(Last Updated On: )
مارچ 2011ء میں پچپن سالہ کریگ لیوز کو دل کے دورے کے ساتھ ٹیکساس ہسپتال میں پہنچایا گیا وہ ایک جان لیوا بیماری ‘ایمیلائیڈوسز ‘ سے متاثرہ تھا ۔ یہ ایک شاز ہی پائی جانے والی آٹو امیون دل کی بیماری ہے جس میں انسانی اندرونی اعضاء میں ایک لیس دار پروٹین کے بھر جانے سے فوری طور پر دل ، گردے یا جگر کا کام رک جاتا ہے ۔ فوری طبی امداد نہ ملنے کی صورت میں کریگ کی موت واقع ہو چکی ہوتی مگر اس کی خوش قسمتی کہ اسکی بیوی لنڈا کی خواہش پر ڈاکٹر بلی کان اور ڈاکٹر بڈ فرائیزر نے ایک ایسی مشین اس کو لگائی جس سے مصنوعی طور پر اس کے جسم میں خون کا بہاو جاری رکھا گیا ۔ انھوں نے لیوز کا دل اتارا اور مشین سے کنکشن لگا کر اس کے جسم میں دوران خون برقرار رکھا اور مریض اسی دن ہوش میں آ کے ڈاکٹرز سے بات چیت کرنے کے قابل بھی ہو گیا ۔
اسکی بیوی لنڈا کا کہنا تھا کہ کریگ ایک خوش رہنے والا زندہ دل اور محنتی انسان ہے اور ہم اسکو کھونا نہیں چاہتے تھے ۔ کریگ نکاسی آب کے پائپوں کو مرمت کرنے کا کام کرتا تھا اپنی جاب سے فارغ ہو کر وہ گیراج میں کسی نہ کسی خراب چیز کی مرمت میں لگا رہتا تھا اور ان دونوں ڈاکٹرز نے بھی یہی کیا کہ اس کے خراب دل کی مرمت کر دی اسکی جگہ ایک مصنوعی مشین لگا کر اس کو جینے کا ایک اور موقع دے دیا ۔
ڈاکٹر کان ایک ماہر سرجن ہونے کے ساتھ ایک سائنسدان بھی ہیں جن کی زندگی کا زیادہ تر حصہ دل کے متبادل یا اسکے علاج کے لئے مشینری بنانے میں گزرا ہے ۔ اس کیس میں استعمال ہونے والی مشین کا نام ‘ دا لیفٹ وینٹریکلیور اسسٹ ڈیوائس ‘ LVADs ہے ۔
ڈاکٹر کان نے ڈاکٹر فرائیزر کے ساتھ مل کر اس LVADs میں نئی ٹیکنالوجی متعارف کروائی جس نے دل کے دایاں اور بایاں وینٹریکلز کی طرز پر کام کر کے دکھایا ۔ اس مشین کو جانوروں پر ریسرچ لیب میں ایک آٹھ ماہ کے ایبی گیل نامی بھورے بچھڑے کو لگائی گئی ۔ ڈاکٹرز نے ایبی گیل کا دل نکال کر دو سینٹری فنگل پمپ اٹیچ کر دئے اسٹیتھیسکوپ لگا کر سننے پر اسکی دل کی دھڑکن سنائی نہیں دیتی تھی اور اسکی نبض بھی موجود نہیں تھی اور ای کے جی پر دل کی لائن بالکل سیدھی نظر آتی تھی لیکن یہ پمپس ایبی گیل کا خون اسکے سارے جسم میں پہنچانے کا کام کرتے تھے ۔ اگرچہ اس کو زندہ تو نہیں کہا جا سکتا تھا لیکن اسکے باوجود ایبی گیل خوش اور توانا چھوٹا سا بچھڑا تھا ۔
اس کے بعد وہ دونوں ڈاکٹرز یہ مشین ستر بچھڑوں کو لگا کر ٹیسٹ کر چکے تھے جن کی ای کے جی میں دل کی لائن بالکل سیدھی آ چکی تھی اور ان میں دل کی دھڑکن یا نبض رک گئی تھی وہ بالکل ٹھیک دکھائی دینے لگے ۔
لیکن کریگ کی صورت میں یہ پہلا انسانی کیس تھا جس میں اس جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا اس میں تقریبا اڑتالیس گھنٹے کا وقت لگا لیکن آپریشن کامیاب رہا اگرچہ مریض کے گردوں اور جگر کی حالت کچھ تسلی بخش نہیں تھی وہ مناسب کام نہیں کر رہے تھے اور ایک ماہ بعد مریض کے گھر والوں نے ڈاکٹرز سے اس مشین کو اتارنے کا کہا ۔ کریگ ایک ماہ سے زیادہ اس مصنوعی دل کے ساتھ زندہ رہا اور پمپس بالکل ٹھیک کام کرتے رہے ان کے کام میں کوئی خرابی نہیں دیکھی گئی لیکن چونکہ ایمیلائیڈوسسز ایک خطرناک بیماری ہے اس سے صرف دل ہی نہیں باقی اعضاء بھی ڈیمیج ہوتے ہیں یہی حال کریگ کے کیس میں بھی ہوا اس کے گردے اور جگر کے فیل ہونے کے بعد اپریل میں اس کی موت واقع ہو گئی ۔
یہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا کہ مریض کی نبض موجود نہیں تھی اور وہ دل کے بنا بھی زندہ تھا ۔ اس سے قبل بھی یہ مشین دل کے کئی مریضوں کو لگائی جاتی تھی جن میں سابقہ صدر ڈک چینی بھی شامل ہیں لیکن دو پمپس کا استعمال کر کے ڈاکٹروں نے کریگ کے دل کے رائٹ اور لیفٹ دونوں وینٹریکلز کی جگہ پر مکمل مصنوعی دل کے طور پر اس مشین کو پہلی دفعہ استعمال کیا ۔ ڈاکٹرز کا خیال ہے کہ مصنوعی دل کے طور پر کام کرنے والی دوسری مشینوں کے مقابلے میں یہ خون کے بہاو کے تسلسل کو برقرار رکھتی ہے اور اس سے مریض کو کم مشکل ہوتی ہے کیونکہ دونوں اطراف کی صرف ایک سائیڈ حرکت کرتی ہے لیکن دنیا کے لئے ابھی بھی یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ زندہ رہنے کے لئے نبض کی رفتار ضروری نہیں ہے ۔
جب انسان نے اڑنے والی مشین بنانا چاہی تو اس نے اپنے ارد گرد موجود ہر اڑنے والی چیز کے پر ہی دیکھے لیکن مکینیکل فیلڈ میں ہر فطری طریقہ ہی آخری طریقہ نہیں ٹھہرا کرتا اور انسان نے آج ایسی اڑنے والی مشینیں بنا لی ہیں جن کے پر پرندوں کی طرح پھڑپھڑاتے نہیں ہیں لیکن وہ اڑ سکتی ہیں بالکل اسی طرح سائنس کی مدد سے دل کے بغیر بھی جسم میں خون کی سپلائی ممکن ہو گئی ہے لیکن ایک مصنوعی دل جو حقیقی دل کی طرز پر کام کرے اور فائنل ڈیزائن کے لئے ابھی بہت سی محنت اور ایف ڈی اے کے اپروول کی ضرورت ہے اگرچہ ابھی بہت کام باقی ہے لیکن جلد ہی میڈیکل تاریخ میں یہ معجزہ بھی رونما ہو جائے گا ۔
بقول شاعر
ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں
عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں