قیام کی وجوہات
1857ء کی جنگ آزادیکی ناکامی کے بعد مسلمانان ہند کے سیاسی اور معاشی زوال کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق ، ثقافت ، مذہب اور معاشرت پر بھی دوررس نتائج کے حامل برے اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ مسلمانوں کا ملی تشخص خطرے میں پڑ گیا تھا اگر ایک طرف سقوط دہلی کے بعد مدرسہ رحیمیہ کے دروازے بند کر دئیے گئے تھے تو دوسری طرف ان کو ان کے مذہب سے بیزار کرنے کے لیے مذموم کوششوں کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا تھا۔ ان حالات میں ضروری تھا کہ مسلمانوں کو اسلامی احکامات کی اصل روح سے باخبررکھا جائے اور ان میں جذبۃ جہاد اور جذبۃ شہادت کی تجدید کا عمل بلا تاخیر شروع کیا جائے تاکہ سپین اور خلافت عثمانیہ کے مسلمانوں کی طرح ان کا شیرازہ ملت کہیں نہ جائے
قیام
مندرجہ بالا مقاصد کے حصول کے لیے حضرت شاہ ولی اللہ کی تعلیمات اور تحریک سے متاثر کچھ علماء نے برطانوی ہند میں دینی مراکز قائم کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس کی ۔ اسی ضرورت کے پیش نظر یو۔ پی کے ضلع سہارن پور کے ایک قصبے نانوتہ کے حضرت مولانا قاسم نانوتوی نے 30 مئی 1866ء بمطابق 15 محرم الحرام 1283ء کو دیوبند کی ایک چھوٹی سی مسجد (مسجد چھتہ) میں مدرسۃ دیوبند کی بنیاد رکھی۔ واضح رہے کہ اس نیک کام میں انہیں مولانا محمود الحسن کے والد مولوی ذوالفقار علی صاحب اور مولانا شبیر احمد عثمانی کے والد مولوی فضل الرحمن صاحب کا عملی تعاون حاصل رہا۔ یہاں یہ وضاحت بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ اس مدرسے کا آغاز مسجد چھتہ دیوبند کے انار کے درخت کے نیچے ایک معلم اور ایک طالب علم کے درمیان نشست سے ہوا۔ معلم مولوی محمود اور طالب علم محمود الحسن تھے۔ حسن اتفاق دیکھیے کہ استاد محمود ، شاگرد بھی محمود اور عنوان بھی محمود ۔ کسے معلوم تھا کہ یہ چھوٹا مدرسہ ایک دن دنیائے اسلام کا عظیم درسگاہ بنے گا۔ اسے ایک عظیم دارالعلوم بنانے کا سہرا مولانا قاسم ناناتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی کو جاتا ہے۔ جبکہ اسے معراج کمال پر پہنچانے والے دو مقدس ہستیوں میں مولانا محمود الحسن(شیخ الہند) اور مولانا شبیر احمد عثمانی (شیخ الاسلام) کے اسمائے مبارک شامل ہیں۔
دارالعلوم دیوبند نے اب تک سینکڑوں مفسر ، محدث ، مجاہدین ادیب اور تلامذہ پیدا کیے ہیں جن میں مولانا محمود الحسن اور شبیر احمد عثمانی کے علاوہ مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا عبید اللہ سندھی ، مولانا حسین احمد مدنی اور سید انوار شاہ کاشمیری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ انہی ہستیوں نے جنوبی ایشیاء اور جنوبی ایشیاء سے باہر اسلام کی شمع کو روشن رکھنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ شمع سے شمع روشن کرنے کی یہ روایت اور سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
خدمات
ذیل میں دیوبند کی خدمات اور کردار کا تفصیلی جائزہ پیش کیا جارہے ان میں ان باتوں کا احاطہ کیا جائے گا جن کی بدولت دیوبند کا مکتبہ فکر آج بھی جنوبی ایشاء کا سب سے زیادہ لوگوں پراثر انداز ہونے والا مکتبہ فکر ہے۔ اور اس نے برصغیر کے مسلمانوں کی تربیت میں کیا اہم کردارادا کیا ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ کی تحریک کا تسلسل
