(Last Updated On: )
ہندوستان کی آزادی کی ۷۵ویں سالگرہ کے موقعے پر حکومت ہند کے ذریعہ ’آزادی کا امرت مہوتسو ‘ منایا جا رہا ہے۔اس مہوتسو کا آغاز ۱۲؍ مارچ ۲۰۲۱ء سے ہو چکا ہے۔ ۷۵ ؍ ہفتوں تک چلنے والا یہ مہوتسو ۱۵؍ گست ۲۰۲۲ء کو ایک بہت بڑے جشن کی شکل لے گا۔ایسے موقعے پر ان ہستیوں کو یاد کرنا ضروری ہو جاتا ہے جن کے خون کے قطروں سے لفظ آزادی لکھا گیا۔ہندوستان کی جنگ آزادی میں مردوں کے شانہ بہ شانہ خواتین نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور کار ہای نمایاں انجام دئے۔انھیں خواتین میں ایک کم معروف نام فاطمہ بیگم شیخ کا ہے جو ہندوستان کی پہلی گرلز اسکول کی ٹیچر ہوئیں ۔ان کے بھائی عثمان شیخ نے انھیں ٹیچرز ٹریننگ دلوائی اور درس و تدریس کے میدان میں اتار دیا۔یہ واقعہ ۱۸۴۸ء کا ہے جب خواتین کی تعلیم کے بارے میں دور دور تک سوچا نہیں جاتا تھا۔ہم ایسے روشن خیال بھائی بہن کو اس موقع پرسلام کرتے ہیں ۔اس کا سبب یہہے کہ آزادی کے امرت مہوتسو کے ذریعے جن لوگوں نے اپنی قیمتی جان کی بازی لگا کر انگریزوں کے مظالم کا سامنا کیا اور وطن عزیز کے عزت و ناموس کی حفاظت کی خاطر اپنا خون بہا دیا ،انھیں خراج پیش کیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی ان تمام لوگوں کے ہمت و حوصلے کی ستائش کی جا رہی ہے جنھوں نے آزاد ہندوستان کی ترقی میں اپنا کردار نبھایا ۔جن کی بدولت ہندوستان کی سیاسی ، ثقافتی، سماجی اور اقتصادی شناخت دنیا میں قائم ہوئی۔
ہم نے آزاد ہندوستان میںآنکھ کھولی اور اپنے بزرگوں سے آزادی کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستان سنی یا کتابوں میں اس کے بارے میں پڑھا۔آج ہمیں ایک موقعہ ملا ہے کہ ہم اپنی آج کی نسل کو آزادی کے امرت مہوتسو کے ذریعہ بزرگوں کی قربانیوں کے بارے میں بتائیں۔ان جانبازوں کے لئے یہ ہمارا ادنیٰ سا خراج ہوگا ۔اس بہانے ہم اپنے اجداد کی زندگی کے دلدوز کوائف سے زمانے کو رو شناس کراسکتے ہیں۔ فاطمہ بیگم شیخ کا ذکر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو زمانے کی بے اعتنائی کا شکار ہوئیں۔ان کا اختصاص یہ ہے کہ انھوں نے موج کے خلاف تیرتے ہوئے انیسویں صدی کے وسط میں بچیوں کی تعلیم کے لئے ایک مہم چھیڑ دی ۔یہ وہ زمانہ ہے جب ہندوستان میں بچیوں کی تعلیم کی طرف کسی نے توجہ دینا بالکل غیر ضروری سمجھا۔حالانکہ اس وقت کچھ مسلم بچیاںمدرسوں میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں مگر برادران وطن کی بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم نہیں تھے۔یہاں پونہ مہاراشٹرا کے مہاتما جیوتی با پھولے اور ساوتری بائی پھولے کا ذکر کرنا ضروری ہے جنھوں نے اس وقت خواتین کی فلاح و بہبود کا بیڑا اٹھایا۔ جس کی پاداش میں انھیں ان کے خاندان والوں نے گھر سے نکال دیا۔اس وقت فاطمہ کے بھائی عثمان شیخ نے دونوں کو اپنے گھر میں جگہ دی اور وہیں یعنی بھڑے واڑا پونہ میں ۱؍ جنوری ۱۸۴۸ء کو پہلا گرلز اسکول کھول دیا گیا۔فاطمہ دراصل ٹریننگ کالج میں ساوتری بائی کے ساتھ پڑھتی تھیں۔ان دنوں جب یہ دونوں بچیوں کی تعلیم کے انتشار کی بات کر رہی تھیں اور محلوں میں جا جا کر لوگوں کو سمجھا رہی تھیں تو ان پر غلاظت پھینکی جاتی تھی۔دلیپ منڈل کے مطابق فاطمہ کے لئے زیادہ مشکلیں تھیں کیونکہ وہ ہندو مسلمان دونوں کے غیض و غضب کا نشانہ بن رہی تھیں۔ایسے میں ان کی ہمت کی داد دینا لازمی ہے۔۱۸۵۰ء میں پھولے نے ایک ٹرسٹ قائم کیا ۔اس کے تحت کئی اسکول کھولے ۔ اپنی تنظیم کے ذریعے یہ دونوں ستی، ذات پات، بچہ شادی پر بھی گفتگو کرتی تھیں۔انھوں نے نچلے طبقے کے ساتھ ہی اونچی ذات کی خواتین کے لئے بھی اسکول کھولے۔یہ لڑکیوں کو وظیفے دے کر تعلیم کی پیش کش کرتی تھیں۔ان حالات میں یہ ایک انقلابی قدم تھا۔ان کا قائم کردہ اسکول آج بھی موجود ہے مگر اس کی حالت بہت خستہ ہے ۔در اصل اس اسکول کو ایک میموریل بنا دینا چاہئے ۔مہاراشٹرا میں ساوتری بائی پھولے کی جینتی بالیکا دن کے روپ میں منائی جانے لگی مگر فاطمہ شیخ کہیں پیچھے چھوٹ گئیں۔حالیہ دنوں میں فاطمہ کی جانب لوگوں کی توجہ مبذول ہوئی ہے ۔ڈاکٹر سریش خیر نار نے اپنے ۱۳؍ اکتوبر ۲۰۲۰ء کے مضمون میں لکھا ہے کہ آج ہی کے دن آج سے ۱۷۵؍ سال قبل فاطمہ شیخ کا پونہ میں انتقال ہوا۔ایودھیا کے اشفاق اللہ خاں میموریل شہید شودھ سنستھان کے ڈائیریکٹر جناب سوریہ کانت پانڈے جی کی نگرانی میں آندھرا پردیش کے سید نصیر احمد نے ’ پرتھم مسلم مہیلا شکشکا فاطمہ شیخ ‘ عنوان سے تحقیقی مقالے کا کتابی شکل میں اجرا کیا۔اس میں فاطمہ کی زندگی کے کوائف شامل ہیں۔اس کتاب کا ملک کے کئی شہید استھلوں سے ۳۰؍ جولائی ۲۰۲۱ء کو ایک ساتھ اجرا عمل میں آیا۔یہ اس سمت یک قابل تحسین قدم اور آزادی کے امرت مہوتسو کی عمدہ شمولیت اور یادگار پیش کش ہے۔معاشرے کی بہبود کی خاطر جن لوگوں نے اتنی جانفشانی کی انھیں یاد کرنا اور ان کے نقش قدم پر چلنا ہی انھیں صحیح خراج ہو گا۔