جمہوریہ سینیگال،افریقہ کے انتہائی مغربی گرم ترین علاقے کا ملک ہے۔اسکے شمال اور شمال مشرق میں دریائے سینیگال ہے جو اس ملک کے اور ”موریطانیہ“کے درمیان سرحدی حد بندی کاکام بھی کرتا ہے،سینیگال کے مشرق میں ”مالی“ہے جنوب میں جینیاکاملک ہے اور مغرب میں بحراوقیانوس کے ساحل ہیں۔سینیگال کاکل رقبہ کم و بیش 76,000مربع میل ہے اور یہ ایک میدانی سرزمین کاحامل ملک ہے۔یہاں کا دارالحکومت ”ڈاکار“ ہے،جوکہ افریقہ کی بہترین بندرگاہوں میں سے ایک ہے،سینیگال میں دواور بندرگاہیں بھی ہیں لیکن بین لاقوامی جہازرانی صرف ”ڈاکار“میں ہی ہوتی ہے۔ ”ڈاکار“ایک مسلمان بزرگ کانام تھا جن کی عقیدت میں اس شہر کوموسوم کیاگیا۔دفتری زبان کے طور پر فرانسیسی رائج ہے۔ایک کروڑ سترہ لاکھ کے لگ بھگ آبادی ہے،جبکہ آبادی کی شرح خواندگی 39.3%ہے۔سینیگال جمہوری مالی کی فیڈریشن کے ساتھ 1960کو آزاد ہوا پھر بعد میں الگ ریاست کے طور پر دنیاکے نقشے پر ابھرا۔مونگ پھلی یہاں کی ایسی پیداوار ہے جس کے باعث سینیگال دنیابھر میں پہچاناجاتا ہے،یہاں کی آب و ہوا اور موسم اس فصل کے لیے انتہائی موزوں ہے۔اس فصل کی مزیدسے مزید تر پیداوارکے لیے مقامی تاجروں کے علاوہ بین الاقوامی تاجر بھی یہاں بڑے پیمانے پر سرمایاکاری کرتے ہیں۔جن دنوں مونگ پھلی کی تجارت عروج پر ہوتی ہے ملک میں ہر طرف خوشحالی کادوردورہ ہوتا ہے اور دریاؤں پر بنے بحری اڈوں کی رونقیں بھی لوٹ آتی ہیں۔
سینیگال اگرچہ قدیم افریقہ کی طرح قبل از تاریخ کی آبادیوں کے نشانات رکھتاہے لیکن معلوم تاریخ کی حد تک اس سرزمین پر نویں صدی میں ”تکرر“نامی خاندان برسراقتدار تھا،تیرہوں اور چوہدویں صدی میں سینیگال ”جولوف“نامی ریاست کاحصہ تھا۔پندرویں صدی کے وسط میں انسانوں کے شکاری ”پرتگالی“یہاں پہنچ گئے اور ان کے پیچھے پیچھے ہوس اقتدارکے پجاری پوری دنیاکو غلامی کے غار میں دھکیلنے والے دیگرسیکولریورپی اقوام جن میں فرانسیسیوں کا تزکرہ قابل ذکر ہے وہ بھی سینیگال کے ساحلوں پر لنگراندازہوئے،نیدرلینڈ اور برطانیہ نے بھی طالع آزمائی کی لیکن 1677میں فرانس یہاں کے تمام علاقوں پر بلا شرکت غیرے قابض ہو چکاتھا۔افریقہ سے غلاموں کی تجارت اور یہاں کی کانوں میں ہیروں کی موجودگی ان یورپی اقوام کی”شان نزول“تھی جوآج تمام انسانوں کو ”انسانیت“کاسبق سکھانے چلے ہیں۔1850تک فرانسیسی یہاں سے انسانوں کو غلام بناکریورپ برآمدکرنے کی تجارت پرمکمل طورپر حاوی رہے،سینیگال سے ”انسانوں“ کوشکارکرکے ”گورے“نامی جزیرے پر جمع کیاجاتااور وہاں سے یہ انسانی غلام ”انسان دوست“یورپ کو”انسانیت کی خدمت“کے لیے”انسانیت کے نام پر“ برآمد کر دیے جاتے۔سینیگال کے علاقوں کے مقامی بادشاہوں نے اور قبائلی سرداروں اور ان کی نجی افواج نے بہت زیادہ مزاحمت بھی کی لیکن ”سیکولرازم“کی دو رنگی کے سامنے ان کی کچھ نہ چل سکی اور انسانیت سے عاری یہ یورپی درندے حال کی طرح ماضی میں بھی انسانی بستیوں پر شب خون مارتے رہے۔