علمائے دیوبند عملاً مسلک امام ابوحنیفہ کے پیروکار ہیں۔ جنوبی ایشیاء میں انگریز کے دور استبداد میں حنفیہ کی مسند تدریس کو منور رکھنا علمائے دیوبند کا وہ کارنامہ ہے جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہندوستان میں انگریزوں کی آمد سے پہلے مغل سلاطین ، حضرت شاہ ولی اللہ اور حضرت مجدد الف ثانی حنفیہ مسلک کے مقلد رہے ہیں ۔ ایک تحقیق کے مطابق جنوبی ایشیاء میں آباد مسلمانوں کے دوتہائی اکثریت سے بھی زیادہ مسلمان مسلکِ حنفیہ کے پیروکار ہیں۔مدرسہ رحیمیہ کو دارالعلوم دیوبند کا پیش خیمہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ دارالعلوم دیوبند کا بنیادی مقصد حضرت شاہ ولی اللہ کی تحریک کو جاری و ساری رکھنا مقصود تھا ۔ بانی دارالعلوم محمد قاسم ناناتوی مولوی مملوک علی کے شاگرد خاص تھے جبکہ مولوی مملوک علی کے استاد حضرت شاہ ولی اللہ کے فرزندِ ارجمند حضرت شاہ عبدالعزیز تھے۔
دیـوبندیت کیـا هے ؟
علماء دیوبند کا کوئ الگ اعتقادی یا فقهی مکتب فکر نہیں هے نا خود رَو قسم کے اهل سنت نہیں ہیں۔ مسلک کے اعتبارسے نہ وه کوئ جدید فرقہ ہیں ، نہ بعد کی پیداوار ہیں ، بلکہ وہی قدیم اهل سنت والجماعت کا مسلسل سلسلہ ہے ، جو سلف صالحین سے تسلسل واستمرار اور سند متصل کے ساتهہ چلا آرها هے ، لہذا اهل سنت والجماعت کا یہ مسلک دیو بند جامع اورمعتدل ترین مسلک ہے جس میں نہ افراط ہے نہ تفریط ہے ، نہ مبالغہ ہے نہ غلو بلکہ کمال درجہ اعتدال وجامعیت کا جوہر پیوستہ ہے بلکہ عقائد میں اهل سنت والجماعت کے طریقہ پر هیں ، اور فقہ میں حنفی المسلک هیں ، البته احناف اهل سنت میں انكے درسگاۃ دیوبند اور اکابرومشائخ کا ایک خاص علمی وتحقیقی رنگ وذوق هے، بس اسی کی تعبیر دیوبندیت سے کی جاتی هے۔اور وه رنگ وذوق مندرجہ ذیل خصوصیات کے اجتماع سے پیدا هوتا هے۔ 1 = فقہ حنفی پر اطمینان اور اس کے مطابق فتوی اور عمل کے ساتهہ ساتهہ حدیث وسنت کے ساتهہ خاص و گہرا تعلق وشغف ، نیز دوسرے آئمہ مجتهدین اور اسی طرح حضرات محدثین وعلماء امت کا ادب واحترام اور دل میں سب کی عظمت ومحبت۔ 2 = اس فقہی اور علمی خصوصیت وامتیاز کے ساتهہ حضرات صوفیہ کرام کی نسبت کی طلب و تحصیل یا کم ازکم دل میں ان عظمت ومحبت ۰ 3 = اس سب کے ساتهہ اتباع سنت پر التزام اور شرک وبدعت سے نفرت اور اس معاملہ میں ایک خاص قسم کی صلابت وحمیت۔ 4 = اور ان سب صفات کے ساتهہ إعــلاء كلمـةُ الله جذبہ۔ دراصل یہ اس خاص رنگ وذوق کا عنوان هے جو ان عناصر اربعہ کی اجتماع سے پیدا هوتا هے۔ علمائے دیوبند كے اس سلسلہ مبارکہ کے اکابر واساطین مثلا حضرت نانـوتـوی حضرت گنگوهی حضرت تهـانوی حضرت شـیخ الهند حضرت سـہارنپوری حضرت مدنـي حضرت کشـمیري حضرت عثمانـي وغیرهم رحمہم الله تعالی ونَوَّرَالله مَراقدهم اور ان کے خاص تلامذه و مسترشدین ان هی چیزوں کی جا معیت وکمال میں ممتاز تهے ورنہ یہ خصوصیات جدا جدا دوسرے حلقوں میں بهی پائے جاتے هیں۔ حاصل یہ کہ أهل سنت والجماعت اور قرآن وسنت اور فقہ حنفی کے ساتهہ تعلق و وابستگی کے بعد یہ هے وه خاص رنگ وذوق یا خاص مشرب جس کا عنوان دیوبندیت هے ۔
غیر مسلم مبلغین کی یلغار کو روکنا
جنوبی ایشیاء میں برطانوی سامراجیت کے دور استبداد میں اسلام اورمسلمانوں کی سربلندی مکتبہ دیوبند کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ انگریز سرکار کی سرپرستی میں غیر مسلم مبلغیں جن میں اور آریہ سماج کے پنڈت قابل ذکر ہیں اسلام پر حملہ آور ہوئے۔ ان کے ناپاک عزائم کو ناپاک بنانے میں علمائے دیوبند کی قربانیاں اور خدمات آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں اس سلسلے میں مولانا محمد قاسم نانوتوی کے مشہور زمانہ مناظرے [1] جو آپ نے شاہ جہان پور وغیرہ میں کیے قابل ذکر ہیں۔
تصنیف و تالیف کا زوال
