آج 8 نومبر برِّ صغیر پاک و ہند کے ممتاز شاعر، فلسفی اور تاریخ دان جون ایلیاء کا یومِ وفات ہے—
جون ایلیاء برِّ صغیر میں نمایاں حیثیت رکھنے والے پاکستانی شاعر، فلسفی، تاریخ داں اور سوانح نگار تهے، وہ اپنے انوکھے اندازِ تحریر کی وجہ سے آج بھی بہت زیادہ پسند کئے جاتے ہیں— وہ معروف صحافی رئیس امروہوی اور معروف فلسفی سیّد محمد تقی کے بهائی اور معروف کالم نگار اور افسانہ نگار زاہدہ حنا کے سابق خاوند تهے— جون ایلیا کو عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی زبان میں اعلیٰ مہارت حاصل تھی—
جون ایلیاء ۱۴ دسمبر ۱۹۳۷ء میں امروہہ اتر پردیش کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے— وہ اپنے تمام بهائی بہنوں میں سب سے چھوٹے تهے، ان کے والد علامہ شفیق حسَّن ایلیا بهی ایک خوش گو شاعر تهے— اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل بهی انہی خطوط پر کی— انہوں نے اپنا پہلا شعر صرف آٹھ سال کی عمر میں کہا— اپنی کتاب "شاید" کے پیشِ لفظ میں رقم طراز ہیں کہ؛
"میری عُمر کا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے اہم اور ماجرا پرور سال تها— اس سال میری زندگی کے دو سب سے اہم حادثے پیش آئے— پہلا حادثہ یہ تها کہ میں اپنی نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا— یعنی ایک قتّالہ لڑکی کی محبّت میں گرفتار ہوا— دوسرا حادثہ یہ کہ میں نے پہلا شعر کہا؛
چاہ میں اسکی طمانچے کهائے
دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی
جون ایلیاء کے ایک قریبی رفیق سیّد ممتاز سعید بتاتے ہیں کہ ایلیا امروہہ کے سیّد المدارس کے بهی طالبعلم رہے— یہ مدرسہ امروہہ میں اہلِ تشیع حضرات کا ایک اہم علمی و مذہبی مرکز رہا ہےـ— جون ایلیا خود بهی ایک شیعہ تهے اس لیے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کیا کرتے— حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذاتِ عالی سے انہیں خاص عقیدت تهی اور انہیں اپنے سیّد ہونے پر بهی بڑا ناز تها—
سعید کہتے ہیں؛
"جون کو زبانوں سے خصوصی لگاؤ تھا وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتا تھا— عربی اور فارسی کے علاوہ جو انہوں نے مدرسے میں سیکهی تهی، انگریزی سنسکرت اور عبرانی میں بهی مہارت حاصل کر لی تهی—"
جون ایلیاء نے ۱۹۵۷ءمیں پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا— جلد ہی وہ شہر کے ادبی حلقوں میں مقبول ہو گئے— ان کی شاعری انکے متنوع مطالعے کی عادات کا واضح ثبوت تهی جسکی وجہ سے انکے کلام کو زبردست پذیرائی نصیب ہوئی— جون ایک انتھک مصنِّف تھے لیکن انہیں اپنا تحریری کام شائع کروانے پر کبهی راضی نہ کیا جا سکا— ان کا پہلا شعری مجموعہ "شاید" اس وقت شائع ہوا جب انکی عمر ساٹھ سال تھی— نیاز مندانہ" کے عنوان سے لکهّے ہوئے اس کتاب کے پیشِ لفظ میں جون ایلیا نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا— ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ"یعنی" انکی وفات کے بعد ۲۰۰۳ء میں، تیسرا مجموعہ "گمان" ۲۰۰۴ء میں اور چوتھا مجموعہ" گویا" ۲۰۰۸ء میں شائع ہوا—
جون ایلیاء مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی پسند اور فوضوی تهے— انکے بڑے بھائی رئیس امروہوی کو مذہبی انتہا پسندوں نے قتل کر دیا تها جسکے بعد وہ عوامی محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط برتنے لگے—
فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون ایلیا کا علم کسی انسائیکلوپیڈیا سے کم نہ تها- اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی شاعری میں بهی داخل کیا تاکہ خود کو اپنے ہمعصروں سے نمایاں کر سکیں—
جون ایک ادبی رسالہ" انشا" سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں انکی ملاقات اردو کی ایک اور انتھک مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے بعد میں انکی شادی ہو گئی— جون کے زاہدہ حنا سے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا— ۱۹۸۰ء کی دہائی کے وسط میں ان کی طلّاق ہو گئی اسکے بعد تنہائی کے باعث ان کی صحت گرتی چلی گئی کثرتِ شراب نوشی نے انہیں بالکل پژمردہ کر دیا— با الآخر طویل علالت کے بعد ۸ نومبر ۲۰۰۲ء کو کراچی میں انتقال کر گئے اور سخی حسن قبرستان میں سپردِ خاک کر دئیے گئے—
___
"تُمہارا شکریہ—"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جون ایلیاء کی آخری مکمل تحریر "تُمہارا شکریہ" ان کی وفات کے بعد سسپینس ڈائجسٹ میں شائع ہوئی— جس میں انہوں نے اپنی موت کی قبل از وقت علامتی اطلاع دی تھی جس میں جون ایلیا کا ہمزاد (نشیان) ان کے قاتلوں کا انکشاف کر رہا ہے—
نشیان، سحر البیان
تم نے سنا جون ایلیاء مر گئے
کیا کہا، جون ایلیاء مر گئے؟
ہاں، ہاں جون ایلیاء مر گئے
لیکن تمہیں یقین کیوں نہیں آ رہا "نشیان، بلیغ البیان!" کیا میں اتنا بڑا اور احمقانہ جھوٹ بول سکتا ہوں؟
کیا میں تم سے ٹھٹھول کر سکتا ہوں؟
نہیں نشیان، نہیں نہ یہ مخول ہے نہ ٹھٹھول!
یہ حقیقت ہے بین اور ٹھوس حقیقت جس سے نہ منہ موڑا جا سکتا ہے اور نہ انکار کیا جا سکتا ہے—
اچھّا! چلو میں تمہاری اس دل پذیر تقریر پر اعتبار کر لیتا ہوں، میں مان لیتا ہوں کہ تم سچ بول رہے ہو ممکن ہے کہ تم سچ ہی بول رہے ہو "شاید" تم سچ ہی بول رہے ہو اچھا بھئی، تم یقیناً سچ بول رہے ہو، اب اگر ایسا ہی ہے "یعنی" یہ کہ تم سچ ہی بول رہے ہو تو سنو، ذرا غور سے سنو!
اب تم بول چکو اور میری بات سنو، آج صرف میں بولوں گا، صرف میں اس لیے کہ جون ایلیاء تو مر گئے ان کے سامنے تو میں کیا، کوئی بھی بول ہی نہیں سکتا تھا لہٰذا ان کی موجودگی میں چپ رہ رہ کر میرا سینہ جہنّم بن چکا ہے میرے اندر ایک آگ لگی ہوئی ہے اور میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں آج اس آگ کو بجھا کر ہی دم لوں گا اور اس آگ میں تم کو جلا کر ہی دم لوں گا—
اب تم انتہائی خاموشی! جاں گسل خاموشی کے ساتھ سنو—
تم نے کہا کہ "جون ایلیاء مر گئے" یہی کہا ہے نا؟ دیکھو، اپنے بیان سے پھر مت جانا کہ آج دنیا کا یہی چلن ہے اور تم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم، ہی تو دنیا ہو یا "شاید" دنیا تم ہو بہ ہر صورت تم جو کوئی بھی ہو، بس ہو لہذا سنو——
میں نشیان، سحر البیان پوری دنیا کو، پورے اردو گلوب کو آج یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ جون ایلیاء نہیں مرے آج کے بعد کوئی یہ لفظ اپنی لپ لپاتی زبان سے ادا نہ کرے کہ جون ایلیاء مر گئے ورنہ گدی سے اس کی زبان کھینچ لی جائے گی—
کیوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نشیان، کیوں؟ آخر اس حقیقت کی حقیقت سے انکار کیوں؟
میرا خیال ہے تم جون ایلیاء کی محبت میں جذباتی ہو رہے ہو—
خاموش! لب کشائی کی جرأت مت کرو دریدہ دہہن انسان خاموش!
اگر حوصلہ ہے تو سنو ورنہ دفعہ ہو جاؤ میں یہ کبھی نہیں مان سکتا کہ جون ایلیاء مر گئے اس لیے کہ اگر میں یہ مان لوں تو پھر تمہیں جو کچھ ماننا پڑے گا تم اس کے لیے ہرگز ہرگز تیار نہیں ہو گے—
کیا کہا؟ تم سب کچھ ماننے کے لیے تیار ہو، اچھا تو پھر سنو—–
اگر میں یہ مان لوں کہ جون ایلیاء مر گئے تو پھر تمہیں یہ ماننا پڑے گا کہ آج ایک سقراط مر گیا، ہومر مر گیا، تاسیس ملیٹی! ہاں، وہ بھی گیا ارسطو، وہ بھی ہاں، ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں! ابنِ مسکویہ، فارابی، ابن رشد، بو علی سینا، طوسی، خیام سعدی، عرفی، رومی، نطشے، برٹرینڈرسل، برنارڈ شا،مل یہ سب مر گئے ایک پوری کی پوری بستی فنا کے گھاٹ اتر گئی——-
پڑ گیئں نا شکنیں پیشانی پر؟ تو کیا میں ڈر جاؤں گا!
نہیں مربّی نہیں، میں بہت ڈر لیا، اب مجھے کسی کا ڈر نہیں ہے جب جون ایلیاء مر گئے تو اب مجھے موت کا کیا ڈر سنو، اب تو جہنم ہی سنو—–
جون ایلیاء مرے نہیں ہیں میں بار بار یہی کہتا رہوں گا کہ جون ایلیاء نہیں مرے ہاں میں یہ مان لوں گا کہ جون ایلیاء ہار گئے—-
مربّی، اب پھر تم ادبی جملہ بولو گے کہ جون ایلیاء موت سے ہار گئے لیکن ایسا بالکل نہیں ہے مربّی!
پیارے نشیان، ذرا دم لے لو، تمہارا سانس پھول چکا ہے ایک ذرا دم لے لو یہ لو! یہ دو گھونٹ پانی پی لو
میں پانی پی کر بھی آج تمہارا شکریہ ادا نہیں کروں گا اور تمہارا یہ پانی! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ چند گھونٹ میرے لیے، میرے اندر کے جہنم کے لیے قطعاً بے کار اور ناکافی ہیں——
سنو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور صرف سنو! تم نے صرف ایک ہی فن سیکھا ہے اور وہ ہے خوشآمد، میری خوشآمد مت کرو، مجھے پانی مت پلاؤ بس اگر ہو سکے تو صرف سنو!
