(Last Updated On: )
حضرت سمیہ بنت خیاط رضی اللہ تعالی عنھا،سرزمین مکہ مکرمہ کی پہلی شہید خاتون ہیں جنہوں نے فافلہ سخت جاں میں شامل ہو کر حیات جاوداں پائی۔ان کے بعدتادم تحریر حضرات وخواتین کی لمبی،طویل اور نہ ختم ہونے والی ایک فہرست ہے جنہوں نے جام شہادت نوش جان کیا۔جوار کعبہ سے چلنے والا یہ کاروان شہداء اسلام جو بدرواحدسے ہوتاہواروم اور ایران کی سرحدوں پرمیدان قتال فی سبیل اللہ گرم کرتاہواکربلا کی سنگلاخ وادیوں میں پہنچااور حرمت و تقدیس کے بلندوبالا میناربھی اس قافلہ میں شامل ہوئے۔قرون اولی سے دورعروج اور پھر غلامی کی مہیب غار سے نکل کرتحریکوں کے راستے آزادیوں کی طرف رواں دواں اس امت کی کوکھ نے شہداکی فصلوں کوہمیشہ سرسبزوشاداب رکھاہے۔امت مسلمہ بلا شبہ شہداکی پرورش کرنے والی امت ہے اورتاج شہادت کواس امت کے نوجوانان نے بخوشی و شادمانی اور بحسرت وآرزواپنے سروں پر سجایاہے۔دشمن یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخریہ لوگ زندگی کی نسبت موت سے کیوں پیارکرتے ہیں،اپنے سینوں پر بم باندھ کر دشمن کے ٹینکوں سے کیوں جاٹکراتے ہیں،جن معرکوں میں بچ جانے کا ایک فیصدبھی امکان نہیں ہوتا وہاں شمولیت کے لیے کرہ اندازی کیوں کرنی پڑتی ہے اورمائیں خود اپنے ہاتھوں سے کیوں شہداکو گھروں سے تیارکرکے روانہ کرتی ہیں۔دشمن کوکون سمجھائے کہ نورتوحیدکے یہ پروانے اللہ تعالی سے ملاقات کو اس دنیاپر فوقیت دیتے ہیں اوران کے ساتھ اللہ تعالی نے بغیرحساب کتاب کے جنت میں داخلے کاوعدہ کررکھاہے،اور اللہ تعالی سے بڑھ کراور کون ہے جواپناوعدہ سچ کردکھائے۔
ڈاکٹرافضل گروشہیدبھی اس قافلے کے وہ شریک ہیں جو غزوہ ہندمیں معرکہ آزادی کشمیرکے محاذکے مجاہد تھے اوربرہمن کی اسلام دشمنی کاشکارہوئے۔ڈاکٹرافضل گروشہیدمقبوضہ جموں و کشمیر کے”دوآباغ“ نامی گاؤں میں جو سوپورکے قریب ضلع بارہ مولامیں واقع ہے میں 1969ء میں پیداہوئے۔یہ حبیب اللہ نامی خوش قسمت باپ کا گھرانہ تھا۔حبیب اللہ لکڑیوں کے ایک چھوٹے سے کاروبارکامالک تھا۔باپ کاسایہ بچپن میں سے سر سے اٹھ گیالیکن پھر بھی بیوہ ماں نے ڈاکٹرافضل گروشہیدکی تعلیمی سرگرمیوں میں تعطل نہ آنے دیا۔گورنمنٹ اسکول سوپور سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی۔1986ء میں تعلیم کے دس سال مکمل کیے اوراس کے بعدثانوی تعلیمی سندکی تکمیل کے بعد”جہلم ویلی میڈیکل کالج“میں داخلہ لے لیا۔شباب کے ساتھ ساتھ ایمان بھی جوان ہوتاگیااور ظلم کے خلاف جنگ اور جہادکاجذبہ ڈاکٹرافضل گروشہیدکے سینے میں موجزن ہونے لگا۔اپنے علاقے میں پھلوں کی تجارت سے وابسطہ طارق نامی ایک نوجوان نے تحریک شہدائے کشمیر سے وابسطہ کردیا۔”اللہ تعالی ان لوگوں سے محبت کرتاہے جواس کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند صف بندہوکرلڑتے ہیں“اوراس طرح کی دیگرآیات قرآنی ڈاکٹرافضل گروشہیدکو تیزی سے جنت کی وادیوں کی طرف کھینچتی چلی جارہی تھیں۔اپنی دینی تربیت کے دوران 1993-94میں دہلی یونیورسٹی سے گریجوئیشن بھی مکمل کرلی۔