تصویر میں موجود کالی رنگت اور نیلی آنکھوں والی لڑکی کی تصویر اس لڑکی کا ممکنہ خاکہ ہے جس کا ڈی این اے ایک 5700 سال پرانی چیونگم سے ملا۔
یہ لڑکی کون تھی؟
کہتے ہیں بحیرہ بالٹک کنارے وہ رہتی تھی، کیوں رہتی تھی؟ بھئی جس مقصد کے لئے ہر انسان اس دنیا میں رہتا ہے وہ بھی اسی مقصد کے لئے رہتی تھی۔ مطلب جینے کے لئے،
مگر، وہ دودھ نہیں ہضم کر سکتی تھی، کیوں؟
کیونکہ تب تک یورپ کے اس حصے میں بالغ انسانوں نے دودھ پینے کہ صلاحیت کا ارتقاء نہیں شروع کیا تھا۔ اس نے چیونگم چبانے سے پہلے بطخ کا گوشت اور Hazelnut کھائے ہوئے تھے۔ اور وہ مسوڑھوں کی بیماری میں بھی مبتلا تھی۔
لیکن ہمیں یہ سب کیسے پتا چلا؟
پرانے انسان جو کہ شکاری ہوا کرتے تھے وہ برچ نامی درخت کی چھال کو نوک دار پتھروں کو ہینڈل سے باندھنے کے لئے استعمال کیا کرتے تھے۔ لیکن اس سے پہلے چھال کو نرم کرنا پڑتا تھا اور وہ اس مقصد کے لئے اس کو چبایا کرتے تھے۔
اس وقت ہمیں یورپ سے ایسے کئی نمونے ملے ہیں جو کہ اس چبائی گئی چھال کے ہیں اور یہ چھال کیونکہ چیونگم کی طرح منہ سے چبائی جاتی تھی اس لئے ہمارا تھوک، جلد اور منہ میں موجود بیکٹریا اس چھال سے چمٹ جاتے تھے۔ بالکل ایسے ہی جیسے آپ کسی چیونگم کو چباتے ہیں اور اس کو پھینک دیتے ہیں لیکن اس چیونگم کے فرانزک مطالعے سے ہم آپ کا ڈی این اے کشید کر سکتے ہیں۔
یہ چھال بہت سی جگہوں پہ انسانی وجود کے ہونے کا واحد ثبوت بچی ہے۔ اور شروع سے ہی آرکیالوجسٹس کا خیال تھا کہ اس چھال سے ڈی این اے کشید کیا جا سکتا ہے۔
لیکن ابھی تک ہماری ٹیکنالوجی اتنی جدید نہیں ہوئی تھی۔ حالیہ سالوں میں انتہائی دقیق ڈی این اے کشید کرنے کی ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم نے ایک کافی سال پرانی اس چھال کی بنی چیونگم کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی۔
جب ہمیں اس چیونگم سے ڈی این اے ملا تو وہ وہ فقط انسانی ڈی این اے نہیں تھا۔ بلکہ اس میں مختلف وائرس، بیکٹریا، جانوروں اور سبزیوں کا ڈی این اے تھا۔
مگر کیوں؟ کیسے؟ کس طرح؟
ہمارا منہ اپنی ایک علیحدہ کائنات رکھتا ہے۔ اس کائنات میں بیکٹیریا راج کرتے ہیں انہیں ہم Oral microbiome کہتے ہیں جس میں ہم کو فائدہ اور نقصان پہنچانے والے دونوں طرح کے خوردبینی جاندار ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح ہمارے منہ میں تازہ کھائی گئی اشیاء کی باقیات مسوڑھوں میں پھنس جاتی ہیں وہ باقیات اگر اچھی طرح سے نہیں پکی تھی تو ان سے ان کا ڈی این اے حاصل ہو سکتا ہے۔ ویسے ہم پکی خوراک سے بھی یہ حاصل کر سکتے ہیں ۔
سو اس لڑکی کے ڈی این اے کو کشید کرنے کے بعد اسکا مطالعہ کیا گیا۔ ڈی این اے کے مطالعے کو آپ یوں سمجھ لیں جیسے آپ ایک کتاب کے تمام حروف دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
ہم نے کمپیوٹر میں ان حروف کا موازنہ اب کے انسانی ڈی این اے کے حروف سے کیا۔ مگر وہاں کچھ گُم تھا۔ کیا گم تھا؟ وہاں پہ دودھ کو ہضم کرنے والے خامروں کا ڈی این اے گُم تھا۔ کیوں؟ کیونکہ انسانوں میں موجود دودھ ہضم کرنے والے خامرے بلوغت کے بعد چُپ silent ہوجاتے ہیں۔ سو وہ دودھ ہضم نہیں کر سکتے۔ اسی لئے آج بھی 60-70% آبادی دودھ ہضم نہیں کر سکتی۔
اس سے ہمیں یہ پتا چلا کہ یہ لڑکی دودھ نہیں ہضم کر سکتی تھی۔
تو پودے اور بطخ؟
دیگر ڈی این اے پرنٹس جو ملے ان میں بطخ اور Hazelnut کا ڈی این اے تھا جو کہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تب کے انسان جو اس خطے میں تھے بطخوں کو کھایا کرتے تھے۔ اور ہیزلنٹ انکا پسندیدہ فروٹ تھا۔
اسی طرح اس لڑکی کے منہ کے بیکٹریا سے پتا چلا کہ اس کو شائد نمونیا تھا، مگر یہ بات کنفرم نہیں کیونکہ نمونیا کے بیکٹریا انفیکشن کے بغیر بھی وہاں آسکتے ہیں۔ لیکن مسوڑھوں کی بیماری کے شواہد ضرور ملے ہیں۔
لیکن ہمیں کیسے پتا چلا یہ 5700 سال پرانی ہی لڑکی تھی؟
اس بات کا پتا لگانے کے لئے چیونگم کی کاربن ڈیٹنگ کی گئی اس عمل سے ہم کسی بھی شئے میں موجود کاربن کے تناسب سے اسکی عمر کی کھوج لگا سکتے ہیں اس سے ہمیں یہ کنفرم ہوا کہ یہ لڑکی 5700 سال پرانی تھی۔
یہ تحقیق کافی دلچسپ تھی۔ یہ انسانی تاریخ کی پہلی تحقیق تھی جس میں ہم نے پہلی بار انسانی ہڈیوں سے ہٹ کر کسی اور نمونے سے ڈی این اے کشید کیا اور پھر اسکا مطالعہ کیا۔ اس سے ہمیں یہ پتا چلا کہ چھ ہزار سال پہلے تک کے بھی کچھ یوروپئین انسان کاشتکاری نہیں کرتے تھے بلکہ وہ شکاری انسان تھے جن کی مرغوب غذا بطخ کا گوشت ہو سکتی ہے اور وہ ہیزلنٹ بھی کھایا کرتے تھے۔
اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ نیلی آنکھوں کا ارتقاء انسانی سفید جلد سے پہلے ہوا جو کہ کافی حیران کن بات ہو سکتی ہے۔ رہی بات اس لڑکی کی تصویر کی تو یہ محض انسانی ذہن کی اختراع ہے کہ اس لڑکی کے نقوش ایسے ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...