جون ایلیاء زندگی سے نہیں ہارے بلکہ وہ تمہاری دنیا سے ہارے ہیں خوشامد سے ہارے ہیں فریب سے ہارے ہیں دغا بازی سے ہارے ہیں نمک حرامی سے ہارے ہیں، احسان فراموشی سے ہارے ہیں وہ تو تم سے ہارے ہیں مربّی! تم سے—–
بس چند جملے اور سن لو مربّی! اور ذرا کلیجے کو تھام لو کہ میں اب ان لوگوں کے نام لینے والا ہوں جن سے جون ایلیاء ہار گئے ہیں——
جون ایلیاء! تنہائی اور بے وفائی سے ہارے ہیں
جون ایلیاء! علمی بونوں سے ہارے ہیں
جون ایلیاء! اپنے خون سے ہارے ہیں
جون ایلیاء! اپنی ثقافت سے ہارے ہیں
جون ایلیاء! اپنی روایت سے ہارے ہیں
یہ ہیں جون ایلیا کے قاتل———–
مربّی، اب اگر تم ان ناموں سے واقف نہیں ہو تو یہ تمہاری کم علمی اور سہل پسندی ہے اک ذرا سی کوشش کرو تو تم ان چہروں سے بھی آشنا ہو جاؤ گے—
جاؤ مربّی، جاؤ اپنے اس جہنّم میں دفعان ہو جاؤ جو تم نے خود تیار کیا ہے ہو جاؤ مگن دنیا میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن یاد رکھو، جون ایلیاء کے یادگاری جلسوں میں کہا جانے والا یہ لفظ بے معنی ہے کہ ایک خلا پیدا ہو گیا ہے جو تا دیر پر نہیں ہو گا کوئی خلا پیدا نہیں ہوا یہ مان لو، نہیں مانتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا کہا نہیں مانتے؟ دیکھو، سوچ لو اگر نہیں مانو گے تو پھر تمہیں میرے اس جملے سے مکمل اتفاق کرنا پڑے گا اور یاد رکھو، پھر یہ جملہ تمہارا مقدر ہو جائے گا وہ مقدر جس کو تم بدل نہیں سکو گے—
اور وہ جملہ یہ ہے کہ آج ادب، تاریخ، فلسفے، منطق اور ذہہن و زبان و ثقافت کا ایک مکمل دور ختم ہو گیا ہے، خلا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا کہا خلا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں یاد آیا، مربی! تم نے خلا کی بات کی تھی بھائی، تم جس خلا کی بات کر رہے ہو، وہ خلا تو جون ایلیاء کی زندگی میں ہی پر ہو گیا تھا——
نشیان! پیارے، راج دلارے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کیسے ممکن ہے، یہ خلا کس نے پر کیا؟ کیسے ہوا، بھلا کیسے؟ یہ ان ہون، یہ ناممکن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ناممکن ہے—
نہیں مربّی! نہیں، تمہاری دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے لیکن تم نہیں مانو گے تم کیسے مان سکتے ہو بھلا کہیں اندرائن کے پیڑ میں بھی انگور کے خوشے لگے ہیں اچھّا! تم نہیں مانتے، چلو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں مان لیتا ہوں تو پھر سنو کہ یہ خلا تمہارے بونوں نے جون ایلیاء کی زندگی ہی میں پر کر دیا تھا—
پھر وہی نہیں——
ہاں نشیان! نہیں، نہیں، نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اچھا مربّی! تو پھر آج ہم اور تم اس بات کو آخری فیصلہ قرار دیتے ہیں کہ یہ خلا کبھی، کبھی، کبھی—
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پر نہیں ہو گا کیا تم اس بات سے اتفاق کرتے ہو مربّی! اگر ہاں تو پھر تمھارا شکریہ مربّی، ڈھیروں شکریہ!
