تاش کے پتے بازی گروں کو بانٹ دئیے گئے ہیں۔ہر بازی گر تاش کے پتوں کو ان کی حیثیت ، خاندان اور مرتبے کے مطابق ترتیب دے کر اپنی باری کا منتظر ہے کہ کب سامنے والا کوئی پتا پھینک کر چال چلے اور وہ اس سے بڑھ کر پتا پھینکے اور اس کی پیش قدمی کو روکے ۔تجربہ کار بازی گر اپنے پتے ہاتھ میں رکھ کر دل ہی دل میں سامنے والے کے پتوں سے متعلق اندازہ لگا رہا ہے کہ مخالف کتنا طاقتور ہے۔دل میں پتوں کی گنتی جاری ہے۔نظریں مخالفین کے چہروں پر جمی ہیں اور ہر بدلتے تاثر کا بھرپور جائزہ لیا جارہا ہے۔بار بار نظر ہاتھوں میں پکڑے پتوں پر بھی جاتی ہے ۔یہ ہے وہ کیفیت جو تاش کھیلنے والوں کی کھیل کے دوران ہوتی ہے
ایسا ہی کچھ سیاست کی بازی میں ہورہا ہے ۔من پسند بازی گر کے ہاتھوں میں جیت کے ممکنہ پتے دے دئیے گئے ہیں ۔مگر کیفیت کچھ یوں ہے کہ لاڈلے نے ہاتھ میں جو پتے پکڑ رکھے ہیں اٗن مین بادشاہ بھی شامل ہے مگر پھر بھی ہاتھ لرز رہے ہیں۔طے ہوگیا کہ محض بادشاہ کا ساتھ ہونا کافی نہیں ہے کچھ اور بھی ہے جس کو ہونا چاہیے جس کی وجہ سے جیت ممکن ہے۔اور وہ ہے عوامی چاہت کا اکا۔یہ وہ ترپ کا پتا ہے جس کو کسی بھی وقت چل کر بازی جیتی جاسکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس ایک پتے کے نا ہونے کے سبب من پسند پتوں کے باوجود بازی جیتنا ممکن نہیں لگ رہا۔یقینی ہار کا خیال ہی جان لیوا ہوتا ہے اور اسی وجہ سے ہاتھ لرز رہے ہیں
سو ہار کے ڈر اور خوف سے لاڈلے نے جو بھی چال چلی بری چلی ۔لاڈلے کا ہر پتا پٹنے لگا ہے ۔مخالف بازی گر تجربہ کار بھی ہیں اور شاطر بھی۔کھیل کو سمجھے بیٹھے ہیں لرزتے ہاتھوں کو دیکھ کر اندازہ لگائے بیٹھے ہیں کہ جیت یقینی ہے ۔لاڈلا ہاتھ میں موجود ہر اہم پتے کو کھیلتا جارہا ہے ۔مگر بات نہیں بن رہی ۔ ہر موجودہ وزیر کے نہلے پر سابق وزیروں کے دہلے بھاری پڑ رہے ہیں اور کارکردگی کے نام پر ہر جھوٹ پکڑا جارہا ہے۔لاڈلے کے گن گاتے ہوئے ترجمان جوکروں پر ایک کوئین کے ٹوئیٹس بھاری پڑ رہے ہیں ۔باوجود کوشش کے بات بن نہیں رہی کسی طرح سے بھی بازی ہاتھ نہیں آ رہی ۔ای وی ایم سمیت دیگر پاس ہونے والے بلز کی چال کامیاب رہی اور نقار خانے میں اس قدر شور مچا کہ الامان۔مگر جلد ہی 20 نومبر آگئی اور شور خاموشی میں بدل گیا۔
پھر وہی ہوا جس کا اندازہ کیا جارہا تھا کہ 20 نومبر کے بعد اپوزیشن فرنٹ فٹ پر کھیلے گی اور اپوزیشن کھیل رہی ہے اور پوری دلجمعی سے کھیل رہی ہے۔معروف وکیل علی احمد کرد نے اپنی تقریر میں گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا۔اس تقریر نے گویا بگل کا کام کیا اور اس کے بعد اپوزیشن کے پے در پے حملے شروع ہوگئے۔آڈیو پر آڈیو ریلیز ہونا شروع ہوگئی۔فریقین کے درمیان اب یہ سلسلہ رکنے والا نہیں ہے۔بظاہر یہ لگتا ہے کہ بہت کچھ سننے کو ملے گا اور اگر بات نا بنی تو شائد بہت کچھ دیکھنے کو بھی ملے۔مگر اندازہ یہی ہے کہ دیکھنے کی نوبت نہیں آئے گی کیونکہ ایٹم بم کو استعمال نہیں کیا جاتا بس مخالفوں پر خوف قائم کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے ۔
