پاکستان کےبزرگ ترین ادیب، مترجم، معلم اور دانشورمحمد ابراہیم جویو کو رخصت ہوئے تین برس بیت گئے۔ ان کے فکر و فلسفہ نے سندھ کے سیاستدانوں، دانشوروں ، ادیبوں اور عوام کی بڑی تعداد کو متاثر کیا ۔
محمد ابراہیم جویو 13 اگست، 1915ء کو گوٹھہ آباد، ضلع دادو، سندھ، میں پیدا ہوئے۔ سندھ مدرسۃ الاسلام، ڈی جے کالج اور بمبئی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ 1941ء میں سندھ مدرسۃ الاسلام سے بطور استاد وابستہ ہوئے۔ اسی زمانے میں ایک کتاب Save Sindh Save Continent لکھنے کی پاداش میں ملازمت سے برطرف کردئیے گئے۔
کوئی ستر سال بعد سندھ مدرسہ یونیورسٹی نے انہیں بحال کرکے خراجِ تحسین پیش کیا۔
محمد ابراہیم جویو1951ء میں سندھی ادبی بورڈ حیدرآباد کے سکریٹری بنے اور ایک طویل عرصے تک اس ادارے سے وابستہ رہے
محمد ابراہیم جویو ایک صاحب ِ اسلوب نثرنگار اور مترجم تھے، ان کے سرمایۂ نقدونظر میں منطق، فلسفہ، تاریخ، شاعری اور انقلابی ادب کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے اپنے تراجم کے ذریعے سندھی ادب کو جدید فکرو نظر سے مالامال کیا ہے ان کے موضوعات کے تنوع اور فکری جہد کا اندازا ان عنوانات سے لگایا جاسکتا ہے۔ اسلام کا تاریخی کارنامہ، بچوں کی تعلیم، فکر ی آزادی، گلیلیوکی زندگی، بچوں کا مسیح، مظلوموں کی تعلیم وتدریس، سماجی ابھیاس، شاعری کے سماجی تقاضے، جدید دور میں بین الاقوامی تعاون کا مسئلہ، باغی، غریبوں کا نجات دہندہ، بھٹو کی زندگی اور عہد اور پاکستان: خواب اور حقیقت۔ منظومات میں عنوانات کا پھیلائو دیکھیے، اُو سندھ، محنت کش کے غم محنت کش کے یا ر، آپ اپنی پرستش کرنے والے۔ اس کے ساتھہ ہی انہوں نے جی ایم سید، عبد ﷲ دائودپوتہ، پیر حسام الدین راشدی اور دیگر اہم علمی وادبی شخصیات کے خاکے بھی لکھے
محمد ابراہیم جویو بحیثیت نقاد اپنے مہاگوں یعنی پیش لفظ اور مقدمہ نگاری میں اُبھر کر سامنے آتے ہیں، جن میں مصنف کی حوصلہ افزائی، فنی مستقبل کی پیش گوئی کے ساتھ غیرجانبدارانہ اصلاحی اظہاریہ ہوتا ہے۔ ان کے لکھے ہوئے پیش لفظوں میں بین السطور ان کا نظریاتی پرچار واضح طور پر جھلکتا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ خیال ولفظ کا رشتہ ان کے قلم سے قرطاس پر منتقل ہوکر نظریاتی ادب کا لطیف حصہ بنتے ہیں
انہوں نے بین الاقوامی ادب کے شہ پاروں کو جس چابک دستی اور زبان وبیان کی لطافت کے ساتھہ سندھی ادب کا حصہ بنایا ہے، اس سے اذہان سازی میں جو انقلاب پیدا ہوا وہ ترقی پسند تحریک، روشن خیالی اور انسان دوستی کی ایسی راہوں کی کشادگی کا سبب ہوا کہ جس پر آج سندھ ہر باشندہ محمد ابراہیم جویو کا احسان مند ہے.
ان کی اہم تصانیف یہ ہیں
Save Sindh Save Continent
بارن جو مسیح (ترجمہ)
شاہ سچل ائیں سامی
ماٹھوء جو بھاگ (کہانیاں)
مھکریء جا مضمون (سماجیات)
فکر جی آزادی (سیاسیات)
وحشی جیوت جا نشان (حیوانیات)
تاریخ پاکستان (تاریخ)
حکومت پاکستان نے انہیں 14 اگست 2009ء کو صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی اور 2013ء میں اکادمی ادبیات پاکستان نے کمال فن ایوارڈ دیا.
“