دیوبند کے تقریباً تمام اکابر علماء نے اپنے اپنے وقت میں تصنیف و تالیف کے لازوال سلسلے اور عظیم روایت کو زندہ رکھا ہے۔علماء دیوبند نے تفسیرقرآن ، شرح حدیث ، اصول فقہ ، فقہ حنفی ، فرائض ، توحید وعقائد، سیرت وآداب ، اوردیگر علوم وفنون میں ، نیز فرق باطلہ ،عیسائیت ، ملاحده ، دہریت ، قادیانیت ومرزائیت ، شیعہ وروافض ، نیز دین متین کی حفاظت ، مبتدعین کی رد ، اور غیر مقلدین کی بعض سینہ زوریوں کی تردید میں جو کتابیں تالیف کی ہیں ان کی تعداد دو ہزار سے زائد ہیں ، جن میں چهوٹے رسائل سے لے کر کئ کئ جلدوں پر مشتمل ضخیم کتابیں شامل ہیں ، اور یہ مقدار صرف اکابر ومشائخ کی تالیفات کی ہے ، دارالعلوم دیوبند کے دیگر فضلاء و منتسبین کی تالیفات مزید برآں ہیں ، ان تمام کتابوں کی صرف نام کی تفصیل کے لیئے بهی ایک مستقل کتاب ودفتر درکار ہے ، ان اکابر میں سے صرف ایک مصنف حكيم الأمـة مجدِد المـلة حضرت الإمـام أشرف على تهانوى نورالله مرقده کی تصنیفات ایک ہزار سے زائد ہیں ، ان میں سے بعض کتابوں کی دو ۲ سے لے کر باره ۱۲ تک جلدیں ہیں ، یہاں تک کہ حكيم الأمـة رحمه الله کثرت تالیفات میں شیخ جلال الدین سیوطی رحمه الله سے بهی فائق ہیں ، اور اگر میں یہ کہوں تو کوئی مبالغہ نہیں ہو گا کہ حكيم الأمـة رحمه الله کی کتابیں اتقان وتحقیق میں شیخ سیوطی رحمه الله کی کتابوں سے بهی فائق ہیں ، ہاں شیخ سیوطی رحمه الله کی وسعت معلومات اور حیرت افزا تبحر بهی مُسَلم ہے ، اور حكيم الأمـة رحمه الله کی کتابیں اردو اور عربی دونوں میں ہیں ، پهر ان تالیفات کے علاوه حكيم الأمـة رحمه الله کے وه مواعظ وملفوظات بهی ہیں ، جن میں بہت سے علوم ومعارف اور بلند پایہ تحقیقات ہیں۔ اسی طرح اردو زبان کی حفاظت اور عربی زبان کی ترویج میں بھی علماء دیوبند کا بہت اہم کردار ہے۔
علی گڑھ سے اختلاف
دیوبند کے بیشتر علماء کو علی گڑھ کے نظام تعلیم اور سیاسی فلسفے سے اختلاف رہا ہے کیونکہ علی گڑھ مغربی علوم اور انگریز۔ مسلم اتحاد کا علمبرار مکتبہ فکر تھا۔ ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ علمائے دیوبند کا اختلاف صرف طرز تعلیم سے تھا نا کہ جدید تعلیم سے۔ علمائے دیوبند جدید تعلیم کی اہمیت سے واقف تھے انہوں نے علی گڑھ کے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو دور نہیں کیا بلکہ ان کی طرف دستِ شفقت بڑھاکر انھیں اپنا ترجمان اور اپنی سوچ وفکر اورامنگوں کا وارث بنالیا؛ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ عمر کے آخری حصہ میں آپ انتہائی ضعف وبیماری کے باوجود علی گڑھ مسلم یونیورسٹی گئے؛ تاکہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو اپنے درد وفکر میں شریک کرکے انھیں انگریز کے خلاف کھڑا کریں۔ آپ کے ضعف ونقاہت کا یہ عالم تھا کہ آپ دیوبند سے پالکی میں لیٹ کر روانہ ہوئے، نقاہت کی وجہ سے خطبہٴ صدارت نہیں پڑھ سکتے تھے جو مولانا شبیراحمد عثمانی رحمہ اللہ نے پڑھا جس میں آپ نے فرمایا:میں نے اس پیرانہ سالی اور علالت ونقاہت کی حالت میں آپ کی اس دعوت پر؛ اس لیے لبیک کہا کہ اپنی ایک گمشدہ متاع کو یہاں پانے کا امیدوار ہوں۔“ پھر فرمایا: ’اے نونہالانِ وطن! جب میں نے دیکھا کہ میرے اس درد کے غم خوار جس میں میری ہڈیاں پگھلی جارہی ہیں، مدرسوں اور خانقاہوں میں کم اور اسکولوں اور کالجوں میں زیادہ ہیں تو میں نے اور میرے چند احباب نے ایک قدم علی گڑھ کی طرف بڑھایا اور اس طرح ہم نے ہندوستان کے دو تاریخی مقاموں دیوبند اور علی گڑھ کا رشتہ جوڑا۔۔اسی خطبہٴ صدارت میں آپ نے فرمایا:آپ میں جو حضرات محقق اور باخبر ہیں وہ جانتے ہوں گے کہ میرے بزرگوں نے کسی بھی وقت کسی اجنبی زبان سیکھنے یا دوسری قوموں کے علوم وفنون حاصل کرنے پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا! ہاں بے شک یہ کہا کہ انگریزی تعلیم کا آخری اثر یہی ہے جو عموماً دیکھا گیا کہ لوگ نصرانیت (مغربیت) کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں یا ملحدانہ گستاخیوں سے اپنے مذہب یا مذہب والوں کا مذاق اڑاتے یا حکومتِ وقت کی پرستش کرنے لگتے ہیں، ایسی تعلیم پانے سے ایک مسلمان کے لیے جاہل رہنا اچھا ہے۔ آپ کے بے قرار دل سے نکلی صدا نے جدید طبقہ کے دل کو مسخر کرلیا؛ یہاں سے مولانا محمد علی جوہر جیسے ہیرے نکلے ، چنانچہ جب آپ نے ترکِ موالات یعنی برطانوی حکومت سے ہر طرح کا تعاون ختم کرنے کی اپیل کی تو یونیورسٹی کے بہت سے طلباء نے یونیورسٹی سے رشتہ توڑ لیا۔ یہ واقعہ ۲۹/اکتوبر ۱۹۲۰/ کا ہے، اس طرح دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ مسلمانوں کی دوسری بڑی یونیورسٹی حضرت شیخ الہند کی بدولت وجود میں آئی۔ غرض حضرت شیخ الہند نے مالٹا سے واپسی پر برصغیر کی ملت اسلامیہ کو دو بنیادی پالیسیاں عطا کیں (۱) ڈائیلاگ (۲) جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو قریب کرکے انھیں اپنا ترجمان بنانا، اگر ہم ڈائیلاگ کی راہ پر ہوتے تو آج عالم گیریت کے دور میں اقوامِ عالم سے ڈائیلاگ کے ذریعہ قرآن کے مطابق انسانی مسائل کا حل پیش کررہے ہوتے، اسی طرح جدید تعلیم یافتہ طبقہ عالمی حالات کو جتنا سمجھتا ہے قدیم طبقہ نہیں اور جدید طبقہ کے پاس وہ زبان واسلوب ہے جسے اقوام عالم سمجھتی ہیں، صرف اس کے پاس قرآن وسنت کی صحیح رہنمائی نہیں ہے، اگر یہ دونوں چیزیں جمع ہوجائیں تو ملتِ اسلامیہ کی کشتی موجودہ حالات کے بھنور سے نکل سکتی ہے،
دیوبند اور کانگریس
علمائے دیوبند کے ایک طبقہ مولانا حسین احمد مدنی ، مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کو مسلم لیگ سے بھی سیاسی اختلاف کی ، انکاموقف یہ تھا کہ انگریز کے زیر سایہ ہونے والی تقسیم کم ازکم مسلمانوں کے لیے کبھی فاعدہ مند نہیں ہوسکتی۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد ان میں سے کسی نے بھی پاکستان کی مخالفت نہیں کی۔ مولانا مدنی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ” پاکستان کے قیام کے بعد اب اس کا حکم مسجد کا سا ہے، اس کے بنانے میں اختلاف ہوسکتا ہے، بننے کے بعد اسکی تقدیس فرض ہے” مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ “پاکستان وجود میں آگیا ہے تو اب اسے باقی رکھنا چاہیے، اس کا بگڑ جانا سارے عالم اسلام کے لیے شکست کے برابر ہوگا”۔ (بحث ونظر نوائے وقت۔ 23 مارچ 1973)
جمعیت العلمائے ہند کا قیام
پہلی جنگ عظیم کے بعد 1919 میں کئی ہم خیال سیاسی گروپوں سے مل کر علمائے دیوبند نے جمعیت العلمائے ہند کے نام سے ایک تنظیم قائم کر دی۔
دیوبند اور علامہ اقبال
١۔دیوبند ایک ضرورت تھی ۔اس سے مقصود تھا ایک روایت کا تسلسل وہ روایت جس سے ہماری تعلیم کا رشتہ ماضی سے قائم ہے ۔
(اقبال کے حضور ص ٢٩٣)
٢۔ میری رائے ہے کہ دیوبند اور ندوہ کے لوگوں کی عربی علمیت ہماری دوسری یونیورسٹیوں کے گریجویٹ سے بہت زیادہ ہوتی ہے ۔
(اقبال نامہ حصہ دوم ص٢٢٣)
٣۔ میں آپ (صاحبزادہ آفتاب احمد خان) کی اس تجویز سے پورے طور متفق ہوں کہ دیوبند اور لکھئنو (ندوہ) کے بہترین مواد کو بر سرِکار لانے کی کوئی سبیل نکالی جائے ۔
(اقبال نامہ حصہ دوم ص ٢١٧)
٤۔ایک بار کسی نے علامہ مرحوم سے پوچھا کہ دیوبندی کیا کوئی فرقہ ہے ؟ کیا نہیں ہر معقولیت پسند دیندار کا نام دیوبندی ہے ۔
(علماء دیوبند کا مسلک ص ٥٥)
٥۔مولوی اشرف علی تھانوی سے پوچھئے وہ اس (مثنوی مولاناروم ) کی تفسیر کس طرح کرتے ہیں میں اس (مثنوی کی تفسیر کے ) بارے میں انہی کا مقلد ہوں ۔
(مقالات اقبال ص ١٨٠)
٦۔میں ان (مولانا سید حسین احمد مد نی ) کے احترام میں کسی اور مسلمان سے پیچھے نہیں ہوں ۔
(انوار اقبال ص ١٦٧)
٧۔نیز فرماتے ہیں مولانا (سید حسین احمد مدنی ) کی حمیت دینی کے احترام میں میں ان کے کسی عقیدت مند سے پیچھے نہیں ہوں ۔
(انواراقبال ص ١٧٠)
٨۔… اس ( وہٹر ) کے متعلق مولوی سید انور شاہ صاحب سے جو دنیا ئے اسلام سے جید ترین محدث وقت میں سے ہیں میری خط و کتابت ہوئی ۔
(انوار اقبال ص ٢٥٥)
٩۔مجدد الف ثانی عالمگیر اور مولانا اسمعٰیل شہید رحمتہ اﷲ علیہم نے اسلامی سیر ت کے احیاء کی کوشش کی مگر صوفیاء کی کثرت اور صدیوں کی جمع شدہ قوت نے اس گروہ احرار کو کامیاب نہ ہونے دیا ۔
