تاریخِ ہند کا وہ المناک دن جب مذہبی جنونیت نے اک تاریخی عبادت گاہ کو ملیامیٹ کر دیا اور بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں تاریخی بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا۔
سولہویں صدی میں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر کے نام پر تعمیر کی گئی اس مسجد کو 1992ء میں 6 دسمبر کو انتہا پسند ہندوؤں نے یہ کہہ کر شہید کیا کہ یہ رام کی جنم بھومی ہے اور یہاں رام مندر تعمیر ہوگا۔ یہ دراصل ہندو انتہا پسند جماعتوں کے اس دیرینہ مطالبے کا نقطہ عروج تھا کہ رام کی جنم بھومی کے مقام پر رام مندر تعمیر کیا جائے اور ان کا کہنا تھا کہ دراصل یہی وہ مقام ہے جہاں اصلی رام مندر واقع تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تقسیم ہند کے کچھ ہی عرصے بعد 1949ء میں مسجد کو بند کر دیا گیا تھا۔ 40 سال سے زائدعرصے تک بند رہنے کے بعد 6 دسمبر 1992ء کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا ایک جلسہ ایودھیا میں منعقد ہوا جس میں اس کے مشہور رہنما لعل کرشن آڈوانی اور مرلی منوہر جوشی بھی شامل تھے۔ گو کہ جلسے سے قبل یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ مسجد کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گالیکن جب ڈیڑھ دو لاکھ کے مجموعے کو قابو میں کرنے کا موقع آیا، تو کسی رہنما نے اپنا کردار ادا نہ کیا اور ہندو تاریخی مسجد پر پل پڑے۔
دراصل بھارتیہ جنتا پارٹی خصوصاً ایل کے آڈوانی کی سیاست ہی بابری مسجد کے معاملے پر چل رہی تھی۔ وہ 1984ء سے اس معاملے کو گرم رکھ کر اپنی سیاست چمکا رہے تھے اور جب 1991ء میں اترپردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت آئی تو گویا انہیں موقع ہاتھ لگ گیا۔ واضح رہے کہ یہ وہ وقت تھا کہ بی جے پی کے انتخابی منشور میں رام مندر کی تعمیر کی شق شامل ہوا کرتی تھی اور یہ شق مسجد کی شہادت کے 11 سال بعد 2002ء میں منشور سے خارج ہوئی ہے۔
بعد ازاں بھارتی انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ کی کتاب میں یہ بتایا گیا کہ راشٹریہ سیوک سنگھ، بھارتیہ جنتا پارٹی، بجرنگ دل اور ویشو ہندو پریشد کی اعلیٰ قیادت نے بابری مسجد کو شہید کرنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی واقعے سے 10 ماہ قبل کی تھی۔
تاریخی مسجد کی شہادت کے بعد بھارت بھر میں زبردست ہنگامے پھوٹ پڑے۔بمبئی، سورت، احمد آباد، کانپور، دہلی اور متعدد دیگر شہر بری طرح متاثر ہوئے جن میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق کم از کم 2 ہزار اموات ہوئیں جبکہ حقیقی اعدادوشمار آج بھی سامنے نہیں لائے گئے۔ صرف ممبئی میں ہونے والے ہنگامے میں ایک ہزار کے قریب افراد موت کے گھاٹ اتارے گئے جبکہ اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا۔
بھارت کے علاوہ دنیا بھر کے مسلم ممالک خصوصاً پڑوسی ملکوں میں سخت ردعمل دیکھنے میں آیا۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں بابری مسجد کی شہادت کے خلاف زبردست مظاہرے ہوئے اور حکومت نے سانحہ کے اگلے دن یعنی 7 دسمبر کو سرکاری سطح پر یوم احتجاج کا اعلان کیا اور ملک بھر میں مظاہرے منعقد ہوئے۔ وزارت خارجہ نے بھارتی سفیر کو طلب کیا اور اقوام متحدہ اور اسلامی کانفرنس تنظیم سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالیں۔
آج بھی ہندوستانی مسلمان 6 دسمبر کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں اور بسا اوقات ہنگاموں کی صورتحال بھی پیدا ہو جاتی ہے جیسا کہ 2003ءمیں حیدرآباد میں پیش آئی تھی، جن میں پانچ افراد مارے گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود