رنگوں کی کٹوریاں روپا کے قریب ہی رکھی ہو ئی تھی۔ سورج کی نرم نرم کرنیں رنگوں کی کٹوریوں کو چوم رہی تھیں۔ اور روپا چٹکیوں میں رنگوں کو بھر کر اپنے آنگن میں بیل بو ٹے بکھیر ے جا رہی تھی۔ منڈیر پہ بیٹھے کو ّے مسلسل کا ئیں کائیں کر رہے تھے۔ روپا ان آوازوں سے بے خبر اپنے آنگن میں رنگوں سے ایک دلچسپ منظر بکھیر نے میں مگن تھی۔ ’’ارے ۔۔روپا سُنتی ہو۔‘‘؟؟؟ روپا کے رنگ بھرے خیالات ماؤسی کی آواز سے ٹوٹ پھوٹ گئے۔ اس نے ما تھے پر آئے بالوں کو پیچھے کیا تو جامنی اور گلابی رنگ اُس کے گالوں کا بوسہ لینے میں کا میاب ہو گئے اور دونوں رنگ مسکراکر منڈیر پہ بیٹھے کوّوں کو تکنے لگے۔ روپا نے ہاتھ روک کر کہا۔’’کیا ہو ا ماوسی‘‘ ۔۔۔؟؟؟ ارے دیکھتی نہیں ۔آج منڈیر پر کوّے کئی دنوں بعد کو ئی سندیس لائے ہیں۔بوڑھی ماوسی نے گوبر زمین پر لیپتے ہو ئے ۔روپا کی طرف مسکراکر کہا۔ ’’لگتا ہے آج دیپک چھٹیاں لے کر آہی رہا ہو گا۔ روپا دیپک کا نام سنتے ہی شر ما سی گئی۔گالوں پر لگا گلابی رنگ مزید گلا بی ہو گیا۔ ’’ارے میں تو کہتی ہو ں تو تیاری کر اکثرجب کو ّے ہماری منڈیر پرکا ئیں کائیں کر تے ہیں رات یاپوپھٹنے سے پہلے ہی دیپک آہی جا تا ہے۔ ’’ہا ں‘‘ ماوسی۔یہ آپ نے سچ کہا۔‘‘روپا نے ایک خالی خانے میں سبز رنگ بھرتے ہو ئے کہا۔ روپا پھر ایک مر تبہ رنگوں کی کٹوریوں کی طرف مڑتی ہے اور خیالوں ہی میں دیپک کو دیکھ کر مسکرا اُٹھتی ہے۔اب صرف اسی کی انگلیوں کا لمس رنگوں کو چھوتا اور دھیرے دھیرے دھرتی کے ایک چھوٹے سے حصّہ پر رنگ بکھیرتا چلا جا رہا تھا۔ روپا کے خیالات کا سلسلہ تب ٹوٹا جب رنگوں کی کٹوریوں سے رنگ ختم ہو گئے۔ دن ڈاکیہ کے لائے ہو ئے اخبارات اور چائے کی پیالی میں گُھل کر ختم ہو گئے۔ روپا بالکنی میں کھڑی تھی اور نظریں جامن کے پیڑ میں الجھ کر رہ گئی تھی۔جامن کے پیڑ سے گرے کچھ رس بھرے جامن زمین پہ بکھیرے پڑے تھے تو کئی اپنے وزن سے پھوٹ چکے تھے۔جس سے کچھ جگہ جامنی رنگ زمین پہ پھیل گیا تھا۔ روپا کی طبیعت کچھ بو جھل بوجھل سی تھی۔ اس لئے اس نے نہا لیا ۔ وہ اپنے گیلے بال لئے بالکنی میں کھڑی کنگھی کر نے لگی کہ اس کی نظر بوڑھے بر گد کے نیچے بیٹھے سوامی پہ جا ٹہری ان کے دائیں ہاتھ میں آج بھی وہی پرانی چلم مو جود تھی۔ روز آنہ کی طرح آج بھی وہ سر شام بر گد کے نیچے بیٹھے تھے اور ایک طویل کش کھینچ کر چلم ختم کی اور آنکھیں موندلیں ۔اور لبوں سے دھیرے دھیرے ایک دھیان کے ساتھ اوم۔۔۔ہری۔۔۔اوم ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہری۔۔۔اوم نکلتا جاتا اورلفظ فضا میں آہستہ آہستہ بکھر تا۔روپا نے ایک عقیدت سے ان کی طرف دیکھا اور پھر بالکنی میں لگی میز پر ہی بیٹھ گئی۔ اس کے گیلے بالوں نے اس کی کمر کو بھگو کررکھ دیا تھا۔ اس نے ماوسی کو آواز دی اور ایک کپ چائے لانے کو کہا۔ ماوسی جو اس کے ہی پڑوس میں رہنے والی تھی۔لیکن دیپک کے شہر جانے کے بعد وہ روپا کے ساتھ ہی رہنے لگی تھی جس سے تنہائی اور بوریت کا احساس روپا کو نہیں ہو پاتا۔ کئی برسوں سے یہاں رہتے ہوئے روپانے ان منظروں کو پل پل بدلتے دیکھا تھا لیکن آج نہ جانے کیوں ان ہی منظروں میں اسے ایک نیا رنگ جنم لیتا ہونظر آرہاتھا۔ اچانک فضا میں گائے ،بھینسوں کی آواز سے روپا کے خیالات کٹی پتنگ کی طرح ٹوٹ کر بہنے لگے تھے۔ مادھو۔ لالہ جی کے جانورں کو باڑھے میں ہانک کر لکڑی کے کواڑ کو کونڈ دیا اور روزآنہ کی طرح ایک چبوترے پہ بیٹھ گیا پھر اپنی کمر میں لگی بانسری نکال کر اس میں پھونکیں مار نے لگا ۔جیسے اس میں کچھ پھنسا ہوا ہو ۔پھر ہونٹوں کو زبان سے تر کیا اور بانسری لبوں سے لگالی ۔بانسری سے ایک میٹھا سا سُر فضا میں بکھر نے لگا ۔ روپا کی نظر یں ارد گرد سے ہوتی ہوئی ولی بابا کے مزار پر جا کر اٹک سی گئی ۔جہاں گاؤں اور شہر کے کچھ لوگ سفیدی کر رہے تھے ۔ابھی وہ کچھ اور سوچتی کہ رتنا کی پائل اور کمر بند کے گھنگھرؤں کی آواز نے روپا کے خیالات کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ۔رتنا بے خیالی میں اپنی کمر پرمٹکی رکھے پانی لینے تالاب کی سمت جارہی تھی ۔روپا کی نظریں بھی رتنا کے ساتھ چلنے لگی ۔رتنا بے خیالی میں مٹکی کے اندر سمائے پانی کو دیکھ رہی تھی ۔اور اس کے گالوں پر ایک شر م کی لالی بار بار اُبھر رہی تھی ۔ایک ایسی لالی جسے لڑکیا ں اپنی سہلیوں کے کانوں میں کچھ کہتی ہیں ۔اور چہرے پر ایک سرخ رنگ گذر جاتا ہے ۔روپا من ہی من میں مسکرائی جیسے اسے کچھ یاد آگیا ہو کیوں کے وہ جانتی تھی کہ رتنا کہ وِواہ ہونے میں اب کچھ ہی دن باقی ہیں۔ رتنا نے پانی کی مٹکی کو اپنی کمر پر رکھا اور ایک گیت اس کے لبوں سے پھسلتا ہوا فضا میں رس گھولنے لگا ۔ بالم کب گھر آؤ گے بیتی جائے رے جالم عمریا کا گا منڈیر پہ آوے جس دن اور تم ناہی آوے رے کیسا جلم ڈھائے رے بالم کب گھر آؤ گے رتنا کی میٹھی آواز اُس کے لبوں سے نکلتی اور اس کے پیروں کی پائل اور کمر بند کے گھنگھروں کی آوازیں بھی گیت میں شامل ہوئی جارہی تھیں ۔دور مادھوکی بانسری کا سر بھی اس میں شامل ہو کر جدائی کے کرب کو بیان کر نے میں مدد کر نے لگا تھا ۔ شام چپکے سے رخصت ہوئی جارہی تھی۔ اور رات دھیرے دھیرے دبے پاؤں داخل ہورہی تھی ۔کہ رات کے سیا ہ اندھیرے میں دل جلے اٹھے ۔ دل کیا جلے ۔۔۔ چراغ جلے اور جب چراغ جلے تو الاو بھی جلنے لگے اورالاو کے ساتھ ہی کہانیا ں ہونٹوں سے جنم لینے لگیں ۔۔۔۔۔