1996تک دہلی میں ملازمت بھی کرتے رہے اوردہلی میں ایک دواسازکمپنی کے علاقائی افسربھی تعینات رہے بعدازاں طبی سازوسامان کی فراہمی سے بھی متعلق رہے اوراس دوران سری نگراوردہلی کے درمیان مسلسل حالت سفر میں رہتے تھے۔ان مزکورہ امور کے باعث گھریلودباؤ پر تحریک تکمیل پاکستان کی سرگرمیاں جزوی طورپر معطل بھی رہیں۔1998ء میں ”تبسم“نامی لڑکی آپ کی شریکہ حیات بنیں،لیکن کسے معلوم تھا ایک شہید کی آغوش اس بنت حواکامقدر بننے والا ہے۔
13دسمبر2001کو دہلی میں بھارتی پارلیمان پر حملہ ہوا،کم و بیش نصف گھنٹہ فائرنگ کاتبادلہ چلتارہا،حملہ آورجان کی بازی ہارگئے،ایک مالی اورآٹھ سیکورٹی اہلکارکام آئے،سولہ افراد زخمی بھی ہوگئے۔حسب معمول بھارتی قیادت نے زخمی بلی کھمبانوچے کے مصداق پاکستان کو اس حملے کاذمہ دارقراردے دیا۔دونوں ملکوں کے درمیان ایک بار پھرتناؤپیداہوگیااوربڑھتاچلاگیا۔امریکی صدرنے مداخلت کی اور دونوں ملکوں کی قیادت سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہاکہ پارلیمان کے حملے کوجنگ کابہانہ نہ بناؤ۔15دسمبر2001کودہلی کی پولیس نے ڈاکٹرافضل گروشہیدکو گرفتارکرلیااور ان کے ساتھ کچھ اور مردوخواتین کو بھی سری نگرسے ان کے گھروں سے اٹھالیاجن میں دہلی یونیورسٹی کے ایک پروفیسرصاحب بھی شامل تھے۔”پوٹا“نامی بدنام زمانہ قانون کی آہنی زنجیریں ان گرفتارشدگان کالباس بنیں اور جنگ،قتل،دہشت گردی اور ریاست کے خلاف سازشوں کے ناجائزوخودساختہ الزامات ان پردھردیے گئے۔پولیس اور انتظامیہ نے افسران بالا کی سرزنش سے بچنے کے لیے جو بھی ہتھے چڑھااسی کواپنے انتقام کی بھینٹ چڑھادیا۔29دسمبر 2001ء کو ڈاکٹرافضل گروشہیددس دنوں کے لیے پولیس کے حوالے کر دیے گئے تاکہ وہ جسمانی ریمانڈ لے سکے۔بھارتی پولیس کاجسمانی ریمانڈ کوئی راز نہیں ہے،ایک زمانہ جانتاہے کہ صحیح و سالم لوگ ذہنی و جسمانی معذورہوکر باہر آتے ہیں اور کچھ کو تو تابوت میں بندکرکے لایاجاتاہے اور باقی ماندہ کی مسخ شدہ لاشیں کسی ندی کے کنارے پڑی ملتی ہیں،یہ ہیں سیکولربھارت کی انسان دشمنی کااصل چہرہ۔عدالت نے ایک وکیل مقررکیاتاکہ ڈاکٹرافضل گروشہیدکی قانونی مددہوسکے لیکن چند دنوں بعد اس وکیل نے بھی اپنی مصروفیات کے باعث علیدگی اختیارکر لی۔اب ڈاکٹرافضل گروشہیدکلیۃََ سیکولرازم کے ننگ انسانیت شکنجے میں کسے جاچکے تھے۔جون2002ء میں تمام الزامات ثابت ہوگئے یادوسرے الفاظ میں ثابت کردیے گئے،کیونکہ وہاں کاقانون توسیکولرازم ہے جس سے کسی خیراوربھلائی توقع عبث ہے تب عدل و انصاف کی امید توکلیۃ لاحاصل ہے۔پولیس نے عدالت میں ڈاکٹرافضل گروشہیدکااقراری بیان پیش کیا،لیکن انہوں نے اس بیان کی صداقت سے انکارکردیا۔اس سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ پولیس نے اقراری بیان پر کس طرح دستخط کرائے ہوں گے۔2006میں ڈاکٹرافضل گروشہیدنے اپنے وکیل کوبتایاتھا کہ کس طرح ان کے گھروالے زیرعتاب ہیں اور ایک صحافی نے ڈاکٹرافضل گروشہیدکے حوالے سے پولیس تشددکی تفصیلات بھی بتائی تھیں کہ کس طرح نازک اعضاء تک کوبجلی کے جھٹکوں سے نشانہ بنایاگیا۔
