شروع شروع میں طوفان،قحط، زلزلے اور آسمانی آفتوں سے انسان اس کرہ ارض سے مٹ جاتے تھے ۔ پھر انسان نے ان آفتوں کا سائنسی مقابلہ کیا اور انسانی زندگی کو محفوظ کیا، اور اب تک اس کوشش میں لگا ہے کہ وہ انسانیت کو ان تمام آسمانی آفتوں سے محفوظ کر سکے ۔ پھر ان افتوں نے وائرس کی وباوں کی صورت انسانوں پہ حملہ کیا ۔ کبھی طاعون، چیچک، ہضہ ، ملیریا اور کبھی ایڈزکی شکل میں یہ وائرس حملہ کرتا اور بہت قلیل عرصے میں ملین لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے مگر انسان نے سائنس کی مدد سے ان وائرسی وباوں کا بھی مقابلہ کیا ور انسان کو ان سے محفوظ کیا ۔
انسان ابھی ان آسمانی اور طبعی وائرسی وباوں کا مقابلہ کر ہی رہا تھا کہ نظریاتی، نسل پرستی اور طبقاتی وائرس نے انسانوں پہ حملہ کر دیا ۔ان وائرسوں میں سب بڑا وائرس "ہٹلروائرس" تھا ۔ جو پوری دنیا میں چھا جانا چاہتا تھا مگر جیساکہ انسان نے سائنس کی مدد آسمانی اور طبعی وائرس کا مقابلہ کرکے انسانوں کو ان سے محفوط رکھا اسی طرح انسان نےطبقاتی ،جمہوری ۔اور سیکولر اتحاد سے اس نسل ہرست "ہٹلر وائرس" اور اسکے گماشتوں کا مقابلہ کر کے اس کراہ عرض پہ انسانیت کو محفوظ کیا۔ انسانوں نے اس لڑائی میں گو کافی حد تک اس نسل پرست وائرس کو ختم کردیا ہے مگر اس بیماری کے چھوٹے موٹے وائرس ابھی بھی کہیں نا کہیں انسانیت پہ حملہ کرتے ہیں ۔
پاکستان میں غیرجمہوری اور آمریت کے بڑے وائرس نے "ایوبی وائرس" کی شکل میں پاکستانی عوام پہ حملہ کر دیا تھا ۔جس طرح دنیا میں انسان نے سائنس کی مدد سے ان آسمانی اورطبعی وباوں کا مقابلہ کیا تھا اسی طرح پاکستانی عوام نے خود پہ جیلوں، ٹارچر سیلوں ۔ سرعام سڑکوں اور چوکوں میں تشدد کراکے لاٹھیاں کھا اور گلوں میں پھانسی کے پھندے ڈلوا کر اس " ایوبی آمریتی وائرس" کا مقابلہ کیا اور پاکستان کی عوام کو اس سے محفوظ کیا ۔
یوں تو پاکستان میں " فوجی امریتی وائرس" ہر دو تین سال بعد لوگوں کو لگتا رہا ہے اور پاکستانی عوام اپنی زندگیاں جیلوں میں گزار کے اور جان کا نظرانہ دے کر ان " فوجی آمریتی وائرسوں " کا مقابلہ کرتے ائے اور ان وائرسوں کو دفن کرتے آئے ہیں ۔
مگر
ان" فوجی امریتی وائرسوں" میں سب سے بڑا مکروہ زدہ وائرس " ضیائی وائرس " تھا
" ضیائی وائرس " صرف امریتی اور غیر جمہوری وائرس ہی نہیں تھا یہ انتہائی مذہبی تعصباتی خوبصورتی ، رقص، موسیقی، مجسمہ سازی، آزادی صحافت اور آزادی اظہار کا قاتل وائرس تھا ۔ ضیائی وائرس صرف بد صورتی کو پسند کرتا تھا لہذا اس نے سیاسی کارکنوں شاعر ۔ گلوکاروں ۔ اداکاروں ادیبوں کو کوڑے مارے اور مجسمہ بدصورتی مسجد کے ملا کو زور سے اہنے گلے کے ساتھ لگایا۔
پاکستانی عوام نے میدانوں چوکوں میں کوڑے کھائے۔ سندھ کے گاوں میں اس ضیائی وائرس نے ہیلی کوپٹر سے گولیوں کی برسات کی ۔
اور۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔ پھر اس بدصورت ضیائی وائرس نے 4 اپریل کو عوام کے منتخب نمائندے ذولفقار علی پہ حملہ کیا اور اسے جسمانی طور پہ کھا گیا۔
مگر جیسا کے دنیا کا کوئی آسمانی ، طبعی، شخصی اور نسل پرست وائرس انسان کو ختم نہیں کر سکا اسی طرح پاکستان میں بھی کوئی آمریتی اور مذہبی تعصباتی وائرس پاکستانی عوام کو ختم نہیں کر سکا
۔جس طرح کرونا وائرس کے سب سے بڑے مدد گار نزلہ بخار اور کھانسی ہے ، اسی طرح اس " مذیبی تعصباتی بدصورت ضیائی وئراس " کے مدد گار مسجد کا ملا ۔ طلبان اور فوجی گماشتے ہیں جس کا بڑا نمائندہ عمران خان ہے ۔
ہم انسانوں نے ان اسمانی اور طبعی وباوں کا بھی کیا مقابلہ کیا اور کر رہے ہیں
اور ہم پاکستانی عوام ان فوجی آمریتی وائرس ۔ بدصورت ضیائی آمریتی اور ان کے گماشتے عمران وائرس کا بھی مقابلہ کیا ہے اور کر رہے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...