(ماہنامہ سسپنس ڈائجسٹ دسمبر ۲۰۰۲ء)
____
سن لیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ تاریخ کے خلاف کبھی جنگ نہیں کی جا سکتی اور اگر جنگ کی جائے گی تو شرم ناک ترین شکست کا منہ دیکھنا پڑے گا— تم نے تاریخ کے خلاف جنگ کی اور اپنے اندر اور اپنے باہر شکست کھا گئے— جو مستقبل کی طرف قدم نہیں اٹھائے گا وہ ماضی کی طرف بری طرح دھکیل دیا جائے گا— امریکا اور اس کے اتّحادیوں کے ساتھ علم تھا، دانش تھی— حکمت اور عمل کا ایک طویل سلسلہ تھا— اس لیے ان کی دھاندلی جیت گئی—تمہارے ساتھ ایسا کوئی سلسلہ نہیں تھا، اس لیے تمہاری غلط کاری اور غلط کوشی کو تو سزا یاب ہونا ہی تھا— تم بتاؤ، جواب دو کہ ایسا کیوں نہ ہوتا؟ آخر تم نے تاریخ سے ایسا کون سا معاہدہ کیا ہے کہ تم وقت سے ہٹ کر چلو اور وقت تمہیں راستہ دے دے— عراق کی شکست جمہوریت کے مقابلے میں آمریت کی شکست ہے— علم کے مقابلے میں جہالت کی شکست ہے—
کیا ہنر کی نقّالی ہنر سے جیت سکتی ہے؟ کیا خریدی ہوئی مہارت حقیقی مہارت کا سامنا کر سکتی ہے؟ حیرت ہے کہ ہم یہ بات کیوں نہیں سوچتے اور یہ نقطہ کیوں نہیں سمجھتے؟ ہمیں اس حقیقت کا احساس کیوں نہیں ہوتا کہ ہم ایک ہزار برس سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری کے سوا اور کچھ نہیں کر رہے—
اپریل ۱۹۹۱ء—
____
اے کوئے یار، تیرے زمانے گزر گئے
جو اپنے گھر سے آئے تھے، وہ اپنے گھر گئے
اب کون زخم و زہر سے، رکھّے گا سلسلے
جینے کی اب ہوس ہے ہمیں، ہم تو مر گئے
اب کیا کہوں کہ سارا، محلّہ ہے شرم سار
میں ہوں عذاب میں کہ، میرے زخم بھر گئے
ہم نے بھی زندگی کو، تماشہ بنا دیا
اس سے گزر گئے کبھی، خود سے گزر گئے
__
زندانیانِ شام و سحر، خیریت سے ہیں
ہر لمحہ جی رہے ہیں مگر، خیریت سے ہیں
شہرِ یقیں میں اب کوئی، دم خم نہیں رہا
دشتِ گماں کے خاک بسر، خیریت سے ہیں
آخر ہے کون جو کسی پل، کہہ سکے یہ بات
اللّہ اور تمام بشر، خیریت سے ہیں
ہے اپنے اپنے طور پہ، ہر چیز اس گھڑی
مژگانِ خشک و دامنِ تر، خیریت سے ہیں
اب فیصلوں کا کم نظروں پر، مدار ہے
یعنی تمام اہلِ نظر، خیریت سے ہیں
پیروں سے آبلوں کا، وہی ہے معاملہ
سودائیانِ حال کے سر، خیریت سے ہیں
ہم جن گھروں کو چھوڑ کے، آئے تھے ناگہاں
شکوے کی بات ہے وہ اگر، خیریت سے ہیں
لُو چل رہی ہے، محو ہے اپنے میں دو پہَر
خاک اُڑ رہی ہے اور کھنڈر، خیریت سے ہیں
ہم اہلِ شہر اپنے، جوانوں کے درمیاں
جون! ایک معجزہ ہے اگر، خیریت سے ہیں
برباد ہو چکا ہے ہنر، اک ہنر کے ساتھ
اور اپنے صاحبانِ ہنر، خیریت سے ہیں
شکرِ خدا شہید ہوئے، اہلِ حق تمام
برگستوانِ تیغ و تبر، خیریت سے ہیں
اب اُس کا قصرِ ناز کہاں، اور وہ کہاں
بس در ہے اور بندۂ در، خیریت سے ہیں
شاعر تو دو ہیں، میر تقی اور میر جون
باقی جو ہیں وہ شام و سحر، خیریت سے ہیں