تآنکہ دو بڑی بڑی جنگوں نے جب یورپ کی عسکری و معاشی کمر توڑ کر رکھ دی تب انسانیت کے ان بیوپاریوں کو ”انسانی حقوق“یادآنے لگے جن کے تحت انہوں اپنی ٹانگ گھماکراوپررکھنے کے مصداق دیگردنیاؤں کو آزادیاں دینا شروع کیں۔انیسویں صدی کے آخر میں مسلمانوں نے یہاں ایک زبرست تحریک آزادی چلائی اور بہت قربانیاں دیں۔اس تحریک کے نتیجے میں جنوری1959میں سوڈان اور سینیگال نے مل کر مالی فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور فرانس سے آزاد ہو گئے۔4اپریل1960کو ایک معاہدے کے تحت فرانسیسی انتظامیہ نے سینیگال سے مکمل انخلا کر لیا چنانچہ یہ تاریخ سینیگال کی یوم آزادی کے طورپر منائی جاتی ہے۔لیکن چند ماہ ہی اکٹھے رہنے کے بعد سینیگال اور سوڈان الگ ہو گئے۔
یہاں پر خشک ہوائیں چلتی ہیں،بارش کی شرح بہت کم ہے،جون سے اگست تک کہیں کہیں بارشیں ہوتی ہیں لیکن انکی بھی سالانہ شرح بیس انچ سے زیادہ نہیں ہے۔17سے 40ڈگری سینٹی گریڈ تک یہاں کادرجہ حرارت رہتا ہے،سمندر کے کنارے ہونے کے باعث زیادہ گرمی اور زیادہ سردی سے یہ ملک محفوظ ہے۔ایک زمانے میں سینیگال کے جنگلات میں بڑے بڑے جانور ملتے تھے لیکن انسانی آبادی میں اضافے کے باعث اب ان جانوروں کی تعداد کم پڑتی جارہی ہے یا پھر یہ بڑے بڑے جانور جیسے ہاتھی،شیر اور دیگرجنگلی جانور سینیگال کی حدود سے نکل کر پڑوسی ممالک اور دریا کے ساتھ ساتھ کے جنگلات میں ہجرت کر گئے ہیں۔
معاشی طور پرسینیگال دو حصوں پر مشتمل ہے،مغربی حصہ جو امیر ہے اور یہاں کے لوگ خوشحال ہیں،جبکہ بقیہ ملک کے لوگ بہت غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔آزادی سے پہلے یہاں کی معیشیت مکمل طور پر فرانسیسی کمپنیوں کے ہاتھ میں تھی جو یہاں سے مونگ پھلی کی فصل اونے پونے داموں خریدتے تھے اور اسے پورے یورپ میں بھاری نفع کاری پربرآمد کرتے تھے۔آزادی کے بعد سے سینیگال کی حکومت نے ایک سرکاری ادارہ بنایا جو اس فصل کے جملہ امور کی نگرانی کرتاہے۔اگرچہ اب بھی مقامی اور غیرمقامی نجی ادارے بہت وسیع پیمانے میں اس فصل کی کاشت سے برآمد تک ملوث رہتے ہیں لیکن حکومت ان اداروں سے اپنا حصہ اور اپنی عوام کاحصہ بھی مناسب طور پر وصول کرتی ہے کیونکہ زرمبادلہ کا یہ قدرتی اور بہترین ذریعہ ہے۔سینیگال میں فاسفیٹ جیسی معدنیات کے بھی وسیع ذخائر ہیں اور کچھ عرصہ پہلے تیل بھی دریافت ہوا ہے جو اس ملک کی سرزمین کے نیچے موجود ہے۔سمندر کے کنارے ہونے کے باعث مچھلی کی صنعت بھی اس علاقے کی بہت نفع آور صنعت ہے جس سے ساحل کے قریب رہنے والے بے شمارلوگوں کا روزگار وابسطہ ہے،مچھلی درآمد بھی کی جاتی ہے اور 1980ء کے سروے کے مطابق مچھلی سے حاصل ہونے والا زرمبادلہ مونگ پھلی کی نسبت بہت زیادہ تھا۔یہاں پر فارمنگ کے بھی بہت اچھے مواقع میسر ہیں اور بھیڑ،بکری،گھوڑے اوربندروں کی متعدد فارم ملک کے بیشترعلاقوں میں ملتے ہیں۔
