لیے تھے، مگر پھر بھی تیسرے چوتھے دن اس کی طبیعت میں تبدیلی آنے لگی،بخار پھر جوڑوں میں درد پھر سانس میں تکلیف، جس نے نیر کے ہوش اڑا دئیے، اسی بیچ احتیاط کے طور پر شہر میں لاک ڈاون ہو گیا، لوگوں کے چیک اپ کیے جانے کی تعداد بڑھنے لگی، اسی کے ساتھ ساتھ مریضوں کی تعداد میں بھی دن بہ دن اضافہ ہونے لگا۔ نیہا کو اسپتال میں آئی سو لیٹیڈ کر دیا گیا تھا اور نیر کو قرنطینہ میں۔ نیر تو نیہا کے اسپتال جانے پر ہی زندگی ہار سا گیا تھا،دن رات بس نیہا کے غم میں گھل رہا تھا ادھر نیہا بھی اس کے لیے تڑپ رہی تھی شکر خدا کہ نیہا کے ساتھ رہنے کے باوجود نیر کی رپورٹ نیگیٹیو آئی اور نیہا بھی ٹھیک ہو کر گھر آگئی ۔ لیکن وہ بہت خوفزدہ تھی اسپتال میں اس نے خود کو موت کی طرف بڑھتا دیکھا تھا، اس پر دہشت کے بادل تھے، وہ جینا چاہتی تھی، ابھی اس نے دنیا میں دیکھا ہی کیا تھا، اس کے اندر اچھے ہونے کی خواہش بہت زیادہ تھی وہ کسی بھی طرح زندگی کو موت کے حوالے نہیں کرنا چاہتی تھی اور پھر وہ واقعی جیت گئی وہ ٹھیک ہو گئی تھی اسے گھر بھیج دیا گیا تھا، دونوں بہت خوش تھے کہ انہوں نے موت کو مات دے دی تھی۔
”نیر موت بہت ڈراﺅنی چیز ہے مجھے زندہ رہنا ہے ابھی آپ کے ساتھ بہت سارے خواب پورے کرنا ہیں، زندگی کتنی خوبصورت ہے یہ موت کے قریب جا کر پتہ چلا ہے۔“
”ہاں نیہا جب تمہیں اسپتال لے جایا جا رہا تھا میں بہت مایوس ہوگیا تھا
یہ سوچ کر کہ پتہ نہیں تم واپس آو گی یا نہیں، پتہ نہیں میں بھی زندہ رہوں گا یا نہیں“
”شکر خدا کا اس نے ہمیں دوبارہ زندگی دے دی ہمیں پھر ایک دوسرے کا ساتھ مل گیا۔“
لیکن ان کی یہ خوشی بس دو چار دن ہی رہی۔ اس بار نیر کو شدید کھانسی شروع ہو گئی
جو دو دن میں اتنا بڑھ گئی اس کا دم گھٹنے لگا وہ بے حال ہو گیا،نیہا نے اس کی حالت دیکھتے ہی اسپتال فون لگایا اور منٹوں میں وہاں کا عملہ آگیا اور اسے لے جانے لگا اس نے بڑی حسرت بھری نظروں سے نیہا کو دیکھا، نیہا کی آنکھوں میں آنسو تھے جو اسے بے قرار کر گئے تھے، نیہا میں واپس آﺅں گا
تم پریشان نہ ہونا، نیہا نے اسے الوداع کہا اور بھاگتے ہوئے اندر آگئی۔
وہ نظروں سے اوجھل ہونے تک گھر کی طرف دیکھتا رہا خالی دروازہ نا امیدی کی طرف دھکیل گیا پھر بھی اس نے آس کا دامن نہیں چھوڑا اسے پوری امید تھی کہ وہ واپس آئے گا۔
اسپتال میں اس کی حالت نازک ہوتی جارہی تھی۔
ڈاکٹر اسے بچانے کی بھر پور کوشش کر رہے تھے وہ جوان تھا،اس کے جسم میں قوت مدافعت تھی اس لیے ڈاکٹرز کو امید تھی کہ وہ بچ جائے گا۔لیکن اس کی طبیعت میں افاقہ نہیں ہو رہا تھا اب تو ڈاکٹر بھی مایوس ہونے لگے تھے وہ چار دن اس موذی مرض سے جنگ لڑتا رہا ہر دن وہ ڈاکٹر سے التجا کرتا رہا کہ بس ایک بار ایک بار اسے اس کی بیوی کو دیکھ لینے دو، بس ایک خواہش پوری کردو، نرس اس کی بے بسی پر نمناک ہو اٹھتی تھی، اس دن بھی اس کی حالت بگڑنے لگی تھی وہ ڈاکٹر کی طرف ملتجیانہ نظروں سے دیکھ رہا تھا، نرس جب قریب آئی پھر اس نے کھانستے کھانستے ہاتھ جوڑ دئیے، نرس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، وہ روتی ہوئی باہر چلی گئی، ڈاکٹر ز بھی انسان تھے اس کی شدت آرزو نے ان کے دلوں کو پگھلا ہی دیا۔
پھر دونوں ڈاکٹرز جو اس کا علاج کر رہے تھے انہوں نے آپس میں بات کر کے طے کیا کہ اس روم کو پوری طرح سینیٹائز کر کے اس نوجوان کی آخری خواہش ہمیں پوری کر دینا چاہیے،اسپتال ویسے ہی بہت صاف شفاف تھا اس کے آس پاس اور اس کے بیڈ اس سے وابستہ ہر چیز کی صفائی کر کے پوری احتیاط برت لینے کے بعد نیہا کو فون کیا گیا۔ وہ اس وقت گھر کے سامنے والے پارک میں پریشان پریشان ٹہل رہی تھی، چاند آسمان پر اداس اسے دیکھ رہا تھا کہ اس کا موبائل بج اٹھا، اسپتال کا نمبر دیکھ کر اس کی سانسیں ٹوٹنے سی لگیں۔
اس نے دھڑکتے دل لرزتے ہاتھوں سے فون آن کیا اور بری خبر سننے کے لیے حوصلہ جمع کرنے لگی۔
ادھر سے نرس کی آواز ابھری۔
”میڈم نیر کی حالت ٹھیک نہیں ہے یہ سمجھیے کہ بس آخری سانس لے رہا ہے آپ سے ایک بار ملنا چاہتا ہے، اسپتال میں پورا انتظام کر لیا گیا ہے آپ آ سکتی ہیں یہاں کوئی خطرہ نہیں ہے۔“
یہ خبر اس کے لیے پہلی خبر سے زیادہ ہولناک تھی، اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اس نے خاموشی سے فون سویچ آف کر دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی
چاند آج بھی گواہ تھا لیکن وہ آج اس محبت کا گواہ نہیں بننا چاہتا تھا اس نے خود کو گہری کالی بدلیوں میں چھپا لیا۔
٭٭٭٭