الیکشن مہم زوروں پر ہے۔ جذبات مشتعل کرنے کا مقابلہ ہے۔ نعرے ہیں اور دعوے اور سچی بات یہ ہے کہ بڑھکیں ہیں۔ یہاں دلیل کا کوئی عمل دخل نہیں۔ منطق اور عقل کا کوئی کام نہیں۔ حقائق کو کوئی نہیں پوچھتا۔ جو جتنا زیادہ شور برپا کرے وہی اپنے آپ کو ظفریاب سمجھتا ہے۔ کوئی مباحثہ نہیں۔ کوئی ڈی بیٹ نہیں۔ امیدواروں کو ، خاص طور پر سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو ،سب سے بڑا فائدہ عوام کی ناخواندگی کا ہے۔ ناخواندگی اور نیم خواندگی۔ اعداد و شمار بے کار ہیں۔ جو تین تین بار اقتدار میں رہے‘ ان سے کون پوچھے کہ آپ کے زمانے میں قومی آمدنی میں اضافے کی کیا شرح رہی اور آپ کے اپنے اثاثے کس رفتار سے بڑھے۔ کس کو کون بتائے کہ کس کے عہد میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ایک ایک دن کے لیے احکامات جاری کیے؟ اکثریت کو یہی نہیں معلوم کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کس چڑیا کا نام ہے۔ وہی پامال لطیفہ کہ نظر کا معائنہ کرانے والے مریض سے آنکھوں کے ڈاکٹر نے کہا سامنے دیوار پر جو چارٹ لگا ہے اسے پڑھو، تو اس نے پوچھا کہ کون سی دیوار؟
ترقی یافتہ ملکوں میں امیدواروں کے درمیان مباحثے ہوتے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر‘ یونیورسٹیوں میں‘ تھنک ٹینکس میں۔ حوصلے اور تحمل سے دلائل دیئے جاتے ہیں۔ اعداد و شمار کے ساتھ موقف بیان کیے جاتے ہیں۔ تردید کرنے والا بھی دلیل پیش کرتا ہے اور اصرار کرنے والا بھی دلیل ہی کا سہارا لیتا ہے۔ کوئی گلے کی رگیں سرخ کرتا ہے نہ منہ سے جھاگ نکالتا ہے۔ کوئی کسی کو آلو کہتا ہے نہ اوئے پکارتا ہے۔ مدتوں پہلے اس کالم نگار نے روم میں ایک مشہور ریستوران دیکھا جہاں الیکشن کے زمانے میں سیاسست کے شوقین آکر بیٹھتے تھے اور گھنٹوں بحث کرتے تھے لیکن آوازیں بلند نہیں ہوتی تھیں۔ مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے زیادہ شور نہ ہوتا تھا۔ آستینیں چڑھتی تھیں نہ دشنام طرازی ہوتی مگر یہ ساری باتیں تعلیم سے ہیں اور تعلیم بھی کیا، تربیت اور روایت سے ہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ تمدن کس سٹیج پر ہے۔ تمدن، کلچر، تہذیب، فلسفی ان سب کی الگ الگ تعریفیں کریں گے لیکن بنیادی قدرِ اشتراک تینوں میں ایک ہے۔ صرف ایک ۔ کہ دولت کا کوئی کردار نہیں۔ دولت تو برونائی اور مشرقِ اوسط میں بھی ہے۔ دولت تو غریب پاکستان میں بھی لوگوں کے پاس اس قدر ہے کہ تین چار افراد پورے ملک کا قرضہ چکا دیں۔ برداشت، ٹھہرائو اور نرم گفتاری کا انحصار اس بات پر ہے کہ کسی ملک میں لائبریریاں کتنی ہیں، یونیورسٹیوں کا ماحول کیا ہے اور حکمرانوں کا قومی خزانے کے ساتھ برتائو کیسا ہے۔ برطانیہ کا وزیراعظم مشہور کمپنی چرچ کے بنے ہوئے جوتوں کا ایک جوڑا اٹھارہ سال پہنتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مشرقِ وسطیٰ کے بادشاہوں کا معیار زندگی دیکھیے، اور پھر آخری فیصلہ کرنے کے لیے یہ معلوم کیجیے کہ علاج کرانے کے لیے برطانیہ کے مریض مشرق وسطیٰ کا رُخ کرتے ہیں یا مشرق وسطیٰـ سے مریضوں کو برطانیہ لایا جاتا ہے۔
ڈاکٹر، انجینئر اور سائنس دان بننے کے لیے طالب علم کہاں سے چلتے ہیں اور کہاں پہنچتے ہیں۔
ناصر کاظمی نے کہا تھا ؎
تیرے وعدے، میرے دعوے
ہوگئے باری باری مٹی
نوازشریف کہتے ہیں پنڈی سے مری ٹرین چلائیں گے۔ کوئی پوچھے، حویلیاں سے ایبٹ آباد صرف دس کلومیٹر کا فاصلہ ہے، حویلیاں تک انگریز ٹرین پہنچا گئے تھے‘ آپ سے اقتدار کے دو زمانوںمیں یہی نہ ہوا کہ ایبٹ آباد تک ریل چلا دیتے۔ لواری سرنگ تو اب بنی ہے۔ پہلے جب سرما عروج پر ہوتا تھا تو چترال کے باشندے پشاور سے افغانستان جاتے تھے اور نورستان کے راستے چترال کی وادی میں داخل ہوتے تھے۔ ان دنوں ایک وزیر نے دعویٰ کیا کہ ہم چترال کو وسط ایشیا سے ملا دیں گے۔ کسی کو یہ کہنے کی توفیق نہ ہوئی کہ چترال تو خود پاکستان سے چھ ماہ کٹا رہتا ہے! پہلے اسے پاکستان سے تو ملائیے!
عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ امریکی ڈرون گرا دے گا۔ کہنا آسان ہوتا ہے اور کرنا مشکل۔ عمران خان نوجوانوں کی آس ہے اور ان لوگوں کے لیے امید کا چراغ بنا ہوا ہے جو اس ملک کو خاندانی سیاست سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسے سوچ سمجھ کر دعوے کرنے چاہییں۔ ابھی وہ میز کے اس طرف بیٹھا ہے۔ ڈرون گرانے کا حکم دیتے وقت وہ میز کے دوسری طرف بیٹھا ہوگا۔ اس وقت اس کے سامنے ایک تصویر ہے۔ اس وقت تصویر مختلف ہوگی۔
مجیب الرحمن نے متحدہ پاکستان کے آخری انتخابات میں اکثریت حاصل کی تھی تو عقل مندوں نے مشورہ دیا تھا کہ اسے حکومت دے دو۔ دعوے کرنا اور بات ہے۔ حکومت میں آکر پالیسیاں بنانا، بدلنا اور نافذ کرنا دوسری بات ۔
چھ ماہ کے اندر اندر مشرقی پاکستان کے عوام اس سے دل برداشتہ ہوجائیں گے۔ ڈرون گرانے کا دعویٰ اور وعدہ کرنے سے پہلے عمران خان کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ فاٹا کے مستقبل کے لیے اس کے پاس کیا وژن ہے؟ اور وہ ان علاقوں پر حکومت کی رٹ کیسے نافذ کرے گا؟ دنیا کا کوئی ملک یہ اجازت نہیں دیتا کہ کسی دوسرے ملک سے لوگ آ کر لڑائی میں حصہ لیں۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے جو لوگ فاٹا میں رہ رہے ہیں وہ کسی عرب ملک کا رُخ کیوں نہیں کرتے؟
سب سے پہلے اس کالم نگار نے یہ مطالبہ کیا تھا اور آج پھر دُہراتا ہے کہ پینسٹھ برسوں کے دوران قبائلی علاقوں میں جو پیسہ تقسیم کیا جاتا رہا اس کا حساب قوم کے سامنے رکھنا چاہیے۔ کن خواتین اور کن ملوک کو کتنی رقم دی گئی؟ عام قبائلی کو کیا ملا؟ وہاں کتنے سکول، کتنے کالج اور کتنی یونیورسٹیاں بنیں؟ کتنے کارخانے لگے؟ کتنے قبائلیوں کو باعزت روزگار دیا گیا؟ پینسٹھ سال کا عرصہ کم عرصہ نہیں، آخر ان علاقوں کو باقی پاکستان میں ضم کیوں نہ کیا گیا؟ اور سمگلروں‘ ہائی جیکروں‘ کاریں چرانے والوں اور اغوا کرنے والوں کی جنت کیوں رہنے دیا گیا؟ جو لوگ قبائلیوں کو بہادر اور غیرت مند کہہ کر ان کے بچوں کے ہاتھوں میں غلیلیں اور نوجوانوں کے ہاتھوں میں بندوقیں دیکھنا پسند کرتے ہیں وہ اپنے بچوں کو لیپ ٹاپ کیوں دیتے ہیں؟ عمران خان کو فاٹا کے بارے میں سوچ سمجھ کر پالیسی بنانا چاہیے تھی اور قوم کو بتانا چاہیے تھا کہ وہ ان مظلوم علاقوں کی تقدیر کس طرح بدلے گا؟ ڈرون گرانا آسان ہے، نتائج، خدانخواستہ، ڈرون سے بھی زیادہ تباہ کن ہوئے تو وہ بھی غریب قبائلی ہی بھگتیں گے۔ خدا انہیں محفوظ رکھے۔
الیکشن کی جنگ جاری ہے۔ قیامت کا شور ہے۔ نظامی نے سکندر کی جنگ کا حال بتاتے ہوئے لکھا تھا ؎
زِ سمِ ستوراں در آن پہن دشت
زمین شش شد و آسمان گشت ہشت
گھوڑوں کے سم زمین پر پڑنے سے وہ گرد اٹھی کہ زمینیں سات سے چھ رہ گئیں اور آسمان سات سے آٹھ ہوگئے۔ گرد کے اس طوفان میں کسے پرواہے کہ بنیادی مسائل کیسے حل ہوں گے؟ وہ زرعی اصلاحات جو بھارت 1951ء میں لے آیا‘ پاکستان میں کب آئیں گی؟ کون لائے گا؟ ازمنۂ وسطیٰ سے بھی قدیم تر سرداری نظام جو بلوچستان میں آج بھی رائج ہے‘ کب ختم ہوگا؟ کون ختم کرے گا؟ کب تک سچ اور جھوٹ کا فیصلہ دہکتے انگاروں پر چلا کر کیا جائے گا؟ پرویز مشرف برا ہے لیکن اسے مارنے والے کو طلال بگٹی صاحب ایک ہزار ایکڑ زمین کہاں سے دیں گے؟ اور ان کے پاس کل کتنی زمین ہے؟ ایک عام بگٹی کا معیار زندگی کیا ہے؟ یہ اور سینکڑوں دوسرے سوال۔ لیکن ناخواندگی زندہ باد! سوال پوچھے کون؟