8جولائی 2002کو مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی اور روزانہ کی بنیادپر اس مقدمے کو سناجاتارہا۔یادرہے کہ یہ ایک ”پوٹا“عدالت تھی۔یہ سماعت چھ ماہ تک چلتی رہی اور18دسمبر2002کو خصوصی عدالت نے پھانسی کی سزاسنادی۔ہائی کورٹ میں اپیل دائرکی گئی لیکن وہاں بھی انصاف کی توقع عبث تھی اور اپیل خاج ہو گئی۔4اگست 2005کو سپریم کورٹ نے بھی ماتحت عدالت کی یہ سزابرقراررکھی۔نظرثانی کی اپیل بھی خارج۔ان تمام حقائق سے بخوبی اندازہ کیاجاسکتاہے کہ بھارتی عدالتیں کس قدر اپنی حکومتی پالیسیوں کے تابع ہیں۔یہ سیکولرازم کے اصل کردارہیں،دنیاکی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے اور اصل میں حکومتی ارادوں کو عدالتی فیصلوں کی شکل میں تھونپ دیاجاتاہے۔اکتوبر2006میں ڈاکٹرافضل گروشہیدکی بیوی”تبسم“نے صدر مملکت کو رحم کی اپیل کی۔اس نظام میں صدربھی تو اسی نظام کا سب سے بڑانمائندہ تھا، سو اس نے بھی توقع کے عین مطابق یہ اپیل مسترد کردی۔سپریم کورٹ میں ایک بارپھر بھی کوشش کی گئی لیکن جون2007میں پھرناکامی کامنہ ہی دیکھناپڑااور سپریم کورٹ نے کہ دیاکہ اس درخواست میں کوئی جان نہیں۔جنوری2013تک بھارتی وزارت داخلہ پھانسی کافیصلہ کرچکی تھی۔9فروری کو 8بجے جب جیل انتظامیہ نے پھانسی کی اطلاع دی توڈاکٹرافضل گروشہیدبہت مطمئن اور پرسکون تھے۔انہوں نے بیوی کے نام خط لکھا،اس سے قبل وہ فجرکی نمازاورقرآن مجید کے کچھ اوراق کی تلاوت کرچکے تھے۔جیل میں ہی جنازہ پڑھاگیااورانہیں دفنادیاگیا۔اس ساری مہم کو”آپریشن تھری اسٹار“کانام دیاگیاتھا۔
سیکولرازم کے بھارتی برانڈمیں یہ ریاستی اداروں کے ہاتھوں نہ ہی پہلا قتل ہے اورجب تک سیکولرازم کے اقتدارکی بھیانک رات جاری رہے گی،نہ یہ آخری قتل ہے۔اس وقت بھارت کی ریاست اپنے شرق تاغرب انسانوں کی قتل گاہ بنی ہوئی ہے،کہیں ریاست اور حکومت کے ہاتھوں انسان اور انسانیت تہہ تیغ ہورہے ہیں تو کہیں برہمن کے تعصب کاآسیب نہ صرف دیگرہندؤں کو بلکہ دیگرمذاہب کے ماننے والوں کو بھی نگلے جارہاہے اوررہی سہی کسرانتہا پسند تنظیموں نے پوری کررکھی ہے جو پوری سرکاری سرپرستی میں انسانوں کی بستیوں کی بستیاں نذرآتش کرنے کو عین مذہبی فریضہ گردانتے ہیں۔انگلیوں پر گنے چنے چندبھارتی علاقے ہیں جہاں کے دو چار فیصد حالات اخبارات کی زینت بن کردنیاکے سامنے پہنچ جاتے ہیں،وگرنہ دوردرازکی وادیوں اور جزیروں اور سرحدی علاقوں میں بسنے والے قبائل تو بیسویں صدی کی دہلیز پر ننگ انسانیت حالات سے دوچار ہیں اور وہاں کھلم کھلا جنگل کاقانون نافذ ہے۔لیکن شہداکے قافلے میں روزافزوں ہونے والا اضافہ بلآخراس خطے کی تقدیر بدلا چاہتاہے اور اللہ تعالی نے چاہا تو بہت جلد شہیدوں کاخون رنگ لائے گااورآسمانوں تک پہنچنے والی ا نسانیت کی چینخیں عرش خداوندی کو جھنجھوڑ دیں گی اور کشمیرسمیت یہ خطہ سرزمین برصغیراس برہمن کے خونین چنگل سے ضرور آزادہو کر کلمہ توحید کے سائے تلے سکون آشنا ہو گا،انشااللہ تعالی۔