ایک زمانے میں بے حد مقبول نعت خواں ناصر جہاں ریڈیوپاکستان سے حمد،نعت، منقبت کے کتنے ہی شاہکار ریکارڈ کرا چکے تھے۔اب اچانک ان کا نام سامنے آیا تو بہت خوشی ہوئی ۔ناصر جہاں کی گائی ہوئی حمد سنی تو اس نے عجیب سی کیفیت طاری کردی۔
میرے داورا میرے کبریا کروں کیا میں حمد تری رقم
تیری منزلوں میں یہ فاصلے میرے راستوں میں یہ پیچ و خم
ناصر جہاں کوتو ہم جیسے بھول گئے تھے،ایسی آواز جو کبھی بھلائی نہیں جا سکتی ۔اپنی کوتاہی کی تلافی کے طور پر پھر ناصر جہاں کی ایک نعت کو سننا شروع کیا تو حمد کے بعد اس نعت نے سرور کو دو آتشہ کردیا۔
نہ کہیں سے دور ہیں منزلیں نہ کوئی قریب کی بات ہے
جسے چاہے اس کو نواز دے یہ درِ حبیب کی بات ہے
اور جب اس شعر تک پہنچا تو سرور سہ آتشہ ہو گیا۔دیکھیں کیا معرفت سے لبریز شعر ہے۔
وہ خدا نہیں،بخدا نہیں،وہ مگر خدا سے جدا نہیں
وہ ہے کیا مگر وہ ہے کیا نہیں،یہ محب حبیب کی بات
ان کے بعد ملکہ ترنم نورجہاں کی ایک فلمی نعت سنی۔فلم “فرنگی” میں شامل اس نعت کے بول ہیں ۔”تیری ذات ہے مظہرِ نورِ خدا۔۔۔۔بلغ العلی بکمالہ،کشف الدجی بجمالہ۔۔۔۔۔صلو علیہ و آلہ”.
اس کے بعد فلم ” عید مبارک ” میں گلوکارہ مالا اور نذیر بیگم کی آوازوں میں یہ نعت سنی۔
“رحم کرو یا شاہِ دو عالم. صلی اللہ علیہ وسلم ”
دونوں نعتیں بہت خوبصورت طریقے سے گائی گئی ہیں ۔
۔بچپن میں باباجی (ہم تایا جی کو باباجی کہتے تھے) کی گراموفون مشین پر ریکارڈ سنا کرتے تھے ان میں ایک انوکھا سا مکالماتی گانا تھا “فلک بولا۔۔۔۔۔زمیں بولی”….فلک اپنی اور زمین اپنی اپنی فضیلتیں بیان کرتے ہیں ۔ اب ایک مدت کے بعد یہ گانا یوٹیوب کی برکت سے ملا ہے تو بچپن کی یادیں تازہ ہو گئی ہیں ۔یہ گانا محمد رفیع صاحب نے گایا ہے۔فلم کا نام تھا”خدا کے بندے”۔یہ فلم 1957 میں بنی تھی۔گانے کا پہلا شعر ہے۔
فلک بولا خدا کے نور کا میں آشیانہ ہوں. زمیں بولی انہیں جلووں کا میں بھی آستانہ ہوں
اور ساری بحث کا آخری شعر ہے۔
فلک بولا کہ میرا عرش جلووں کا سفینہ ہے. زمیں بولی کہ میری خاک پر شہرِ مدینہ ہے
اس کے ساتھ ہی صلوۃ و سلام شروع کردیا جاتا ہے اور اسی پر گانا مکمل ہوجاتا ہے۔یہ مزے کا مکالماتی گانا شیون رضوی نے لکھا تھا۔
آج جتنا کلام بھی سنا ہے اور اس کا ذکر کیا ہے وہ سارا کلاسیک نوعیت کا ہے۔اب کچھ نئی نسل کو بھی سن لیتے ہیں ۔جنید جمشید کی دعا ہے۔ ان کا بہت مقبول دعائیہ ہے۔
میرا دل بدل دے میرا غفلت میں ڈوبا دل بدل دے
مظفر وارثی نے اپنی حمد “وہی خدا ہے” کو شاعرانہ ترنم کے ساتھ پڑھ کر پڑھنے کا حق ادا کردیا تھا۔ان کے بعد نصرت فتح علی خان نے اسے اوجِ کمال تک پہنچادیا۔پھر بہت سارے لوگوں نے اپنی اپنی توفیق کے مطابق اسے گایا۔ایک نوجوان گلوکارہ انامتا خان نے بھی اسے گایا ہے اور کافی محنت اور خوبصورتی کے ساتھ گایا ہے۔مجھے پروین عزیز نے بھیجا ہے۔سن کر اچھا لگا۔
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے وہی خدا ہے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...