یا پھر اس لیے بھی ایٹم بم بنایا جاتا ہے کہ اپنی حفاظت کویقینی بنایا جاسکے ۔لہذا ایٹم بم کی موجودگی کے باوجود اس کا استعمال ممکن نہیں ہے اس لیئے مکمل تباہی نہیں ہوگی۔اور جتنی تباہی ہونی تھی وہ ہوچکی ہے ۔اداروں سمیت انسانی زندگی سے وابستہ ہر شعبہ زوال پذیر ہے۔صرف ادارے ہی نہیں بلکہ 90 دنوں میں تبدیلی، 100 دنوں میں سرائیکی صوبہ،50 لاکھ گھر ، ایک کروڑ نوکریوں کے وعدے جھوٹ ثابت ہونے کے بعد سیاست بھی زوال کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔مقدس پارلیمان کے آزاد و خودمختار نمائندے قانون سازی کی خاطر آتے نہیں لائے جاتے ہیں بلکہ بڑے اہتمام سے لائے جاتے ہیں۔
جبکہ اپوزیشن نا صرف اپنے اراکین پورے نہیں کرپاتی بلکہ بطور احتجاج ایوان سے واک آوٹ کرجاتی ہے ۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر وہ بل جس پر اپوزیشن آج سڑکوں پر احتجاج کررہی ہے ایوان میں آسانی سے پاس ہوگیا۔اپوزیشن ایوان میں بل نہیں روک سکتی تھی مگر احتجاج تو کرسکتی تھی۔بل پاس ہونے کے بعد یہ بھی کہا گیا کہ اسمبلی میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مزید دو سال امتحان باقی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ عوام تو شائد جیسے تیسے یہ وقت گذار جائے گی مگر برسراقتدار لاڈلے کا کیا ہوگا کہ اس سے یہ وقت نہیں گذر پا رہا۔
اور وقت گذرے بھی تو کیسے کہ بادشاہ چاہے اس کی مدت ملازمت تھوڑی رہ گئی ہو بھلے ہاتھ میں ہو مگر جب تک عوامی حمایت کا اکا ہاتھ میں نہیں ہے یہ بازی بھی اپنی نہیں ہے۔اب ہاتھ کانپیں یا ٹانگیں نتیجہ نوشتہ دیوار ہے ۔اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ ایک بار غور کریں کہ جس طرح گزشتہ دور حکومت کے آخر میں ہر چیز بگاڑ کی طرف جارہی تھی بالکل ویسا ہی موجودہ حکومت کے ساتھ ہورہا ہے ۔بجلی ، پٹرول اور گیس کے بلوں سے تنگ دو وقت کی روٹی کو ترستی عوام جب مہنگائی نہیں ہے اور معیشت مضبوط ہورہی ہے جیسی بے معنی باتیں سنتی ہے تو اس کے ردعمل میں جوکچھ کہتی ہے اس کو لکھنے کی تاب نہیں ہے۔رہی بات ای وی ایم کی تو آصف علی زرداری کا یہ بیان قابل غور ہے کہ جس بیج کی آبیاری میں حکومت اتنا زور لگا رہی ہے اس کا پھل کوئی اورکھائے گا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...