رائے دینے کو ایک قیمتی امانت کامقام ومرتبہ حاصل ہے۔اس امانت کاحق اداکرنے میں آزادی کا کرداربہت اہم ہے۔رائے کی آزادی سے درست نتیجے تک پہنچنابہت آسان ہوجاتاہے۔معاملات میں مشورے کے پیرائے میں رائے کااظہار اللہ تعالی کی سنت ہے۔اللہ تعالی نے تخلیق آدم کے وقت قادرمطلق ہونے کے باوجودفرشتوں سے رائے مانگی۔پس آزادی رائے اپنی قدامت میں انسان سے بھی قدیم ہے۔فرشتوں نے اس آزادی سے بھرپور اورجائزفائدہ اٹھایاتھااوراپنی رائے کااظہار کھل کرکیاتھا۔اللہ تعالی نے اپنی آخری کتاب جیسے مسودے میں محبوب یزداں ﷺ جیسی ہستی کو مشورے کاحکم دیاتاکہ مومنین آزادی رائے سے اپنا موقف پیش کرسکیں۔ چنانچہ قرآن مجید نے فرمایا فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ وَ لَوْکُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَ شَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ(۳:۹۵۱)ترجمہ:”اے نبیﷺیہ اللہ تعالی کی بڑی رحمت ہے کہ آپﷺ ان لوگوں کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے ہیں،ورنہ اگرآپ تندخواور سخت دل ہوتے تویہ سب آپﷺ کے گردوپیش سے چھٹ جاتے،ان کے قصورمعاف کردیاکریں،اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھاکریں پھرجب کسی تمہاراعزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تواللہ تعالی پربھروسہ کریں،اللہ تعالی کووہ لوگ بہت پسند ہیں جواسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں“۔ سیرت النبی ﷺ کے مطالعے سے پتہ چلتاہے کہ متعدد معاملات میں ختمی مرتبتﷺنے اپنی رائے کی قربانی دیتے ہوئے اس کے برخلاف رائے کو قبول فرمایا۔اسی طرح اللہ تعالی نے اسلامی نظام سیاست میں بھی مومنین کو باہمی مشورے کاحکم دیا تاکہ ہر صائب الرائے مسلمان آزادی سے اظہار موقف کر سکے۔اللہ تعالی نے فرمایا وَ الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّہِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ وَ مِمَّا رَزَقْنٰہُم یُنْفِقُوْنَ(۲۴:۸۳) ترجمہ:”جواپنے رب کا حکم مانتے ہیں،نمازقائم کرتے ہیں،اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں اورہم نے جوکچھ بھی رزق انہیں دیاہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں“۔
اسلام نے رائے دینے کے آداب بھی سکھائے ہیں۔ان آداب میں سب سے پہلاادب آزادی رائے اور حکم میں فرق کرناہے۔اللہ تعالی نے فرشتوں کو آزادی رائے دی تھی اور انہوں نے اپنی مرضی سے رائے دی اگرچہ وہ منشائے ایزدی کے خلاف تھی اور بارالہ نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیاتھا۔اس کے مقابلے میں اللہ تعالی نے ابلیس کو حکم دیاتھا لیکن اس نے اسے اظہاررائے کی آزادی سمجھتے ہوئے اختلاف کاراستہ اپنایااور راندہ درگاہ ہوا۔صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین بھی انتہائی ادب و احترام سے پہلے استفسار کرتے تھے کہ کیایہ حکم ہے؟؟؟جب آپﷺ فرماتے کہ نہیں یہ حکم نہیں ہے تب اصحاب رسول اپنی رائے کااظہار فرماتے تھے۔اس عمل آزادی اظہار رائے کی متعدد مثالیں موجود ہیں جن کی اکثریت غزوات کے دوران مشاورت سے متعلق ہے۔قرآن مجید نے بھی آزادی رائے کااختیاردیتے ہوئے یہ اصول سمجھایا کہ اِنَّ اللّٰہَ یَاْ مُرُکُمْ اَنْ تُؤَئدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا َیعِظُکُمْ بِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا(۴:۸۵)ترجمہ:”مسلمانو،اللہ تعالی تمہیں حکم دیتاہے کہ امانتیں اہل ترافرادکے سپرد کیاکرواورجب لوگوں کے درمیان فیصلہ کروتوعدل کے ساتھ فیصلہ کرو،اللہ تعالی تم کونہایت عمدہ نصیحت کرتاہے اوریقیناََاللہ تعالی سب کچھ سنتااوردیکھتاہے“۔اس اصول نے آزادی رائے کو حق کے ساتھ مقید کردیاہے۔قرآن کی بہترین تفسیر وہی ہوتی ہے جو نبیﷺ نے فرمائی ہو،چنانچہ ایک حدیث مبارکہ میں فرمایا ”المستشارموتمن(ترمذی)ترجمہ:”جس سے مشورہ کیاجائے وہ امانت دارہے“۔پس اس آیت کو مذکورہ حدیث کی روشنی میں مطالعہ کیاجائے تو امانت سے ایک مراد رائے دہی بھی ہے۔خاص طور پر آیت کے وسط میں جب کہاگیاکہ لوگوں کے درمیان عدل سے فیصلہ کروتو انتخابات میں متعددامیدواروں میں سے کسی ایک کوخاندان،برادری،سیاسی جماعت،مفادات یا کسی بھی اوربنیاد کی بجائے صرف عدل کی بنیادپر رائے دینا قرآن مجید کاحکم ہوا۔یادرہے کی امانت میں خیانت منافق کی نشانیوں میں سے ہے اور منافق دوزخ میں کافروں سے بھی زیادہ عذاب میں ہوگا۔
مسلمانوں نے ایک ہزارسال اس دنیاپر حکومت کی ہے۔اگرچہ بادشاہت کادورتھا لیکن آزادی رائے اوراس کاحترام بھی بڑی حد تک موجود تھا۔آزادی رائے کے باعث ہی اس دور کے تاریخی تنازعات بڑی تفصیل کے ساتھ ہم تک پہنچے ہیں۔مورخین نے کھل کر اپنی قلم کو تحریک دی اور حکمرانوں کے خلاف اٹھنے والی تحریکات کو اپنے مسودات میں جگہ دی۔”شیخ الماوردی“تاریخ اسلام کے مایہ ناز مصنف ہیں،ان کی معرکۃ الآراتصنیف”الاحکام السلطانیہ“جو اسلامی نظام آئین و حکمرانی وسیاست پرایک جامع اور مبسوط کتاب ہے جس کے بیس ابواب میں فاضل مصنف نے جملہ صیغہ ہائے حکومت جیسے امارت،والیان ریاست،شرطہ،فوج،حسبہ،قضا،تحصیل زکوہ وعشروخمس وخراج و جزیہ وغیرہ،حدودوتعزیرات اور وقف وغیرہ پر تفصیلی مباحث کی ہیں۔اس کتاب کے مقدمات میں انہوں نے پانچ مقاصد شریعہ گنوائے ہیں جن میں سے ایک ”حفظ عقل“بھی ہے جس کی تشریح میں وہ لکھتے ہیں کہ اس سے مراد آزادی رائے ہے اور اسی کے ذیل میں اسلامی ریاست میں دیگر اہل مذاہب کی مذہبی آزادی بھی داخل ہے جنہیں اقلیت کہ کر ان کی توہین نہیں کی گئی بلکہ ذمی کہ کرانہیں اپنی ذمہ داری قراردے کران کاحق اداکیاگیاہے۔