9 جنوری 1976
برطانیہ میں مقیم اردو کی ایک بہترین شاعرہ محترمہ ثمینہ رحمت صاحبہ کی ولادت 9 جنوری 1976 کو کمالیہ پاکستان میں محترم رحمت علی صاحب کے گھر میں ہوئی۔ پیشے کے لحاظ سے سے ان کے والد رحمت علی صاحب زرگر/ سنار تھے۔ وہ 9 بہن بھائی ہیں جن میں ان کا چھٹا نمبر ہے ۔ انہوں نے B S c کنیئرڈ کالج لاہور سے جبکہ L L B کی تعلیم لندن سے حاصل کر رکھی ہے ۔ شاعری سے شوق ان کا بچپن سے تھا انہوں نے 1995 سے شاعری کا آغاز کیا اپنی زندگی کا پہلا مشاعرہ اپوا کالج لاہور میں پڑھا جس پر ان کو بھرپور داد ملی اور ان کو خصوصی انعام سے بھی نوازا گیا ۔ ان کی شاعری خوب صورت احساس اور جذبات سے بھرپور ہے ۔
ان کا مکمل نام ثمینہ رحمت اور منال تخلص ہے ۔ وہ 24 سال قبل اپنے خاندان سمیت برطانیہ منتقل ہو گئی ہیں اور برسٹل انگلینڈ میں مقیم ہیں ۔ ماشااللہ ان کے دو بیٹے یشم سیال اور راحم بلال ہیں ۔
ثمینہ صاحبہ کی اردو شاعری کا پہلا مجموعہ * گل بلوئی * اسلم پبلشرز لاہور سے چھپ کر منظر عام پر آ چکا ہے۔ جبکہ ان کی شاعری کا ایک اور مجموعہ * اور کیا چاہیئے * زیر طبع ہے ۔ ثمینہ صاحبہ کی شاعری سے منتخب ایک خوب صورت غزل اور چند اشعار قارئین کی نذر ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موت کو تھا میں گے صدمے میں نہیں آئیں گے
زندگی ہم تیرے حصے میں نہیں آئیں گے
ہم کو تفتیش کا حق ہے وہ کریں گے پوری
اب کے ہم آپ کے جھانسے میں نہیں آئیں گے
ہم بکھرتے ہوئے موتی ہیں ہمیں مت چنئیے
ہم کبھی وقت کے دھاگے میں نہیں آئیں گے
ہم کو کیا ؛ آپکو دعویٰ ہے خدائی کا اگر
ہم کبھی آپ کے کہنے میں نہیں آئیں گے
ہم بڑے شہر کے باسی بھی ہیں مغرور بھی ہیں
ہم کبھی آپ کے قصبے میں نہیں آئیں گے
اشک بن کے تری پلکوں پہ سجیں گے لیکن
عکس بن کے تیرے چشمے میں نہیں آئیں گے
ہم گزارے ہوئے لمحوں میں ٹھہر جائیں گے
ہم گزرتے ہوئے لمحے میں نہیں آئیں گے
رات کو لوٹتے پھرتے ہیں جو لوگوں کا سکوں
وہ کبھی دن کے اجالے میں نہیں آئیں گے
ہم سا تم کوئی بنا پاؤ یہ ممکن ہی نہیں
ہم کسی بخت کے سانچے میں نہیں آئیں گے
ہم کہ وہ خستہ مکان ہیں جو گرا چاہتے ہیں
ہم ترے شہر کے نقشے میں نہیں آئیں گے
یہ جو افلاک کے آنسو ہیں دکھاوے کے ہیں بس
ہم تو بارش کے برسنے میں نہیں آئیں گے
زندگی تو نے وفا کی نہ نبھائی جن سے
وہ کبھی تیرے بھروسے میں نہیں آئیں گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منتخب اشعار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جو تیرا کبھی تھا ہی نہیں
اس کا ہونے کی کیا ضرورت ہے
جب نہیں چھینٹ کوئی دامن پر
اس کو دھونے کی کیا ضرورت ہے
۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھپ چھپ کے لگائے کہ سر عام لگائے
لوگوں نے تو مریم پہ بھی الزام لگائے
۔۔۔۔
ٹوٹے گی میرے پاوں کی زنجیر دیکھنا
آزاد ہوگا خطہ کشمیر دیکھنا
جنت سے آ رہی ہے صدا غور سے سنو
گر مجھ کو دیکھنا ہے تو کشمیر کو دیکھنا
۔۔۔۔۔۔
اپنے بچوں کو بلکتا دیکھ کر
باپ پھر روٹی کمانے لگ گیا