8مارچ کو 29ممالک میں سرکاری طور پر چھٹی کا دن ہے۔یہ کوئی حادثہ نہیں کہ ان میں زیادہ تر ممالک وہ ہیں جن کی سرمایہ داری مخالف تاریخ ہے ان ممالک میں چین، کیوبا، ویت نام، سابقہ سوویت یونین کی ریاستیں، مشرقی یورپ اور افریقہ کے کچھ ممالک شامل ہیں۔
امیر ترین ممالک جن میں نارتھ امریکہ، یورپین ممالک
اور آسٹریلیا شامل ہیں، اس دن کو تسلیم نہیں کرتیں۔
یہ ایک اہم بات ہے کہ مزدوروں کے عالمی دن یکم مئی
اور عورتوں کے عالمی دن 8مارچ دونوں کو اس لیے عالمی سطح پر منایا جاتا ہے کہ امریکی محنت کشوں نے ان دونوں دنوں پر مختلف جدوجہد کا آغاز کیا تھا مگر امریکہ میں ہی ان دونوں دنوں کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا
8مارچ کا آغاز جفاکشی سے ہوا تھا۔ یہ محنت کش عورتوں کی جدوجہد کوخراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے منایا جاتا ہے یہ کہا جاتا ہے کہ 8مارچ 1857ء کو نیویارک سٹی میں ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کے شعبہ میں کام کرنے والی مزدور عورتوں کی ایک بڑی جدوجہد کا آغاز ہوا تھا۔ یہ وہی سال ہے جب برصغیر پاک و ہند میں انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی گئی تھی۔
دو سال بعد جدوجہد کرنے والی عورتوں کو یونین سازی کا حق مل گیا تھا۔ یہ عورتیں زبوں حال حالاتِ کار، کم تنخواہوں اور 12گھنٹے کام کے خلاف احتجاج کررہی تھیں۔ پاکستان میں یہ سب کچھ آج بھی ہورہا ہے اور عورتیں 16گھنٹے سے بھی زیادہ کام کرتی ہیں۔ مگر انہیں مناسب معاوضہ نہیں ملتا۔
8مارچ 1908ء کو سوشلسٹ عورتوں نے نیویارک میں 15 ہزار عورتوں کا ایک مظاہرہ منظم کیا، ان کا مطالبہ تھا کہ تنخواہیں بڑھائی جائیں، اوقاتِ کار کم کیے جائیں، ووٹ کا حق دیا جائے اور چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا جائے۔ اس روز کے بعد سوشلسٹ پارٹی امریکہ نے فیصلہ کیا کہ امریکہ میں آٹھ مارچ کو عورتوں کا دن منایا جائے گا، اس طرح پہلی دفعہ 8مارچ 1909ء کو اس دن کو منایا گیا۔
اس سے اگلے سال 1910ء میں ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں انٹرنیشنل سوشلسٹ کانگریس اور سیکنڈ انٹرنیشنل سوشلسٹ وویمن کانفرنس سے اسے عالمی سطح پر منانے کا اعلان کر دیا۔ اس کانفرنس کے شرکاء میں سوشلسٹ پارٹیز، کام کرنے والی عورتوں کے کلب اور یونینیں شامل تھیں۔ ان میں وہ عورت بھی شامل تھی جو تاریخ میں پہلی دفعہ فن لینڈ کی پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں امریکی مندوبین یہ تجویز لے کر آئے تھے کہ آٹھ مارچ کو عورتوں کا عالمی دن منایا جائے گا۔ مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان سے پہلے ہی کلارا زیٹکن جو کہ جرمن سوشلسٹ پارٹی کی ممتاز راہنما تھی نے پہلے ہی یہ قرار داد تیار کررکھی تھی۔ کلارازٹیکن کی عورتوں
کے حقوق کے تحفظ کی ایک اپنی تاریخ موجود تھی۔
17ممالک سے آئی ہوئی عورت مندوبین نے متفقہ طور پر اس روز کو عالمی دن منانے کا اعلان کر دیا۔ اس سے اگلے سال 8مارچ 1911ء کو 10لاکھ سے زائد محنت کشوں اور عورتوں نے جرمنی، آسٹریلیا، ڈنمارک اور سوئٹزر لینڈ میں مظاہروں میں شرکت کی۔ اس روز کو منانے کا ایک اور جواز 25مارچ 1911ء کو نیویارک کی ٹرائی اینگل شرٹ ویسٹ فیکٹری میں ہونے والے ایک واقعہ سے نظر آیا۔ فیکٹری میں آگ لگ گئی اور مناسب حفاظتی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے 146محنت کش آگ میں جل کر ہلاک ہو گئے۔ ان میں زیادہ تر عورتیں تھیں۔ یہ ایک عالمی سکینڈل بن گیا اور جس کی وجہ سے انٹرنیشنل لیڈیز کارمنٹ ورکرز یونین کا قیام عمل میں آگیا۔ یہ امریکہ کی پہلی عورت یونین تھی جو امریکہ میں بڑی یونینوں میں شمار ہو گئی۔
1913-14ء میں جب پہلی عالمی جنگ عظیم کی شروعات کے آثار نظر آرہے تھے۔ یورپ میں عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر لاکھوں لاکھوں افراد نے امن کے لئے مظاہرے کئے۔ پہلی جنگ عظیم کا آغاز اگست 1914ء میں ہوا۔ جس کی وجہ سے اگلے سات سال سرمایہ دار ممالک اور یہاں پر موجود سوشلسٹ پارٹیوں نے 8مارچ کو نہ منایا اور اس دن کو دبا دیا گیا تاکہ عورتوں کی عالمی یکجہتی نہ بن سکے اور وہ اپنے اپنے ممالک کی سرمایہ دار حکومتوں کی جنگی کوششوں کی حمایت کر سکیں۔
