تاریخ جب ہلکا سا بھی پردہ سرکاتی ہے تو کیا ہی نادر چیزیں برآمد ہوتی ہیں شہباز قلندر کو ھندو راجہ بھرتری سمجھتے ہیں جو گرو گورکھ ناتھ کا گرو بھائی اور شری مچندر ناتھ کا چیلا تھا آج بھی نگارے اور سینگ اسی رِدھم اور لَے سے بجائے جاتے ہیں جیسے شیو مندر میں اور دھمال اسی رقص کا عکس ہے سیوہن کا اصل نام شو + آستان تھا جس سے سیوستان بنا اور اب سیوہن جو کہ شو +واھن سے نکلا ہے۔
یہاں آباد ہونے والے ہندوؤں میں بیشتر تاجر تھے جو تجارت کے لیے دور دراز کے سفر طے کرتے تھے انہیں اکثر ان سفروں میں سمندر اور دریاؤں کا سفر طہ کرنا پڑتا تھا اس لیے وہ جھولے لال کی پوجا کرتے تھے یہ پانی کا دیوتا بھی تھا اور اڈیرو یا اندو لال بھی کہلاتا تھا اور اسے زندہ پیر کا نام بھی دیتے تھے جس کا مندر ٹنڈو آدم کے قریب اڈیرو لال میں واقع ہے دلچسپ بات یہ مسلمان حضرت خٖضر کو پانی کا مربی مانتے ہیں اور اس درگاہ کا خضر پیر یا زندہ پیر کی درگا بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ خیال کیا جاتا ہے کہ حضرت خضر زندہ ہیں اور وہ بھٹکے اور پانیوں رہنے والوں کی مدد کرتے ہیں اس درگاہ کے ایک حصہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہے اور دوسرے پر ہندوؤں کا قبضہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جھولے لال سندھی ہندوؤں کے دیوتا کا نام ہے اور آج بھی سندھ اور بھارت میں لاکھوں افراد اسے پوجتے ہیں جب آپ لال میری پٹ جھولے لال سنیں تو یہ نہیں سمجھیں کہ یہ مصرعہ شہباز قلندر کی شان میں گیت گایا جارہا ہے یہ مصرعہ سندھی ہندوؤں کے دیوتا جھولے لال کے لیے کہا گیا ایک بھجن کا مصرعہ ہے جسے بعد میں حضرت شہباز قلندر پر لکھے گیت میں شامل کیاگیا جو اِس قدر مقبول ہوا کہ شہباز قلندر کو لال شہباز قلندر کہا جانے لگا اور خاص کر نچلے طبقے اور جہلاء میں جھولے لال سے مراد شہباز قلندر سے لیے جاتے ہیں آپ کو بہت سے چائے خانوں اور دوکانوں کے نام جھولے لال ملیں گے۔
مقامی باشندوں کے دلوں سے قدیم دیوتاؤں مقامات اور خاندان جن کا قدیم مذہبی تقدس اور کہانیاں محو نہیں ہوئیں اور وہ مقامات جو ان کے نزدیک مقدس تھے انہیں مزارات میں تبدیل کردیا گیا شہباز قلندر کے مزار کے بارے میں جیمز ٹاڈ تاریخ راجستان میں لکھتا ہے کہ شہباز قلندر کو ایک مندر کے وسط میں دفنایاگیا اور مسلمان اور ہندو دونوں یہاں آتے ہیں جمیز ٹاڈ سندھ نہیں آیا تھا بلکہ اس نے سندھ کا جائزہ لینے کے اس نے اپنے آدمیوں کو بھیجوایا تھا اور انہوں نے جو کچھ بتایا اس کی روشنی میں اس نے اخذ کیا ہے اس کے کارندے مداری لال نے جیمز ٹاڈ کو بتایا کہ شہباز قلندر کو ایک مندر جو بھرتری کا مندر کہلاتا تھا وہیں دفنایا گیا۔
برصغیر میں ہندو اور مسلمانوں کی بہت سی رسومات مشترک ہیں مثلاً مزار کو چومنا، سجدہ کرنا اور وہی احترام جو مندروں میں ہوتا ہے قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ سوہن دریا کے قریب ہی ہے اس لیے قدرتی طور پر ہندو اور مسلمان انہیں جھولے لال کا روپ سمجھ کر انہیں جھولے لال پکارتے ہوں گے مزار کے باہر صحن میں ایک عمارت ہے جو کہ پتھر کے ستونوں پر ایک گنبد بنا ہوا ہے مقامی لوگوں کے مطابق یہ شہباز قلندر کی کشتی تھی جس پر آپ سوہن آئے تھے یہ روایات بھی لال شہباز قلندر کے دریا سے تعلق کو بتاتی ہے آج بھی ہندو شہباز قلندر کا احترام کرتے ہیں اور اس مزار کی زیارت کو بھی جاتے ہیں اس جھولے لال کو مسلمانوں نے بھی اختیار کرلیا اور انہیں لال شہباز قلندر کہا جانے لگا
بحوالہ تہذیب و ترتیب از معین انصاری
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...