خلافت راشدہ سے خلافت عثمانیہ تک ہردورمیں ایک اختلافی گروہ ہمیشہ موجودرہاہے جس کاایک پہلواگرچہ مسلمانوں میں جرات اظہار ضرورہے لیکن دوسرے پہلو آزادی رائے سے بھی صرف نظرنہیں کیاجاسکتا۔اسلام کادیاہوایہ نظام آزادی اظہار ورائے دہی انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔
آزادی رائے کاایک تصور سیکولرمغربی تہذیب سے بھی درآمدکیاگیاہے۔اس تصورنے سیاست کے مقدس شیوے کو مکروہ پیشے سے بدل دیاہے گویایہ جمہوریت بدعنوانی کی ماں بن کرسامنے آئی ہے۔سیکولرنام نہادجمہوریت نے آزادی رائے کے پہناوے اتارکر اسے مادرپدرآزادی بنادیاہے۔مغربی تصور آزادی رائے کی حقیقت انسانی فطرت سے ٹکراؤکی مترادفات ہے۔فی زمانہ اسلامی ممالک نے مغربی نظام سیاست کواپنے معاشروں میں لاگو کر کے فسادات حیات کوہوا دی ہے۔اسلامی تصورحیات اور سیکولر طرزحیات میں بہت سارے متفرقات میں سے ایک فرق یہ بھی ہے کہ اسلام نے معاشرے کے تمام طبقات کو فرائض کی بجاآوری پر جمع کر دیاہے، چنانچہ نمازمیں سب طبقات اکٹھے ہوگئے،زکوۃ میں امیروغریب اکٹھے ہوگئے،روزہ سب کے لیے ایک ہی وقت میں شروع ہوااورایک ہی وقت میں ختم ہوگیا،حج و قتال میں اتحاداسلامیہ ظلم کے خلاف برسرپیکارہوگیا۔اس کے برخلاف سیکولر تہذیب نے حقوق کے استحصال پر معاشرے کے تمام طبقات کو باہم دست و گریبان کر دیا،طلبہ کے حقوق تواساتذہ سے لڑو،مزدوروں کے حقوق تومل مالکان سے لڑو،عوام کے حقوق تو حکمرانوں سے لڑو،عورتوں کے حقوق تو مردوں سے لڑواوریہ بات ذہن نشین کرادی کہ حقوق مانگ نہیں ملتے چھین کرحاصل کیے جاتے ہیں پس لڑتے چلے جاؤ۔گویا درآمدشدہ سیکولر مغربی تہذیب ”لڑاؤاورحکومرت کرو“کے اصول دیتی ہے۔یہی اصول جب نظام سیاست میں آزادی رائے کے عنوان سے داخل ہوتے ہیں تو انتخابات”لڑے“جاتے ہیں کیونکہ یہاں آزادی سے مراد”لڑنا“ہے۔ایک ہی گلی محلے کے لوگ انتخابات”لڑتے“ہیں،ایک ہی برادری کے لوگ انتخابات”لڑتے“ہیں،ایک ہی مذہب ودین و ملت کے لوگ انتخابات”لڑتے“ہیں اورایک ہی قوم کے افراد انتخابی معرکہ میں باہم صف آرا ہوتے ہیں۔اس پر مستزادیہ کہ یہی منتخب لوگ جب پارلیمان میں جاتے ہیں تووہاں کی لڑائیاں بھی آئے روزاخبارات میں نقل کی جاتی ہیں اور زیادہ لڑنے والا پارلیمانی راہنما،حزب مخالف پر کیچڑ اچھالنے والا،ان کے کپڑے اتارنے والااوران کی ذاتی وخانگی زندگی کے اخفیات ومحرمات تک کوبازاروں کی زینت بناکرپگڑیاں اچھالنے والا اس سیکولر جمہوری سیاسی نظام میں بطل حریت بن کر ابھرتاہے۔جب ان لڑائیوں،دنگااورفساداور نہ ختم ہونے والی بے مقصداور بے پناہ اخراجات کی حامل جنگ قوم کے لیے ناقابل برداشت ہونے لگتی ہے توان مکروہات و مغلظات وبدبوداررویوں کو جمہوریت کاحسن قراردے دیاجاتاہے۔