___
کب پتا یار کو ہم، اپنے لکھّا کرتے ہیں
جانے ہم خود میں کہ، نا خود میں رہا کرتے ہیں
اب تم شہر کے آداب، سمجھ لو جانی
جو مِلا ہی نہیں کرتے، وہ مِلا کرتے ہیں
جہلاء عِلم کی تعظیم میں، برباد گئے
جہل کا عیش جو ہے، وہ علماء کرتے ہیں
لمحے لمحے میں جیو، جان اگر جینا ہے
یعنی ہم حرصِ بقا کو بھی، فنا کرتے ہیں
جانے اس کوچۂ حالت کا ہے، کیا حال کہ ہم
اپنے حجرے سے، بہ مشکل ہی اُٹھا کرتے ہیں
میں جو کچھ بھی نہیں کرتا ہوں، یہ ہے میرا سوال
اور سب لوگ جو کرتے ہیں، وہ کیا کرتے ہیں
اب یہ ہے حالتِ احوال کہ، اک یاد سے ہم
شام ہوتی ہے تو بس، رُوٹھ لیا کرتے ہیں
جس کو برباد کیا اس کے، فدا کاروں نے
ہم اب اس شہر کی، رُوداد سنا کرتے ہیں
شام ہو یا کہ سحر اب، خس و خاشاک کو ہم
نذرِ پُر مایگیِ جیبِ صبا کرتے ہیں
جن کو مُفتی سے کدورت ہو، نہ ساقی سے گِلہ
وہی خوش وقت مری جان، رہا کرتے ہیں
ایک پہنائے عبث ہے، جسے عالم کہیے
ہو کوئی اس کا خدا، ہم تو دعا کرتے ہیں
___
جون! تمہیں یہ دور مبارک، دُور غمِ ایاّم سے ہو
اک پاگل لڑکی کو بھُلا کر، اب تو بڑے آرام سے ہو
ایک ادھوری انگڑائی کے، مستقبل کا خون کیا
تُم نے اس کا دل رکھّا یا، اس کے دل کا خون کیا
یہ جو تمہارا سحرِ تکلّم، حسن کو کرتا ہے مسحور
بانو، جمال آرا اور فضّہ کے، حق میں ہے اک ناسور
خونِ جگر کا جو بھی فن ہے سچ جانو، وہ جھوٹا ہے
وہ جو بہت سچ بول رہا ہے، سچ جانو وہ جھوٹا ہے
قتلِ سیزر پر انطوائی، جو کچھ بولا جھوٹ تھا وہ
یعنی لبوں نے جتنا کچھ، زخموں کو تولا جھوٹ تھا وہ
میّت پر سُہراب کی فردوسی نے، ناٹک کھیلا تھا
اس کے ہونٹوں پر تھے نالے، دل میں فن کا میلا تھا
حُسن بَلا کا قاتل ہو، پر آخر کو بیچارا ہے
عشق تو وہ قتّال ہے جس نے، اپنے کو بھی مارا ہے
یہ دھوکے دیتا آیا ہے، دل کو بھی دنیا کو بھی
اس کے جھوٹ نے خوار کیا ہے، صحرا میں لیلیٰ کو بھی
دل دکُھتا ہے کیسے کہوں میں، چل سے بے چل ہوتے ہیں
جذبے میں جو بھی مرتے ہیں، وہ سب پاگل ہوتے ہیں
تھی جو اک صیّاد تمہاری، ٹھہری ہے اک صیدِ زبوں
یعنی اب ہونٹوں سے مسیحا کے، رِستا ہے اکثر خون
خون کی تھوکن ہے جو تمہاری، کیا ہے وہ اک پیشہ کہ نہیں
تم ہو مسیحاؤں کے حق میں، قاتل اندیشہ کہ نہیں
فن جو جُز فن کچھ بھی نہ ہو، وہ اک مہلک خوش باشی ہے
کارِ سُخن پیشہ ہے تمہارا، جو خونی عیّاشی ہے
جون، ہو تم جو بند بَلا کے "عُشّاقی" میں چاق بھی ہو
تم جذبوں کے سوداگر ہو، اور ان کے قزّاق بھی ہو
عشق کی یاوہ سرائی آخر، رد بھی ہونا چاہیے نا
آخر کو بکواس کی کوئی، حد بھی ہونا چاہیے نا
میں جو ہوں باتوں کا ہوں میں، اک خاوند، اک خُدا
لڑکی کو پَرچانے کا فن، کس نے جانا میرے سِوا
جان، تمہی میرا سب کچھ ہو، جی نہیں سکتا میں تم بن
لمحوں کی پیکار ہے جن میں، بس ہوں سِسکتا میں تم بن
سُنتے ہو وہ جان تمہاری، بس اب گھر تک زندہ ہے
گھر کیا، وہ اُٹھ بھی نہیں سکتی، بس بستر تک زندہ ہے