بھوک مٹانے کے لیے کیا ضروری ہے؟ سادہ خوراک جو آدمی اور اس کے اہل و عیال کو زندہ رکھ سکے‘ توانائی دے اور معدے پر بوجھ نہ بنے۔ بس یہ ہے جو ضروری ہے۔ لیکن افسوس ! بات اس سے بہت آگے بڑھ گئی۔
پہلے تو انسان نے وہ سب کچھ اکٹھا کرکے اپنے دستر خوان پر ڈھیر کرلیا جو زندہ رہنے کے لیے ضروری تھا نہ توانائی دینے کے لیے۔ سالنوں، پلائو، بریانیوں اور کبابوں کی لاتعداد اقسام۔ نہاری، پراٹھا، باقر خوانی، قتلمہ، حلیم ، کوفتہ ۔ گوشت کے لیے کبوتر، تیتر ، مرغابی ، ٹرکی، ہرن، خرگوش۔ مشروبات کے انتظام کے لیے آبدار رکھے گئے۔ میوہ جات دنیا بھر سے منگوائے جانے لگے۔ بیڈ ٹی کے لیے الگ ملازم رکھے گئے۔ باورچی خانے کا خرچ سماجی مرتبے کو متعین کرنے لگا۔ یہ کہا جانے لگا کہ فلاں کے کچن کا خرچ اتنے لاکھ روزانہ ہے۔ پھر دستر خوان پر رکھی جانے والی خوراک کی مقدار اتنی بڑھا لی گئی جو کئی انسانوں اور کئی خاندانوں کو زندہ رکھ سکتی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے لوگ بھوکے رہنے لگے۔ پھر ذخیرہ کرنا شروع کردیاگیا۔ کل کے لیے ، اگلے ہفتے کے لیے ، اگلے سال کے لیے ، پھر پوری زندگی کے لیے اور پھر آنے والی کئی نسلوں کے لیے۔
پھر بات اور آگے بڑھ گئی۔ قیمتی برتن جمع ہونے لگے۔ چاندی کے برتن، سونے کے برتن، درآمد شدہ گراں بہا ڈنر سیٹ، پھر خوراک کئی کورسوں میں تقسیم ہونے لگی جب کہ ہر کورس ایک مکمل کھانا تھا۔ پھر فائیو سٹار ہوٹلوں میں فوڈ فیسٹیول ہونے لگے۔ یہاں تک کہ جب کریڈٹ کارڈ فروخت کرنے والوں سے پوچھا جاتا کہ آخر اس کا کیا فائدہ تو وہ بتاتے کہ جیب میں رقم نہ ہو تب بھی فائیو سٹار ہوٹل میں لنچ یا ڈنر کرسکتے ہیں۔ چنانچہ قرض کا کھانا کھایا جانے لگا۔
تن ڈھانپنے کے لیے کیا ضروری ہے؟
کپڑوں کے دو یا تین جوڑے جو گرمی اور سردی سے بچا سکیں اور بدن کو برہنہ نہ ہونے دیں۔ بس یہ ہے جو ضروری ہے لیکن افسوس ! بات اس سے بہت آگے بڑھ گئی۔
پہلے تو آدمی نے لباس کو ایک اور ہی مقصد کے لیے پہننا شروع کیا یعنی تکبر، نخوت، امارت، طمطراق اور تزک و احتشام کے اظہار کے لیے۔ چنانچہ لباس کو لباسِ فاخرہ بنا دیا گیا۔ ریشم، زربفت، کمخواب، حریر، پرنیان، مخمل، اطلس، قاقم، سنجاب اور سمور منگوایا گیا۔ تراش خراش میں ایسے ایسے اسلوب اور ایسے ایسے ڈیزائن وضع کیے جانے لگے جن کا مقصد دیکھنے والوں کو مرعوب کرنا تھا۔ پھر وہ کشیدہ کاری، زر دوزی، گلکاری ، رنگ ریزی اور سوزن کاری کو بروئے کار لایا۔ گوٹا کناری، جھالر، کرن پھول وجود میں آئے۔ پھر وہ زیورات کی طرف آیا اور آخری حدوں سے بھی آگے نکل گیا۔ سونا، چاندی، زمرد، فیروزہ ، عقیق، مروارید، مرجان، یاقوت، نیلم ، الماس، لاجورد اور مقیش جسم پر چڑھالیے۔ یہاں تک کہ غلامی کی نشانیوں کو زیب و زینت کے لیے بقا بخش دی گئی۔ چنانچہ کانوں میں پڑے ہوئے حلقے (حلقہ بگوش) کو بالی، نکیل کو نتھ ، گردن میں پڑے ہوئے پٹے کو گلو بند، ہتھکڑی کو کنگن اور پائوں کی بیڑی کو پازیب بنالیا۔
پھر وہ تعداد اور کثرت کی طرف آیا۔ ملبوسات، زیورات اور جوتوں کے انبار لگ گئے۔ کمروں کے کمرے وارڈ روبوں سے اور وارڈ روب ساڑھیوں، دوپٹوں ، سکرٹوں ، نکٹائیوں، قمیضوں، سوٹوں ، ٹوپیوں اور جرابوں سے اٹ گئے۔ سینکڑوں قسم کے پاپوش جمع ہوگئے ۔ پھر ایک ایک چیز خاص خاص علاقے سے منگوائی جانے لگی اور جہاز، بندر گاہیں، ایئرپورٹ ، گاڑیوں اور کنٹینر سامان سے چھلکنے لگے۔
