پروفیسر غضنفر ہمارے عہد کے قدآور ادیب ہیں۔ وہ ناول نگار، افسانہ نگار، خاکہ نگار، تنقید نگار، ڈرامہ نگار اور شاعر بھی ہیں۔ شاعری میں انھوں نے مثنوی بھی لکھی ہے جو دور حاضر میں بہت کم لکھی جا رہی ہے۔ سنہ 2021 میں ان کی خود نوشت سوانحی ‘‘دیکھ لی دنیا ہم نے‘‘ منظر عام پر آئی ہے۔ جسے ہم خود نوشت سوانحی ناول بھی کہہ سکتے ہیں۔
کتاب پڑھ کر بخوبی یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ غضنفر صاحب نے حقیقت نگاری سے کام لیا ہے۔ لیکن حقیقت کے ساتھ ساتھ افسانویت کا دامن بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ بیماری اور بدحواسی کا قصہ افسانیت سے بھرپور ہے۔ کبھی حال تو کبھی فلیش بیک کے واقعات بیان ہوئے ہیں۔ کتاب کی ابتدا ’’آغاز قصہ‘‘ سے ہوتی ہے۔ تقریباً ڈیڑھ صفحے کی اس تحریر میں غضنفر صاحب نے کسی راز سے پردہ نہیں اٹھایا ہے نہ ہی کوئی وضاحت پیش کی ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ صرف دو لفظ کہہ کر سب کچھ قاری پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
اس کے بعد سید محمد اشرف صاحب کا مضمون ’’غضنفر کی خود نوشت: چند تاثرات‘‘ مختصر اور اہم ہے۔ محض چار صفحات پر مشتمل اس مضمون میں غضنفر صاحب کے فن، شخصیت اور زیرِ نظر کتاب کے متعلق اشاروں کنایوں میں بات کی گئی ہے۔ سید محمد اشرف کی یہ تحریر کوزے کی طرح ہے جو اپنے اندر دریا سمائے ہوئے ہے۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’آپ اس ناول نما خودنوشت کو پڑھتے جائیے۔ طرح طرح کے طرح دار، صاحب کردار، خوش گفتار، باوقار افراد سے آپ کی ملاقات ہوتی جائے گی۔ سب کا انداز الگ، تپاک الگ، زندگی جینے کا قریب مختلف اور غضنفرؔ سے تعلق کی نہج بھی جدا جدا۔ غضنفرؔ نے اس خودنوشت میں بہت سارے ہیرو اس طرح دکھا دیے ہیں کہ سب کے سب غضنفر کی آنکھ سے دیکھے ہوئے اور ان کے قلم سے تراشے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کسی کا کردار و عمل، گفتگو اور رویہ غضنفر کے ساتھ یکساں نہیں ملے گا۔ ان سب میں قدرِ مشترک غضنفرؔ کی شخصیت ہے۔ ایک اچھی خودنوشت کا غالباً یہ بھی کمال ہوتا ہے کہ وہ سرتا پا صرف مصنف کے ذکر سے گراں بار نہیں ہوتی بلکہ زندگی کی راہ میں آنے والے تمام انسان اس میں اپنا حصہ پاتے ہیں۔ لیکن جب رُک کر سوچتے ہیں تو ایسے ہر شخص کا تصور غضنفرؔ کی زندگی کے کسی گوشے کے حوالے سے ہی ملتا ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مصنف نے اپنے ذکر کو بہ اندازِ زیرلبی بیان کر کے دوسروں کی عادت، شفقت، محبت، صلاحیت، انفرادیت کو اس طرح بیان کر دیا ہے کہ اس خودنوشت میں ان کا اور دوسرں کاحصہ ایک دوسرے کو مکمل کرتا ہوا نظر آتا ہے۔‘‘