(اقبال نامہ حصہ دوم ص ٤٩)
١٠۔مولانا شبلی رحمتہ اﷲ علیہ (م١٣٣٢ ھ ١٩١٤ ئ) کے بعد آپ (حضرت مولانا سید سلمان ندوی خلیفہ مجازحضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ) اساذ الکل ہیں ۔
(اقبال نامہ حصہ اول ص ٨٠)
دیوبند اور قرارداد پاکستان [ترمیم]
آل انڈیا نیشنل کانگریس کے ہمنوا علمائے دیوبند کی اکثریت نے کانگریسی مسلمانوں اور مسلم نیشنلسٹ سیاسی پنڈتوں کی طرح قرار داد پاکستان کی حمایت نہیں کی۔ ان کا خیال تھا کہ تقسیم ہند سے ہندوستان کی فطرت وحدت ختم ہو جائے گی۔ وہ ہندوستان کے اس روایتی معاشرے جو انگریز کی آمد سے قبل موجود تھا کو بحال کرنے کے حق میں تھے ان کا موقف تھا کہ ہندوستان سے انگریز کے جانے کے بعد بھی ہندو اور مسلمان دونوں ایک ہی ملک میں موجود اور آباد رہ سکتے تھے۔ مولانا ابولکلام آزاد ، حسین احمد مدنی ، علامہ عنایت اللہ خان المشرقی ، انکے علاوہ مدرسہ دیوبند سے فارغ التحصیل اور دیوبند کے دوسرے بڑے علما کی اکثریت نے قرارداد پاکستان کی حمایت کی۔
دیوبند اور قائداعظم [ترمیم]
قائداعظم کی مذہبی تربیت مولانا اشرف علی تھانوی کی ہدایت پرا ن کے ساتھیوں اور خواہر زادوں نے کی تھی جن کی قائداعظم سے طویل ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ ان ملاقاتوں کا نتیجہ تھا کہ انگلستان سے واپسی کے بعد قائداعظم کی تقریروں پر واضح مذہبی رنگ نظر آتا ہے، ان کی تقریروں میں جا بجا اسلام کے حوالے ملتے ہیں، خدا کے سامنے جوابدہی کے خوف کا خوف طاری ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ قائداعظم کی تقاریر کو بغور پڑھنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ 1934ء کے بعد ان کے نظریات میں ایک واضح تبدیلی نظر آتی ہے، مذہب کی جانب جھکاؤ محسوس ہوتاہے اور ان کے تصور قومیت اور سیاست میں بنیادی تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ قائداعظم کوئی مذہبی شخصیت نہیں تھے اور نہ ہی علامہ اقبال کی مانند ان کی مذہبی تربیت ہوئی تھی۔ وہ ایک کھرے اور سچے مسلمان تھے اور اسلام کی تعلیمات میں یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے طور پر اسلامی نظام، سیرت نبوی اور قرآن حکیم کا گہرا مطالعہ کیا تھا جس کے حوالے سے ان کی تقاریر میں جا بجا ملتے ہیں۔ وہ قرآن حکیم پر غور و فکر کرتے تھے اور اس کی گواہی نہ صرف منیر احمد منیر کی کتاب ”دی گریٹ لیڈر“ کے عینی شاہدین دیتے ہیں بلکہ جنرل محمد اکبر کی کتاب ”میری آخری منزل“ سے بھی ملتی ہے۔ گنتی کے مطابق قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل 101دفعہ اور قیام پاکستان کے بعد چودہ دفعہ اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کے آئینی ڈھانچے اور نظام کی بنیاد اسلامی اصوبوں پر رکھی جائے گی اور انہوں نے یہ بات تو کئی بار کہی کہ ”قرآن مجید“ ہمارا راہنما ہے۔ حتیٰ کہ سٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریر میں بھی اسلامی اصولوں کی بنیاد پر اقتصادی نظام تشکیل دینے کی آرزو کا اظہار کیا۔ مجموعی طور پر قائداعظم پاکستان کو اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے، مذہبی ریاست ہرگز نہیں کیونکہ اسلام میں تھیوکریسی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ ہمارے سیکولر دانشوروں نے قائداعظم کی تقاریر کو پڑھا ہی نہیں اور نہ ہی ان کی روح کو سمجھا ہے۔ وہ فقط چند ایک تقاریر پڑھ کر اپنا مطلب نکال لیتے ہیں اور اس پہلو پر غور کرنے کی زحمت نہیں فرماتے کہ وقت گزرنے کے ساتھ کب اور کیسے قائداعظم کے نظریات میں تبدیلی آتی گئی اورانہوں نے مسلمانوں کے حوالے سے ”اقلیت“ سے ”قومیت“ تک کا سفر کیسے طے کیا۔ اقبال کا فکری ارتقاء بھی اسی حقیقت کی غمازی کرتا ہے۔ اسلام مخالف اور دین بیزار حضرات قائداعظم کو سیکولر ثابت کرتے رہتے ہیں اور ان کے علم کاحال یہ ہے کہ وہ ا کثر دعوے کرتے پائے جاتے ہیں کہ قائداعظم نے کبھی پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کا اعلان نہیں کیا۔ یہ سطحیت کی حد ہے کیونکہ قائداعظم نے فروری 1948ء میں امریکی عوام کے نام براڈ کاسٹ میں پاکستان کو ”پریمیئر اسلامک اسٹیٹ“ قرار دیا تھا۔ (بحوالہ قائداعظم کی تقاریر جلد چہارم صفحہ 1064تدوین خورشید یوسفی)۔ البتہ سیکولر کا لفظ کبھی ان کی زبان سے نہیں نکلا۔ علماء کا ایک وفد ایک دفعہ ان سے ملنے گیا اور سیاست اور شریعت پر تفصیلا بات ہوئی ۔ ملاقات کے بعد قائداعظم نے کہا کہ ”میری سمجھ میں آگیا ہے کہ اسلام میں سیاست سے مذہب الگ نہیں بلکہ مذہب کے تابع ہے“ (بحوالہ روائیداد از مولانا شبیر علی تھانوی، صفحہ نمبر7)۔ اس ملاقات میں مولانا شبیر علی تھانوی کے ساتھ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب بھی تھے جن کا ذکر قیام پاکستان کے بعد آئین سازی اور علماء کے اتفاق رائے کے حوالے سے ملتا ہے۔ مختصر یہ کہ مولانا اشرف علی تھانوی کے نمائندے مئی 1947ء تک قائداعظم سے ملتے رہے اور ان کی دینی تربیت کرتے رہے جس کے نتیجے کے طور پر قائداعظم کا مولانا تھانوی کے گھرانے سے ایک پائیدار تعلق قائم ہوگیا۔ مولانا ظفر احمد عثمانی اپنی روائیداد میں لکھتے ہیں ”ایک مجلس میں قائداعظم سے کہا گیا کہ علماء کانگرس میں زیادہ ہیں اور مسلم لیگ میں کم۔ قائداعظم نے فرمایا ”تم کن کو علماء کہتے ہو“۔ جواباً مولانا حسین احمد مدنی، مفتی کفایت اللہ اور مولانا ابوالکلام کا نام لیا گیا۔ قائداعظم نے جواب دیا ”مسلم لیگ کے ساتھ ایک بہت بڑا عالم ہے جس کا علم و تقدس و تقویٰ سب سے بھاری ہے اور وہ ہیں مولانا اشرف تھانوی جو چھوٹے سے قصبے میں رہتے ہیں مسلم لیگ کو ان کی حمایت کافی ہے“۔
قیام پاکستان اور دیوبند
یہی وہ پس منظر تھا جس میں قیام پاکستان کے وقت جب 15اگست 1947ء کو پاکستان کے پرچم کی پہلی رسم کشائی ہوئی تو قائداعظم خاص طور پر مولانا شبیر احمد عثمانی کو ساتھ لے کر گئے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے تلاوت اور دعا کی اور پھر پاکستان کا جھنڈا لہرایا جسے پاکستانی فوج نے سلامی دی۔ یہ رسم کراچی میں پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں ادا کی گئی جبکہ مشرقی پاکستان کے صوبائی دارالحکومت ڈھاکہ میں مولانا شبیر احمد عثمانی کے بھائی اور مولانا اشرف تھانوی کے بھانجے مولانا ظفر احمد عثمانی نے پاکستان کا پرچم لہرایا۔ ان علماء ربانیین کی تگ وتاز کا روشن پہلو ۱۴/ اگست ۱۹۴۷ء کو قیام پاکستان پر ہی ختم نہیں ہوا۔ جب پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے مارچ ۱۹۴۹ء میں ”قرار داد مقاصد“ کے عنوان سے ایک قرار داد منظور کی تو مولانا شبیر احمد عثمانی اور ان کے باہمت رفقائے کار نے اسلام کی بنیادی تعلیمات ، اساسی احکامات اور اہم جزئیات کو آئین کا حصہ بنانے میں پر جوش وپر خلوص انداز میں حصہ لیا۔ بقول ڈاکٹر معین الدین عقیل: ”وزیر اعظم لیاقت علی خان نے اس قرار داد منظوری کو حصول آزادی کے بعد اس ملک کی زندگی کا اہم ترین واقعہ قرار دیا“۔ یہی وجہ ہے ”بانیان پاکستان“ بھی استخلاص وطن کی تحریک میں ان ”درویشان خدامست“ کی تائید وتسوید، کردار وعمل اور درددل کی آمیزیش کے کھل کر معترف وقدردان ہوئے۔ جس کا اظہار مشرقی ومغربی پاکستان میں قائد اعظم کی منشا پر پرچم کشائی کا عمل ان حضرات کے بابرکت ہاتھوں انجام پایا۔ مولانا ظفر احمد عثمانی نے ۱۹۴۵ء کے لیاقت کاظمی الیکشن میں جو کردار ادا کیا، اس پر تشکر وامتنان کے جذبات سے لبریز نوابزادہ لیاقت علی خان کا یہ خط ملاحظہ ہو : ”میں انتہائی مصروفیتوں کے باعث اس سے قبل آپ کو خط نہ لکھ سکا۔ مرکزی اسمبلی کے انتخاب میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑی کامیابی عطا کی ہے۔ اس سلسلے میں آپ جیسی ہستیوں کی جد وجہد بہت باعث برکت ثابت ہوئی۔ آپ حضرات کا اس موقع پر گوشہ ٴ عزلت سے نکل کر میدان عمل میں آنا اور اس سرگرمی سے جد وجہد کرنا بہت موثر ثابت ہوا۔ اس کامیابی پر میں آپ کو مبارک باد دیتاہوں، خصوصا حلقہ انتخاب سے جہاں ہماری جماعت نے مجھے کھڑا کیا تھا۔ آپ کی تحریروں اور تقریروں نے باطل کے اثرات بڑی حد تک ختم کردیئے ہیں… اور آپ کی تحریریں، تقریریں اور مجاہدانہ سرگرمیاں آنے والی منزل کی دشواریوں کو بھی معتدبہ حد تک ختم کردیں گی“۔
ریفرنڈم اور علمائے دیوبند
3 جون 1947ء کے منصوبے کے تحت صوبہ سرحد اور آسام کے ضلع سہلٹ میں استصواب رائے کا فیصلہ کیا گیا۔ آزمائش کی اس گھڑی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنماؤں اور سیاسی کارکنوں کو علمائے دیوبند کی شفقت اور مکمل حمایت حاصل رہی۔ یہی وجہ تھی کہ صوبہ سرحد اور ضلع سلہٹ کے مسلمانوں نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دے کر پاکستان کے جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کو محفوظ بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں مسلم لیگ کے اعلی عہدیدواروں کے علاوہ پیر آف مانکی شریف ، پیر زکوڑی شریف اور مولانا شبیر احمد عثمانی کی خدمات ناقابل فراموش اور لائقِ صد افتخار ہیں۔
قرارداد مقاصد
تقسیم ہند کے نتجیے میں اگر ایک طرف پاکستان معرض وجود میں آیا تو دوسری طرف پاکستان اور پاکستانیوں کے مسائل اور چیلنجوں کے ایک لامتناہی سلسلے کا آغاز ہونے لگا۔ انہی مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ آئین کی عدم موجودگی کا تھا۔ آئین پاکستان سے متعلق وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت نے 13 جون 1949ء کو پارلیمنٹ سے ایک نہایت اہم قرارداد ، قراردادِ مقآصد منظور کروائی۔ یہ قرارداد مولانا شبیر احمدعثمانی اور ان کے رفقائے کار مرتب کی تھی۔ پاکستان کی آئین سازی کی تاریخ میں اس قرارداد کو پہلے سنگ میل کا درجہ حاصل ہے۔
دیوبند سے الحاق شدہ مربوط دینی مدارس
الازہر یونیورسٹی مصر کی طرح پورے عالم اسلام میں دیوبند مکتبہ فکر کو لازوال شہرت نصیب ہوئی۔ آج جنوبی ایشیاء ، وسطی ایشیاء اور مشرق وسطی میں سینکڑوں کے حساب سے ایسے دینی مرسے اور درسگاہیں ہیں جو علمی اور فکری لحاظ سے دیوبند مکتبہ فکر سے مربوط ہیں۔ پاکستان میں مدرسہ اشرفیہ لاہور ، جامعہ مدینہ لاہور ،مدرسہ عربی خیر المدارس ملتان ، دارالعلوم کھڈہ کراچی اور دارلعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک نوشہرہ ، ہر سو دیوبند مکتبہ فکر کی روشنی پھیلانے میں مصروف عمل ہیں۔
اگر بالفرض دارالعلوم دیوبند نہ ہوتا تو ؟
اٹهاره سو ستاون 1857 کی تحریک آزادی میں بظاہر ناکام ہونے والی شکستہ حال مسلمان قوم کی دینی ومذهبی وقومی اقدار وروایات کا تحفظ نہ ہوتا
تعلیمات ولی اللهی کی وسیع وعریض پیمانے اور منظم انداز سے نشرواشاعت کا اہتمام نہ ہوتا ، اور تحریک سید احمد شہید کو برگ وبار میسر نہ آتے
دیانند سرسوتی ، سوامی شردهانند ، پادری فنڈر ، اور اس قبیل کے دیگر دشمنان اسلام وملحد وزندیق لوگوں کی چلائی ہوئی شیطانی تحریکوں کی سرکوبی وبیخ کنی نہ ہوتی
پاک وہند میں خصوصا اور دیگر براعظموں میں عموما مدارس ومساجد کے ذریعے قال الله وقال الرسول کی صدائیں نہ گونجتیں ، کیونکہ برصغیر کے چپہ چپہ پر مدارس ومساجد ومکاتب ومعاهد کا جال بچهائے جانا ، فرزندان دارالعلوم ہی کی کوششوں کا ثمر ہے ، اور ان ہی کی کاوشوں کا رہین منت ہے ، اور یہ فرزندان دارالعلوم کا ایک عظیم وبے مثال بنیادی کارنامہ ہے