رہائش کے لیے کیا چاہیے ؟ ایک یا دو کمرے جن میں آدمی اور اس کے اہل و عیال رہ سکیں اور اپنا اسباب رکھیں۔ بان کی چارپائی اور اس پر سایہ کرنے کے لیے ایک درخت ! بس یہ ہے جو ضروری ہے۔ لیکن افسوس ! بات اس سے بہت آگے بڑھ گئی۔
پہلے تو اس نے بان کی چارپائی کو کرسیوں سے بدلا۔ پھر سایہ دار درخت برا لگنے لگا۔ اس میں نقص یہ تھا کہ اس کا سایہ چلتا تھا اور چارپائی ساتھ ساتھ گھسیٹنا پڑتی تھی۔ اس نے درخت کو چھت سے بدل دیا۔ چار دیواری کھڑی کرلی۔ دروازہ لگالیا اور اس کا نام بیٹھک رکھا۔
یہاں تک بھی ٹھیک تھا۔ لیکن پھر کرسیوں کی جگہ صوفے اور دیوان آگئے۔ فرش پر قالین ڈال دیا۔ چھت سے فانوس لٹکایا اور ڈرائنگ روم کا نام دے دیا۔ پھر معاملہ اور آگے بڑھا۔ صوفہ ایک سے ایک بڑھیا آیا ، قالین ہاتھ سے بنے ہوئے وسط ایشیا سے منگوائے گئے۔ کرسٹل دنیا کے کونے کونے سے اکٹھا ہوا۔ کمرہ امارت اور ہیبت سے بھر گیا۔ خدام جوتے اتار کر اندر آنے لگے۔ مالک تکبر کا نشان بن گیا۔ رہائشی کمروں میں چپس اور قیمتی پتھر ڈالے گئے۔ وہ دیواریں جو آنے والوں کو پہلے نظر آئیں ماربل سے ڈھانپ دی گئیں۔ ستون ایسے لگائے گئے جو انسان کا قد چھوٹا کریں۔ چوبارے اتنے اونچے بنے کہ دیکھنے والے کی دستار پیچھے گر گئی۔ فوارے لگائے گئے۔ حوض بنوائے گئے۔ سبزہ باہر سے منگوایا گیا۔ پودے کترنے اور کیاریاں سنوارنے کے لیے اجرت پر ان لوگوں کو رکھا گیا جو ابھی تک بان کی چارپائیوں پر بیٹھتے تھے اور چارپائیوں کو سائے کے ساتھ ساتھ گھسیٹتے تھے۔
یہ محل بھی ضرورت سے زیادہ تھا لیکن پھر ایک اور محل بنوایا گیا۔ پھر ایک اور۔ پھر جن شہروں میں کبھی کبھار جانا ہوتا تھا وہاں بھی قصر بنوائے گئے۔ ان میں خدام اورسواریاں ہمہ وقت تیار رکھی گئیں۔ پھر سمندر پار سرزمینوں کی باری آئی۔ بیش بہا اپارٹمنٹ لیے گئے۔ بحر روم کے کنارے مارسیلز، نپس اور ناپولی جیسے بہشت نما قصبوں میں ،جزائر غرب الہند کے سحر آگیں ساحلوں پر اور ہسپانیہ اور یونان کے دم بخود کردینے والے جزیروں میں تفریح گاہیں خریدی گئیں۔ محل نما بجروں کے سودے ہوئے۔ آف شور کمپنیاں فلوٹ کی گئیں اور وہ سب کچھ ہوا جس کا اندازہ تھا، نہ حساب!
جسم سے جان نکل جائے تو کیا درکار ہے ؟ تین فٹ چوڑا اور چھ فٹ لمبا قطعۂ زمین ! بس یہ ہے جو ضروری ہے! لیکن افسوس ! بات اس سے بہت آگے بڑھ گئی۔
پہلے تو تین فٹ چوڑی اور چھ فٹ لمبی قبر کو پکا کیاگیا۔ پھر اس پر پھول اور چادریں چڑھائی گئیں ۔ پھر اردگرد کی زمین کو ساتھ ملاکر چھت ڈال دی گئی۔ ایک مستقل آدمی جھاڑ پونچھ اور چھڑکائو کرنے کے لیے رکھا گیا۔ پھر دور دراز سے سنگ مرمر اور سنگ سرخ منگوایاگیا۔ سنگ تراش، کندہ کار، مینا کار، نقاش اور معمار اکٹھے کیے گئے۔ عظیم الشان عمارت تعمیر کی گئی۔ پھر سال بہ سال تقریب کا اہتمام ہونے لگا ۔ گردو پیش سے خلق خدا امڈ امڈ کر آنے لگی۔ رقص و سرود کی محفلیں برپا ہوئیں۔ گانجا ، حشیش اور پوست پی جانے لگی۔ ننگ دھڑنگ ملنگ دھمال ڈالنے لگے، بے خود عورتیں لمبے بالوں کو جھٹکے دے دے کر ناچنے لگیں۔ اندھے ، کوڑھی اور جنات کے ستائے ہوئے مریض شفایاب ہونے کے لیے آنے لگے۔
کسی کو فکر رہی نہ علم ہوا کہ جسے تین فٹ چوڑی اور چھ فٹ لمبی لحد میں سلایا تھا کس حال میں ہے؟
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