اس نظام سے چونکہ ایک خاص طبقے کے مفادات وابسطہ ہوتے ہیں اور اس طبقے کے افراد حزب اقتداروحزب اختلاف دونوں میں موجود ہوتے ہیں اس لیے وہ مل کرقوم کو بے وقوف بناتے ہیں اور اکثریت کواپنے ساتھ ملانے کے دعووں کی بنیادپرملکی و قومی اداروں سے اپنے لیے مجبوراََناجائزحمایت حاصل کرلیتے ہیں۔اسی طرح کی اکثریت کے بارے میں قرآن مجیدنے کہاہے کہوَ اِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضَ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ ہُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ(۶:۶۱۱) ترجمہ:”اے نبی ﷺ اگرآپ ﷺان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلیں جوزمین میں بستے ہیں تووہ آپﷺکواللہ تعالی کے راستے سے بھٹکادیں گے،موہ تومحض گمان پرچلتے ہیں اورقیاس آرائیاں کرتے ہیں“۔
آزادی رائے جیسے میٹھے پھل کادرخت صرف سرزمین اسلام سے ہی اگ سکتاہے اور شریعت اسلامیہ کی آب و ہوامیں ہی پرورش پاسکتاہے اور سنت نبویﷺ اور سنت خلفائے راشدین کا آب حیات ہی اس پھل میں شیرینی کاباعث بن سکتے ہیں۔آپﷺ کے جدامجد قصی بن کلاب نے سرزمین مکہ پر ابتدائی طرز کی ایک مشورہ گاہ بنائی تھی جہاں آزادی رائے کا حق استعمال کیاجاتاتھااور آزادی اظہارباعث احترام تھی۔یہ مشورہ گاہ ایک خاص چاردیواری کے اندر تھی جسے ”دارالندوہ“کہتے تھے۔یہاں فیصلے کی بنیاداکثریت ہوتی تھی۔اس چاردیواری سے باہر ہزاروں پر بھاری پہلوان یا قبیلوں کے خاندانی سردارجب دالندوہ میں داخل ہوتے تھے توان کے پاس صرف ایک رائے دہندہ کااختیاررہ جاتاتھاجسے وہ جملہ معاملات میں رائے دینے کے لیے استعمال کر سکتے تھے۔کسی بھی اجتماعی معاملے پر کھل کر بحث ہوتی تھی،اختلافات واتفاقات بغیر کسی حیل و حجت وبلا خوف وخطر بیان کیے جاتے تھے اورپھر اتفاق رائے یاکثرت رائے سے فیصلہ کرلیاجاتاتھا۔دارالندوہ میں کیے جانے والے فیصلوں کے نفاذ میں پھر کوئی رکاوٹ واقع نہیں ہوتی تھی اوروہ مکہ جیسی مقدس وادی میں ہرکس و ناکس پر جاری ہو جاتے تھے۔آزادی رائے کی اس مجلس میں بیٹھنے کی صرف ایک ہی شرط تھی،مکہ مکرمہ کی بستی کاجو شخص بھی چالیس سال کی عمر کو پہنچ جاتااسے اس مجلس مشاورت میں بیٹھ کر رائے دینے کاحق حاصل ہو جاتا۔بعد میں حکم الہی نے بھی اس روایت کی توثیق کر دی اور ٹھیک چالیس سال کی عمر مبارک میں وحی کی آمد کاسلسلہ شروع ہوگیا۔