اٹھائیس مارچ کے کالم میں ہم بتا رہے تھے کہ سابق سفارت کار جمشید مارکر نے اپنے مشاہدات اور تجربات پر مشتمل تازہ ترین تصنیف میں کیا لکھا ہے۔
وزیر اعظم لیاقت علی خان کو جب ایک خوشامدی درباری نے مشورہ دیا کہ اپنے ساتھ ملٹری سیکرٹری اور اے ڈی سی تعینات کریں تو انہوں نے انکار کر دیا۔ ان کا موقف تھا کہ وہ ایک عوامی شخصیت ہیں اس لیے ان تکلفات سے ماورا ہیں۔ سالہا سال تک کسی سربراہ ملک نے یہ روگ نہ پالا۔ جب بھٹو صاحب صدر سے وزیر اعظم بنے تو یہ روایت انہوں نے توڑی۔ جمشید مارکر لکھتے ہیں کہ بھٹو کو احساس تفاخر کے دورے پڑتے تھے۔ انہی میں سے ایک دورہ پڑا تو ملٹری سیکرٹری اور اے ڈی سی رکھ لیے۔ جمشید مارکر نے بھٹو کے حوالے سے
Megalomania
کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا ترجمہ ہم نے احساس تفاخر کیا ہے۔ عربی میں اسے جنون العظمتہ کہا گیا ہے۔ یعنی شان و شوکت اور عظمت کا خبط ! دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ لیاقت علی خان کا پس منظر نواب خاندان کا تھا۔ جمشید مارکر صاحب کو فارسی کا ذوق ہوتا تو لکھتے ع
نہد شاخِ پُر میوہ سر بر زمین
پھلوں سے بھری ٹہنی جُھکی ہوئی ہوتی ہے۔
فیملی بیک گرائونڈ ایک حقیقی فیکٹر ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ عبدالمنعم خان کو جب صدر ایوب خان نے گوشۂ گمنامی سے نکال کر مشرقی پاکستان کی گورنری کے تخت پر بٹھایا تو احساس کمتری اس قدر شدید تھا کہ ایک روایت کے مطابق آبائی علاقے سے آنے والے رشتہ داروں کو گورنر ہائوس میں اپنے بستر کی چادریں تک دکھا کر فخر کیا کرتے۔ لیکن اس موضوع پر فردوسی نے قلم توڑ کر رکھ دیا ہے۔ محمود غزنوی نے شاہنامہ نظم کرنے پر فردوسی کو وعدہ کے مطابق سونے کی اشرفیوں کے بجائے چاندی کے درہم دیے تو فردوسی نے اس کم ظرفی اور وعدہ خلافی کو بادشاہ کے گھٹیا فیملی بیک گرائونڈ پر محمول کیا:
شنیدم کہ شہ مطبخی زادہ است
بہ جایٔ طلا نقرہ ام دادہ است
سنتے ہیں کہ بادشاہ ایک باورچی کی اولاد ہے جبھی تو سونے کے بجائے مجھے چاندی دی۔
اگر شاہ را شاہ بودی پدر
بہ سر برنہادی مرا تاجِ زر
بادشاہ‘ بادشاہ کی اولاد ہوتا تو میرے سر پر سونے کا تاج رکھتا۔
وگر مادرِ شاہ بانو بُدی
مرا سیم و زر تابہ زانو بُدی
اور اگر اس کی ماں شاہی خاندان سے ہوتی تو مجھے اس قدر دولت دیتا کہ گھٹنوں تک آ جاتی!
پرستار زادہ نیاید بہ کار
وگر چند دارد پدر شہر یار
کنیز زادہ کے شجرۂ نسب میں بادشاہ شامل ہو جائیں تب بھی وہ کنیز زادہ ہی رہتا ہے!
قیامِ پاکستان کے بعد‘ ابتدائی برسوں میں اداروں کی کس قدر حرمت تھی‘ اس کا ذکر کرتے ہوئے جمشید مارکر لکھتے ہیں کہ ورلڈ بینک کے سربراہ کی آمد پر وزیر اعظم لیاقت علی خان نے عشائیہ دیا۔ ڈنر سے پہلے مہمانوں کے چھوٹے چھوٹے گروپ ادھر ادھر کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ وزیر اعظم سب سے مل رہے تھے۔ جمشید مارکر کے گروپ میں آئے تو برسبیل تذکرہ بتایا کہ انہوں نے چیف جسٹس کو بھی مدعو کیا تھا مگر چیف جسٹس نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ چیف جسٹس کو سربراہ حکومت کی تقاریب میں شریک نہیں ہونا چاہیے! وزیر اعظم نے اس کے بعد جو جملہ بولا یہ تھا:’’چیف جسٹس کو دعوت دینا میرا فرض تھا۔ ان کا نہ آنا بھی بالکل درست ہے‘‘۔
یہ روایت بھی ٹوٹ گئی۔ اس کالم نگار نے ایک عبرت ناک منظر اس حوالے سے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔2006ء میں پاکستان ایئر فورس کے سربراہ ایئر چیف مارشل کلیم سعادت ریٹائر ہوئے تو وزیر اعظم شوکت عزیز نے پرائم منسٹر ہائوس میں ان کے اعزاز میں الوداعی عشائیہ دیا۔ یہ کالم نگار اُس وقت ایڈیشنل سیکرٹری ملٹری فنانس کے طور پر کام کر رہا تھا اور اسی حوالے سے عشائیہ میں مدعو تھا۔ کھانے سے پہلے بڑے کمرے میں مہمان‘ حسب روایت ٹولیوں میں بٹے محو گفتگو تھے۔ اس لکھنے والے نے نوٹ کیا کہ ایک صاحب آگے بڑھ بڑھ کر مہمانوں سے مصافحہ کر رہے تھے۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ وقت کے قاضی القضاۃ ہیں!