دین ودنیا کو الگ کرنے اور اسلام کی ہمہ گیریت اور آفاقیت کو مجروح کرنے کی رسوائے زمانہ فرنگی سازش کامیاب ہوجاتی ، اور دین اسلام جو ایک ہمہ گیر وعالمگیر دین ہے ، اور یہ ہمہ گیریت اسلام کا ایک خاص امتیازی وصف ہے ، جس میں نہ علاقہ کا حصار، اور نہ سلطنت کی تحدید ، نہ قومیت کی وباء ، نہ نسل پرستی کا مرض ، نہ اس کا کوئی سرحد ، اور نہ کوئی مخصوص گھیرابندی ہے ، محض ایک “پرسنل عقیده” ہوکر ره جاتا
مسلمانوں کے مقدس خون سے تحریک آزادی کی آبیاری نہ ہوتی ، اور سامراج کے ظالمانہ اقتدار وغاصبانہ نظام کی رسی مزید دراز وطویل ہوجاتی ، جس کے بعد وه مسلمانوں کو رنگ ونسل کے اعتبار سے مسلمان اور فکرونظر وعقائد کے اعتبار سے عیسائی اور گمراه بنانے میں مکمل کامیاب ہو جاتا ، حتی کہ مسلم قومیت کی بنیاد پر مسلمانوں کی الگ مملکت وجود میں نہ آتی
اتحاد عالم اسلامی کی منظم تحریک ، تحریک ریشمی رومال کے نام سے وجود میں نہ آتی ، اور اس تحریک قیادت وراہنمائی کا شرف بهی گلستان دیوبند کے پہلے طالب علم مولانا محمود حسن دیوبندی نوراللہ مرقدہ کو حاصل ہوا ، جن کو دنیا شیخ الہند کے نام سے یاد کرتی ہے ، اسی تحریک ریشمی رومال کی پاداش میں اس بطل جلیل وانسان عظیم کو اور اس کے جانثار اصحاب کو وطن سے بہت دور جزیره مالٹا میں طویل مدت تک پس دیوار زنداں ہونا پڑا ، اور بے انتہاء مصائب وآلام ومشکلات وشدائد ومحن سے شیخ الہند اور آپ کے رفقاء کو دوچار ہونا پڑا ، اور اسی تحریک کی بدولت ہزاروں افراد کو وحشتناک موت کی سزا دی گئی
اسلام کے خلاف مستشرقین کے پهیلائے ہوئے بے شمار شکوک و شبہات ، اور دیگر اعداء اسلام کے ناپاک عزائم اور اسلام اور پیغمبر اسلام اور قرآن وحدیث پر کیے گئے جارحانہ حملوں کا کافی وشافی اور دندان شکن جوابات نہ دیے جاتے
تفسیر، حدیث ، فقہ ، تاریخ ، رجال ، عقائد و کلام ، اور علوم عربیت وغیره علوم وفنون میں لاتعداد علمی وتحقیقی کتابیں وجود میں نہ آتیں ، اور اسلامی علوم میں لاکھوں کتابوں کا وقیع ذخیرہ معرض وجود میں نہ آتا ، اور خصوصا اردو زبان میں بے پناه علمی ، ادبی ، تحقیقی ، تاریخی ، اصلاحی ، تبلیغی ،اوراسلامی مواد ولٹریچر منتقل نہ ہوتا
عظمت صحابہ اور ناموس صحابہ رضی ﷲ عنهم اور عزت واحترام اسلاف کا تحفظ نہ ہوتا ، اور دشمنان صحابہ وخلفاء راشدین کے مکروہ پراپیگنڈے کا بهرپور رد وتعاقب نہ ہوتا ، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر سب وشتم کرنے والے ، اور حب اہل بیت کی آڑ میں ان پر زبان طعن دراز کرنے والے ملعونین کے اعتراضات وہفوات کے مسکت علمی جوابات نہ دیے جاتے
سارقین ختم نبوت ومنکرین ختم نبوت کا علمی وعملی تعاقب نہ ہوتا ، اور عقیدہ ختم نبوت کا بهرپور تحفظ نہ ہوتا ، اور امت مسلمہ کے خلاف منکرین ختم نبوت یعنی قادیانیوں کی مسلسل سازشوں اور اسلام کی توہین اور تضحیک کی روش اورغدارانہ وباغیانہ طرز عمل وکردار کا بهرپور مقابلہ نہ ہوتا
فتنہ انکار حدیث کی مکمل بیخ کنی نہ ہوتی ، اور منکرین حدیث کے پهیلائے ہوئے شیطانی وساوس کا منظم رد وتعاقب نہ ہوتا ، اور منکرین حدیث کے تمام بنیادی شبہات کے دو ٹوک جوابات پر مشتمل علمی و تحقیقی کتابیں وجود میں نہ آتیں
بدعات وشرکیات کے اندهیروں میں توحید وسنت کی مشعلیں روشن نہ ہوتیں ، اور الحاد ولادینیت وزندقہ اور تجدُد ونیچریت کا سیلِ رواں خشک نہ ہوتا
علم وعمل کی اس فقید المثال وعدیم النظیر درس گاه سے بے شمار علماء ، فضلاء ، مفسرین ، محدثین ، فقهاء ، اصوليين ، قراء ، حفاظ ، ادباء ، شعراء ، فصحاء ، بلغاء ، حكماء ، متکلمین ، مناظرین ، مفتیان ، مقرِرین ، خطباء ، مدرسین ، مصنفین ، مؤلفین ، محققین ، سیاسین ، عارفین ، اولیاء ، مجاہدین ، تیار نہ ہوتے
حاصل کلام یہ ہے کہ یہ دارالعلوم ہی فیضان ہے کہ اس گئے گذرے دور میں برصغیر پاک وہند میں خصوصا اور پوری دنیا میں عموما گوشے گوشے میں الله تعالی کے آخری دین کے چراغ روشن ہوئے ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...