اللہ تعالی نے قرآن مجیدمیں چالیس سال کی عمر کوایک سند کی حیثیت میں پیش کیاہے اور فرمایا وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بَوَالِدَیْہِ اِحْسٰنًا حَمَلَتْہُ اُمُّہ‘ کُرْہًا وَّ وَضَعَتْہُ کُرْہًا وَ حَمْلُہ‘ وَ فِصٰلُہ‘ ثَلٰثُوْنَ شَہْرًا حَتّٰی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہ‘ وَ بَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَ اَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَ اِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(۶۴:۵۱)ترجمہ:”ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ وہ والدین کے ساتھ نیک برتاؤکرے،اس کی ماں نے مشقت اٹھاکراسے پیٹ میں رکھااورمشقت اٹھاکرہی اس کو جنااوراس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے،یہاں تک کہ وہ اپنی پوری طاقت کو پہنچااور چالیس سال کاہوگیاتواس نے کہااے میرے رب تومجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کاشکراداکروں جو تونے مجھے اور میرے والدین کو عطا کیں اورایسانیک عمل کروں کہ جس سے توراضی ہواورمیری اولاد کو بھی نیک بناکرمجھے سکھ دے،میں تیرے حضورتوبہ کرتاہوں اورتابع فرمان(مسلم)بندوں میں سے ہوں“۔
درج بالا حقائق کی روشنی میں رائے دہندگی کے نظام کی اصلاح کر کے تومفید نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔اٹھارہ سال کی عمر لاابالی اورجذباتی عمر ہوتی ہے۔خاندان کے بڑے بڑے معاملات میں اٹھارہ سالہ نوجوانوں کی رائے کوقبول نہیں کیاجاسکتابلکہ بعض حساس معاملات کی مباحث میں توانہیں اٹھاکر باہر ہی بھیج دیاجاتاہے۔ایسے میں اعلی ترین ملکی معاملات میں ان کی رائے کونہ صرف یہ کہ قبول کرنا بلکہ ان کی رائے کواور جہاں دیدہ بزرگوں کی رائے برابری کامقام دینا کلیۃ خلاف عقل ہے۔رائے دہندہ کی عمر چالیس سال ہوگی تو اخراجات میں بے پناہ بچت سے اعلی درجے کے بالغ نتائج حاصل کیے جائیں گے۔اٹھارہ سالہ نوجوان جعلی رائے دہندہ کی حیثیت سے جتنی دفعہ صندوق میں پرچی ڈالے گااسے فخرسے بیان کرے گاجب کہ چالیس سالہ شخص کے لیے یہ امر باعث شرم ہوگا۔ویسے بھی فی زمانہ ایک گھرانے کی آراء ایک ہی طرف جاتی ہیں تو صرف سربراہ خانہ کی رائے لے کر فیصلہ کرنے میں ہی دانشمندی ہے۔اٹھارہ سالہ نوجوان مصنوعی تشہیرسے بآسانی بے وقوف بنایاجاسکتاہے بلکہ بنایاجاتارہاہے جب کہ چالیس سال کی عمر صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی بلوغت کی عمر ہے جہاں کسی کو بے وقوف بنانا اتناآسان نہیں پس جسمانی بلوغت کی بجائے ذہنی بلوغت کی بنیادپر ہونے والے انتخابات ہی بچگانہ نتائج کی بجائے بالغانہ نتائج کے حامل ہو سکتے ہیں۔جب انتخابات میں رائے دینے والا چالیس سال سے کم عمرنہیں ہوگا تو ظاہر ہے منتخب کیے جانے والانمائندہ تواس سے بڑی عمر کاہی ہوگا۔