اس خود نوشت میں غضنفر صاحب نے طرح طرح کے قصے، کہانیاں بیان کیے ہیں اور مختلف قسم کے کرداروں پر روشنی ڈالی ہے۔ اپنے ابّا جن کا نام مجیب تھا اور ابّا کے دوست چچا احمداللہ کے کرداروں کو بڑے ہی سلیقے سے پیش کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ممکن ہے کوئی سمجھے کہ وہ اپنے والد کی قصیدہ خوانی کر رہے ہیں، اور وہ یقین دلاتے ہیں کہ ان کا لکھا گیا ایک ایک لفظ سچ ہے، کہیں کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مبالغے کا گمان ہو جائے کیونکہ والد صاحب کی شخصیت ہی ایسی ہے۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’ابّا جیسے بزرگ اس محلے میں اور بھی تھے اور ان میں سے بعض تو ابّا سے زیادہ معمّر، باریش، زیادہ وضع دار، زیادہ بارعب اور زیادہ پرکشش تھے، مگر انھیں اتنے سارے آداب و سلام نہیں ملتے تھے۔ کبھی کبھار کسی جاننے والے یا رشتے دار نے سلام کر دیا تو کر دیا، ورنہ کوئی ان کی طرف بلاضرورت دیکھتا بھی نہیں تھا۔ اس کے برعکس ابّا کا تو جلوہ ہی عجیب تھا۔ شاید ہی کوئی ایسی نگاہ ہوتی جو ابّا کی طرف اٹھے، رُکے اور جھکے بغیر آگے بڑھ جاتی ہو۔ بچہ، بوڑھا، جوان، چھوٹا، بڑا جو بھی اس راہ سے گزرتا، انھیں سلام و آداب ضرور کرتا۔اکثر گزرنے والے ان کی خیریت بھی دریافت کرتے۔ کچھ تو کچھ دیر کے لیے ان کے پاس رُک بھی جاتے تھے۔ یہ تو راہ چلتوں کا حال تھا۔ معمولات والوں کا معاملہ تو اور بھی قابلِ رشک تھا۔ ہر وقت ابّا کے پاس ملنے والوں کا جم گھٹا لگا رہتا۔ کبھی کچھ بچے ان کو گھیرے ہوئے ہیں تو کبھی ان کے پاس کچھ بوڑھے براجمان ہیں، کبھی کچھ نو جوان بیٹھے ہوئے ہیں تو کبھی کچھ ہم عمر محوِ گفتگو ہیں اور کبھی کبھی تو برقع پوش عورتیں بیٹھی ان کی باتیں سن رہی ہیں۔‘‘
غضنفر صاحب نے اپنے لڑکپن کے واقعات، اسکول اور کالج کی یادیں، رقیبوں سے رسا کشی، دوستوں اور ہم عصروں کا تذکرہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور یونیورسٹی کے اساتذہ کی یادیں، ملازمتی زندگی کا احوال، زندگی کے مختلف پہلوؤں اور چند مخصوص لمحات کا ذکر بڑے اچھے انداز سے کیا ہے۔ پروفیسر طارق چھتاری کا ذکر ایک مخلص، مددگار اور ایک فکر کرنے والے دوست و کلیگ کے روپ میں ہوا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہء اردو کے اساتذہ، قاضی عبد السّتار، پروفیسر شہریار، ڈاکٹر نسیم قریشی اور پروفیسر نادر علی خاں اور دیگر قریبی احباب میں طارق چھتاری، شافع قدوائی، سعید الدین مینائی، سید محمد امین، رشید قریشی، محمد زاہد، جاوید حبیب، کرنل یونس اور راہی معصوم رضا کا ذکر بھی بڑے ہی والہانہ انداز سے کیا گیا ہے۔ غضنفر صاحب کا لفظ لفظ صداقت کی گواہی دیتا نظر آتا ہے۔
غضنفر صاحب جس مخصوص اسلوب کے لیے پہچانے جاتے ہیں اس کی رنگا رنگی اور دلکشی پوری کتاب میں موجود ہے۔ یہ ایسی خود نوشت ہے جس میں فیکٹس اور فکشن کا خوبصورت امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک خاص بات اس آپ بیتی کی یہ بھی ہے کہ غضنفر صاحب نے جس شہر کا بھی بیان کیا ہے اس شہر کا امتیاز ابھر آیا ہے۔
اس کتاب کا انتساب پروفیسر غضنفر نے اپنی بیٹی، بیٹے، بہو اور داماد کے نام کیا ہے۔ 336 صفحات پر مشتمل یہ کتاب عرشیہ پبلی کیشنز دہلی نے شائع کی ہے۔ سرورق، جلد بندی، کاغذ اور طباعت بہترین ہیں۔
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...