پانچ سو سے ہزار ارب ۔ صرف ایک سال میں
زیر نظر اسکرین شاٹ میں ڈیفینس کے ایک سیکٹر کے ایک بلاک کا صرف کچھ حصہ دکھایا گیا ہے۔ اندازاً پلاٹس سات آٹھ ہزار ہیں اور ہر پلاٹ کی قیمت اوسطاً ایک کروڑ روپے ہے۔ کمرشل پلاٹ چار سے آٹھ کروڑ تک ہے۔
یہ صرف تصویر کے پلاٹوں کی کل قیمت بنتی ہے جو خریدار اس وقت دینے کو تیار ہے، جبکہ پراپرٹی ایک سال سے برے حال میں بھی ہے۔ تو اندازہ کریں کہ صرف تصویر کے پلاٹوں کی اندازاً قیمت کتنی بنتی ہے۔
ایک پلاٹ کی قیمت ، ایک کروڑ
آٹھ ہزار پلاٹ کی قیمت، 80 ارب روپے۔
80 ارب روپے اس سرخ تصویر والے پلاٹوں کی قیمت، ابھی کمرشل پلاٹس کو عام پلاٹ ہی لکھا پڑھا گیا ہے۔
اب زرا 55 روپے والے ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر اوپر اٹھ جائیے۔ زوم آؤٹ کیجیے۔ ساتھ والی گرے تصویر میں پہلی سرخ تصویر جتنے کم از کم پچاس بلاکس ہیں۔ تو موٹا موٹا حساب آپ کو 400 ارب تک لے جاتا ہے۔
یہ پاکستان کا ایک ادارہ اپنے گاہکوں کو سیکیورٹی، سہولت، اور اچھی انتظامیہ کے نام پر بیچ رہا ہے۔
اگر عمران خان کی حکومت ایسا ایک چھوٹا سا شہر آباد کردے جہاں اسٹیٹ آف دا آرٹ سہولیات کے ساتھ سی پیک، اور دیگر ملکوں سے آنے والے مہمانوں کے لیے ہوٹلز، سیرگاہیں، وغیرہ اور پاکستان کے مستقبل قریب کے تمام کاروباری منصوبوں کے لیے دفاتر وغیرہ جیسی پرکشش ترغیبات دی جائیں تو پاکستانی سرمایہ کار اور بیرون ملک کاروباری جو پاکستان کی ٹرن ہوتی اکانومی سے فائدہ اٹھانا چاہیں گے، چند مہینوں میں آپ کو پانچسو سے ہزار ارب کی آمدن دے سکتے ہیں۔
مشورہ مفت ہے، اگے تیرے بھاگ ۔ ۔ ۔ آؤٹ آف دا باکس سوچنے والے اسد عمر کو صلائے عام ہے اس آئیڈیے پر اپنی کمیٹی بٹھا دے۔ ملک اگر مشکل میں تو کرپٹ کاروباری، مگر ٹاؤن پلاننگ کے ماہر ریاض ملک سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ (ورنہ ڈی ایچ اے کے برگیڈیران سے بھی اب عمران خان کی ہیلو ہائے ہو ہی چکی ہے)
پس تحریر: کچھ مکھیوں کے اعتراضات کا پہلے سے جواب دے دیتا ہوں۔ انفرااسٹرکچر زمین وغیرہ میں تین سال سے پانچ سال لگتے ہیں، مگر پلاننگ اور بکنگ تین سے چھ ماہ میں اسٹارٹ ہوجاتی ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“