موجودہ رائج نظام کا ایک اورغیرفطری امر یہ ہے کہ اگر پانچ امیدوار انتخابات میں کھڑے ہوں اور چارامیدواروں کوپچیس پچیس ہزار افراد اپنی رائے دیں جوایک لاکھ ہو ئے، اورایک امیدوارکو چھبیس ہزار افراداپنی رائے میں مناسب سمجھیں تو ایک لاکھ کے مقابلے میں چھبیس ہزاروالا منتخب ہو گا،جب کہ فی الاصل یہ اکثریت کی بجائے اقلیت کانمائندہ ہے۔اس طرح ایک لاکھ رائے دہندگان کی رائے ضائع ہو گئی اور چھبیس ہزارافراد کی رائے کو تسلیم کرلیاگیا۔یہ قوم کے ساتھ اور نظام کے ساتھ سنگین مذاق ہے۔اس کا حل یہ ہے کہ رائے دہندہ کی پرچی پرسیاسی جماعتوں کے نام تحریرہوں،ہررائے دہندہ اپنی مرضی کی جماعت کو رائے دے۔پھر جس جماعت کوجتنے فیصدرائے دہندگان اپنی رائے دیں پارلیمان میں اتنے فیصدنمائندگی اس جماعت کو مل جائے۔ایک ہی دفعہ کے انتخابات مرکز،صوبہ،ضلع اور تحصیل کی سطح پر کافی ہوں گے اور یہ نتائج پانچ سالوں تک مفیدرہیں گے۔چھوٹی سی قانون سازی سے اس نظام کاایک جزوی افادہ یہ بھی ہوگاکہ جو سیاسی جماعت ملک کے تمام اضلاع سے رائے حاصل نہیں کر سکے اسے منظرعام سے ہٹادیاجائے گا۔اس طرح چھوٹے چھوٹے لسانی،علاقائی،مذہبی اور نسلی گروہوں کی نمائندگی ختم ہوجائے گی اور سیاسی آکاس بیلیں ایک ہی جھٹکے میں اپنے انجام کو جا پہنچیں گی جب کہ قومی حمایت یافتہ سیاسی جماعتیں ہی قومی نمائندگی کی حامل ہو سکیں گی اور قوم کے ایک ایک رائے دہندہ کو پارلیمان میں نمائندگی مل پائے گی اور ایک فیصدآراء بھی ضائع نہیں ہوں گی۔
سیاسی نظام کی طرح اسی طرح معاشی،معاشرتی،تعلیمی اور دیگرسماجی شعبوں میں بھی جب قرآن و سنت سے راہنمائی حاصل کی جائے گی تو نظام کی اصلاح ہوتی چلی جائے گی۔مغرب کواپنا قبلہ بنانے سے اور سیکولرازم کی خرافات کی اپنے معاشروں میں دراندازی سے تباہی و بربادی اورمایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔کیااب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے رب کی پلٹ آئیں؟؟؟آخرکب تک ہم اپنی موجودہ و آمدہ نسلوں کو انگریزی نظام تعلیم کے ذریعے سیکولرازم کی تعلیمات پڑھاپڑھاکرانہیں ذہنی مفلوج،فکری پسماندہ اور تخلیقیت سے محروم کر کے تو غلامی کی مہیب غارمیں دھکیلتے رہیں گے؟؟؟آخر کب تک ہمارے ہاں جنم لینے والا ایک ایک بچہ سرمایادارانہ نظام معیشیت میں سود ی بیڑیوں وہتھکڑ یوں میں جکڑاہوا جنم لیتارہے گا؟؟؟اور آخرکب تک ہمارے نوجوان ایشیاء کے بدترین جاگیردارانہ نظام میں نسل در نسل استحصالی طبقوں کے جھنڈے اٹھاکر زندہ باد کے نعرے لگاتے لگاتے مایوسی کاکفن اوڑھے قبروں میں جا لیٹیں گے؟؟؟بس اب برداشت ختم ہورہی ہے اور استعمار اپنی اکھڑی ہوئی آخری سانسیں لیے اپنے ہی ہاتھوں سے تیارکیے ہوئے تابوت میں ہمیشہ کے لیے دفن ہونے والا ہے اور نکلتاہوا سورج امت مسلمہ کی عظمت کاروشن سویرالیے طلوع ہواچاہتاہے جس کے نورہدایت میں کل عالم انسانیت کے لیے آسودگی و راحت اور امن عالم کی ضمان عیاں ہے،ان شااللہ تعالی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...