اُس عہد کے پاکستانی حکمران علم سے کتنا شغف رکھتے تھے اور اپنے آپ کو تازہ ترین کتابوں سے کس قدر باخبر رکھتے تھے‘ اس کا بھی حسرت بھرا ذکر مارکر صاحب کرتے ہیں۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے چند دن بعد بیگم رعنا لیاقت علی خان کے گھر میں چند قریبی احباب سوگوار بیٹھے تھے۔ بیگم صاحبہ نے ایک کتاب نکالی۔ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ جمشید مارکر سے کہنے لگیں‘ یہ دیکھو‘ راولپنڈی کے سفر کے دوران لیاقت کیا پڑھ رہے تھے۔ یہ اس وقت کے معروف مصنف اور صحافی
Arthur Koestler
کی کتاب
The God That Failed
تھی۔ یاد رہے کہ وزیر اعظم کا راولپنڈی کا آخری سفر اکتوبر1951ء میں پیش آیا جب کہ یہ کتاب اس سے کچھ عرصہ پہلے ہی 1950ء میں شائع ہوئی تھی۔ آرتھر کوئسلر نے اس تصنیف میں اُن مشہور صاحبانِ علم و ادب کے مضامین جمع کیے تھے جو پہلے کمیونسٹ ہوئے مگر بعد میں تلخ تجربات اور افسوسناک مشاہدات کی بنا پر کمیونزم کو چھوڑ دیا۔ اس کا مطلب ہے وزیر اعظم ایک ایسی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے جو نئی نئی شائع ہوئی تھی اور اس زمانے کے (سرد جنگ وغیرہ)کے حوالے سے بہت مناسب
(Relevant)
تھی! زمانے کی گردش نے اس کے بعد ہمیں کیسے کیسے سربراہانِ ریاست اور سربراہانِ حکومت دیے اور وہ مطالعہ کے کس قدر‘‘شائق‘‘ تھے؟ اس سوال کا جواب ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں! ؎
بھرم کُھل جائے ظالم! تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرّۂ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے
وزیر اعظم کی شہادت کے بعد کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں مرحوم وزیر اعظم کی بیوہ کے لیے پنشن ‘ ایک پی اے‘ ایک گاڑی مع ڈرائیور اور ایک سرکاری رہائش گاہ کی منظوری دی گئی۔ جن چند دوستوں نے سامان شفٹ کرنے میں مدد دی ان میں جمشید مارکر اور ان کی اہلیہ ڈیانا بھی شامل تھیں۔ جمشید مارکر کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کا ’’سازو سامان‘‘ دیکھ کر رحم آ رہا تھا! چند کپڑے‘ کتابیں اور ایک چھوٹی سی کیبنٹ جس میں چند سگرٹ لائٹر جمع تھے! وزیر اعظم کو سگرٹ لائٹر جمع کرنے کا شوق تھا اور یہ ایک لحاظ سے ان کی ہابی تھی۔ بینک اکائونٹ میں کل سرمایہ سینتالیس (47) ہزار روپے تھا!!
چین کے ساتھ دوستی کے آغاز کا سہرا جمشید مارکر، حسین شہید سہروردی کے سر باندھتے ہیں۔1956ء میں جب کمیونسٹ بلاک سے باہر چین کا کوئی دوست نہ تھا‘ وزیر اعظم سہروردی پاکستانیوں کا ایک بہت بڑا وفد لے کر بیجنگ پہنچے۔ چواین لائی کا 1967ء کا دورہ اسی دورہ کے جواب میں تھا۔ اس دوستی کے آغاز کا دعویٰ بھٹو صاحب نے بھی کیا مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سہروردی کے وژن کا نتیجہ تھا کہ آج پاکستان اور چین کی دوستی مثالی ہے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“