پھر ایک انقلابی ابھار آیا۔ 8مارچ 1917ء کو عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر روس کی عورتوں نے کمال کر دکھایا۔ اس کی کہانی سوویت یونین کے سوشلسٹ انقلاب کے معمار لیون ٹراٹسکی نے اپنی تاریخی کتاب’’روسی انقلاب کی تاریخ‘‘ میں بیان کی ہے۔ عورتوں نے سرکشی کا آغاز کیا اور بہت مضبوط ترین زارشاہی آمریت کا خاتمہ کر دیا اور صرف آٹھ ماہ بعد بالشویک سوشلسٹ انقلاب کامیاب ہو گیا۔
پیٹرز برگ کی ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں کام کرنے والی عورتیں غصہ میں تھیں کیونکہ خوراک کی قلت تھی اور جنگ میں لاکھوں روسی مارے جا چکے تھے۔ عورتوں نے ہڑتال شروع کر دی اور دوسری فیکٹریوں کے مزدوروں کو ساتھ شامل ہونے کو کہا۔ ہڑتال اور مظاہرے پہلے روز سے ہی بڑھنے لگ گئے اور 5دنوں میں زارشاہی حکومت کا دھڑن تختہ ہو چکا تھا۔
عورتوں کا عالمی دن صرف جشن منانے کا ہی نام نہیں۔ یہ جدوجہد کا تجدید عہد بھی ہے۔2007ء میں ایران کے اندر عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر ہونے والے مظاہرے کو پولیس نے جبراً روک دیا اور درجنوں عورتوں کو گرفتار کر لیا۔اس روز کی ایران میں ایک پوری تاریخ ہے۔ 8مارچ 1979ء کو انقلاب کے دوران جس میں امریکی سامراج کی پشت پناہی پر چلنے والی شاہ پہلوی آمریت کا خاتمہ ہو گیا تھا اور خمینی کی رائٹ ونگ حکومت اقتدار میں آچکی تھی ایک لاکھ سے زائد عورتیں اور مرد تہران یونیورسٹی میں اکٹھے ہوئے۔ اس وقت 20 ہزار عورتوں نے جنہوں نے عام لباس پہنے ہوئے تھے اور برقعہ اور نقاب نہیں کیا ہوا تھا وہ تہران کی سڑکوں پر آگئیں۔مظاہرے دوسرے شہروں میں بھی ہوئے۔ عورتوں نے مساوی حقوق کا مطالبہ کیا اور یہ بھی کہا کہ یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ جس قسم کا چاہئیں ڈریس پہنیں۔ مذہبی عناصر نے ان کو منتشر کر دیا لیکن چند روز کی مسلسل مدافعت کے بعد۔
1977ء میں پرتگال کے انقلاب میں عورتوں نے بینکوں کو قومیائے جانے کی تحریک میں اہم کردار اد اکیا۔ عورتوں نے 1980ء کی دہائی میں لاطینی امریکہ میں اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان میں 12 فروری 1983ء کو آٹھ مارچ سے چند روز قبل عورتوں نے ضیاء آمریت کے خلاف زبردست احتجاج کیا اور پولیس گردی کا شکار ہوئیں۔ عورتوں کو مارا پیٹا گیا۔ گرفتاریاں کی گئیں مگر فوجی آمریت کے خلاف عورتوں کی یہ شاندار جدوجہد تھی۔ اس روز کو پاکستان کی عورتوں کا دن منایا جاتا ہے۔
مارچ 2009ء میں عورتوں نے ہنڈارس میں مینوئل زیلایا کو جلاوطن کرنے اور فوجی آمریت مسلط کرنے کے خلاف زبردست جدوجہد کی۔ امریکہ میں 1960ء کی دہائی سے ہی ایک بڑی عورتوں کی تحریک نے ریڈیکل مقاصد کے لیے جدوجہد کی کچھ اصلاحات ہوئیں اور رویوں میں بھی تبدیل آئی۔ مگر ان مقاصد کو پورا کرنا آج بھی باقی ہے۔
عورتوں کے انقلابی کردار کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے آٹھ مارچ کا دن عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ بغاوت تھی ان عورتوں کو جو معاشرہ کی آخری صفوں میں تھی اور برابری کے حقوق کے لیے آگے بڑھنے کی خواہش نے ان کو جدوجہد کے زینہ پر لاکھڑا کیا۔ وہ اپنی آزادی کے ساتھ ساتھ انسانیت کی آزادی کی جدوجہد بھی کررہی ہیں۔
پاکستان میں عورتوں کا عالمی دن بھی جوش و خروش سے منایا جارہا ہے۔ یہ دن ایک تجدید عہد ہے محنت کش عورتوں کی معاشی و سیاسی و ثقافتی آزادی کی جدوجہد سے یکجہتی کا۔ یہ عورتوں کا دن ہے۔ جشن بھی اور جدوجہد بھی۔ دونوں کو اکٹھا اور لازم و ملزم کرنا ہی اس دن کا مشن ہے۔
(نوٹ اس مضمون کے لکھنے میں بنیادی مدد Megon Cornish کی تحریروں سے لی گئی ہے جسے پہلی دفعہ امریکہ کی فریڈم سوشلسٹ پارٹی (FSP) نے شائع کیا۔)