الاو بجھے چراغ بجھے ۔۔۔اور چوپال میں سنّاٹا طاری ہو گیا ۔ اندھیرا گہرا اور پھر گھنا در گھنا ہو تا چلا گیا ۔ رات بھیگ چلی تھی ۔ روپا کی آنکھوں سے نہ جانے کیوں آج نیند روٹھی ہوئی تھی۔ روپا بار بار نیند کو پکڑنے کی کوشش کرتی لیکن نیند تھی کہ کسی شرارتی بچے کی طرح اس کے ہاتھوں سے پھِسل پھِسل کر چوپال میں جا بیٹھتی ۔آخر تھک ہار کر روپا پھر بالکنی میں آکھڑی ہوئی ۔ چاند اپنی چاندنی کے جلوے بکھیر رہا تھاچاند کی روشنی میں جامن کے پیڑ میں لٹکی ہوئی جامنیں چمک چمک جائیں اچانک روپا کی نگاہ نیچے اپنے آنگن میں جا ٹھہری دیکھا ا یک سنہرے ناگ ناگن ایک دوسرے میں لپٹے ہوئے تھے وہ دونوں ایک ایسی رسّی میں تبدیل ہوگئے کہ روپا کے ہاتھ بے اختیار اپنے بالوں کی چوٹی پہ جاٹھہرے اور وہ خیالات کی رو میں بہہ گئی اکثر دیپک روپا کی چوٹیوں کو کھینچ کر کہتا: ’’روپا تمہاری یہ چوٹیاں دیکھکر مجھے ناگ ناگن ایک دوسرے میں لپٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور روپا جھٹ اک ادا کے ساتھ اپنے بالوں کو کھینچ لیتی۔ وہ ناگ ناگن روپا کی بنائی ہوئی رنگولی پر رینگ رہے تھے جس سے وہ اَن گِنت رنگوں میں رنگ گئے تھے جبکہ تلسی کے پودوں کی پر چھائیاں باربار ان پر پڑ رہی تھیں۔ آوارہ ہوا کا ایک جھونکا روپا کے جسم کو چھوتا ہوا گذر گیا ۔ آج تلسی کے پودے کی بھینی بھینی مہک اس کے انگ انگ کو چوم رہی تھی۔ یا تریوں کی آواز سے روپا کے خیالات پھر ٹوٹے۔دیکھا گاوں کے راستے سے یاتری اپنے اپنے ہاتھوں میں قندیل لئے دیوی کے درشن کو جارہے تھے۔اور اس گھنے اندھیرے میں جگنووں کا قافلہ یاتریوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔ یاتریوں کے لبوں سے بول ایک ساتھ پھوٹ رہے تھے۔ ’’رام سے بڑا رام کا نام انت میںنکلاا ی پرینام رام سے بڑا رام کانام ‘‘ روپا پھر اپنے کمرے میں آئی اور روٹھی ہوئی نیند کو منانے لگی۔نیند پھر شرارت کرتی چوپال میں جا بیٹھی۔ روپا اب اپنے جسم کے سرائے میں تبدیلی سی محسوس کرنے لگی تھی۔اور یہ تبدیلی اس کی رگوں میں بھی آہستہ سے شامل ہوگئی وہ بے چین بے چین سی ہورہی اسے خود نہیں معلوم تھا کہ کیا ہورہا ہے۔ جسم کی رگیں ابلنے لگیں تھیں۔ چھاتیوں میں کساو سا محسوس ہو نے لگا تھا۔ اس کے کانوں میں منڈیر پہ بیٹھے کووں کی کائیں کائیں کا شور مسلسل سنائی دینے لگا وہ مسکرا اٹھی۔اور پھر آئینے کے سامنے کھڑی ہوکر اپنے بدن کی بے قرار ی کو تلاش کرنے لگی اور پھرلا شعوری طور پر سیند ور کی ڈبیہ سے چٹکی بھر سیند ور کو اپنی مانگ میں بھر لیا۔ وہ پھر بالکنی آکھڑی ہوئی چاندنی رات میں ولی بابا کامزار خوب چمک رہاتھا وہ پھر بستر تک آکرسونے کی کوشش کرنے لگی۔ بار بار کروٹیں بدلتی لیکن نیند ہے کہ چوپال میں کھڑے مستی جھومتے پیڑوں سے آنکھ مچولی کھیل رہی تھیں۔ بسترپر سینکڑوں سلوٹیں ابھر آئی تھیں۔بدن ایٹھنے لگا۔بے قراری کی کیفیت بڑھتی ہی چلی جارہی تھی ۔آخروہ تھک سی گئی اور کئی گلاس ٹھنڈا ٹھنڈا پانی اپنی حلق سے نیچے اتارلیا ۔لیکن اسے محسوس ہوا جسم میں آگ اور بڑھ گئی ہو ۔ولی بابا کے مزارسے آوازوں کار یلا روپا کی سماعت سے ٹکرارہا تھا ۔وہ پھر بو جھل بوجھل قدموں سے بالکنی میں آئی اُسے محسوس ہوا جیسے چاندنی اُس کے جسم میں جذب ہو رہی ہو ۔ اُس کی نگا ہ میز پہ رکھے رنگوں کی پیالیوں پہ جاپڑی رنگ اسے دیکھ کر مسکرا رہے تھے ۔روپا آہستہ سے رنگوں کی پیالیوں کی طرف بڑھی ایزلeasel)﴾ پہ لگا۔ بے داغ سا کا غذ روپا کی طرح بے قرار ہو ا تھا ۔اچانک اُس کی انگلیاں حرکت میں آئیں بے داغ سے کنوارے کاغذ پہ آڑھی ترچھی لکیریں ابھرنے لگیں۔روپا بس ایک بے قراری کی کیفیت میں برش کوآڑھا تر چھا کھینچے چلی جارہی تھی بار بار اس کے برش رنگوں میں ڈوبتے اور رنگ کا غذ پہ منتقل ہوتے چلے جارہے تھے۔اب روپا آخری ٹچ (Final Touch)تصویر کی آنکھ میں دے رہی تھی وہ تصویر کی آنکھ میں کھتئی رنگ کو اور گہرا کرنے لگی اور پھر دور ہوگئی اور بھر پور نظروں سے کاغذ پہ دیکھا تو بے داغ سے کاغذپر ایک گھوڑا نمودار ہو چکا تھا۔ وہ تھک سی گئی اور بستر پہ لیٹ گئی۔ بابا ولی کے مزار سے مسلسل طبلے کی تھاپ اور آوازوں کا ریلا کمرے میں داخل ہورہا تھا۔
’’چھاپ تلک سب چھین لی رے موسے نیناں ملائی کے
نیناں ملائی کے ہاں سپنوں میں آئی کے
بلی بلی جاوں میں تورے رنگ رسیا
دھانی چنر رنگ لی توہسے نیناں ملائی کے‘‘
اس نے بے قراری کی کیفیت سے تصویر کو دیکھا تو روپا کی نظریں گھوڑے کی کھتئی آنکھ میں اٹک کر رہ گئی طبلے کی تھاپ مسلسل جاری تھی۔ دَھاگے – ناتی – -ناک- دِھِن اُسے محسوس ہو رہا تھا جیسے گھوڑے کی کھتئی آنکھ میں دیپک کی آنکھ اُگ رہی ہو۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ گھوڑا دوڑنے لگا ۔ تیز ۔۔۔۔اور تیز ۔۔۔۔اور۔۔۔تیز ۔۔۔ طبلے کی تھاپ بھی مسلسل جاری تھی۔ دَھَا۔۔گے۔۔نا۔۔تی۔۔ نک۔۔دِھن دَھَا۔۔گے۔۔نا۔۔تی۔۔ نک۔۔دِھن دَھَا۔۔گے۔۔نا۔۔تی۔۔ نک۔۔دِھن اچانک جسم کی تمام رگوں نے اپنا منہ کھول دیا ۔اور جسم کے باندھ سے ایک شراراہ سا پھوٹ پڑا۔ پیالۂ ناف کے ذرا نیچے سفید سفید چاندی بہنے لگی ۔ باہر شبنم نے تمام ہی منظروں کو بھگو کررکھ دیاتھا۔اور نیند تب آنکھوں کے دریچوں پہ تھر تھرکانپتی ہوئی آئی جب وہ پو ری طرح بھیگ چکی تھی۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...