سینیگال میں پہلا دستور1963ء میں تیار کیاگیااور اس کے بعد سے اب تک میں متعدد ترامیم کی جاچکی ہیں۔اس دستور میں بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ،سیاست اور مزدور یونین کی قدرومنزلت،مذہبی آزادی کی یقین دہانی اورذاتی و اجتماعی جائدادوں کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔یہاں کا دستور خالصتاََ صدارتی نوعیت کا ہے،صدر مملکت کو عوام الناس براہ راست منتخب کرتے ہیں پھر صدر وزیراعظم کاتقررکرتاہے جس کی مدت سات سال ہے جبکہ قومی اسمبلی کے اراکین بھی عوام کے ذریعے منتخب ہوکر پانچ سالوں کے لیے آتے ہیں۔وزیراعظم حکومت سازی کے لیے وزرا کا تقرری عمل میں لاتا ہے۔آئین کے تحت عدلیہ،مقننہ اور انتظامیہ الگ الگ اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔سینیگال میں دس صوبے ہیں ہر صوبے میں ایک گورنراور دو اسکے نائب گورنر ہوتے ہیں،ایک انتظامی امور کا ذمہ ذمہ دارہوتا ہے جبکہ دوسرا نائب گورنر ترقیات کی نگرانی کرتاہے۔صوبوں کی سطح پر منتخب شدہ علاقائی کونسل بھی ہوتی ہے جس کے اراکین انتظامیہ کے ساتھ مل صوبے کا نظم و نسق چلاتے ہیں۔دوسری جنگ عظیم سے پہلے صرف سرداران قوم ہی اپنی رائے استعمال کرتے تھے لیکن اب پوری قوم انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرتی ہے۔سینیگال کی حکومت نے تعلیم پر بھی بہت توجہ دی ہے خاص طور پر دیہایی علاقوں میں بہت سے اسکول کھولے گئے ہیں۔1957ء سے یہاں پر اعلی تعلیم کے ادارے بھی کام کر رہے ہیں تاہم سینیگال کافرانس سے اعلی تعلیم کے لیے معاہدہ بھی موجود ہے۔سینیگال میں بہت سے فنی تعلیم کے ادارے بھی موجود ہیں۔
سینیگال میں گیارویں صدی میں اسلام متعارف ہوا اور اس تیزی سے پھیلا کہ آج وہاں 96%آبادی مسلمان ہے۔فرانس نے سینیگال کو سیکولر ریاست بنایاتھا،آزادی کے بعد سے مسلمان مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ سینیگال کواسلامی ریاست کا درجہ دلایا جائے لیکن وہاں کی حکومت یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہے۔ سینیگال کے مسلمانوں پر تصوف کا بہت غلبہ ہے اور ہر مسلمان کسی نہ کسی سلسلہ میں بندھا ہے۔زیادہ تر مسلمان ”سلسلہ تیجانیہ“سے بیعت ہیں۔اس سلسلے کے بانی بزرگ کا اسم گرامی”ابوالعباس احمد بن محمدتیجانی حسنی“ہے۔اس سلسلے کے بزرگ ”احباب“کے نام سے جانے جاتے ہیں اور ان کے ہاں سب زیادہ معروف کتاب کانام ”کشف الحجاب“ہے۔وہاں کے مسلمان بزرگوں نے ”طوبی“‘نامی ایک شہر بسایا ہے جہاں پر کوئی حکمران،کوئی پولیس اور کوئی انتظامیہ نہیں ہے اسکے باوجودوہاں جرائم بالکل بھی نہیں ہیں اور شراب،سگریٹ،موسیقی اور نام نہاد مغربی طرزسیاست کا کوئی وجود نہیں۔سب سے بڑا بزرگ خود بخود سے اس شہر کے جملہ معاملات کا نگران ہوتا ہے۔”طوبی“ وہاں کی ایک مسجد کانام ہے جس میں ایک بزرگ کا مقبرہ بھی ہے،اس مسجد کے پانچ مینار ہیں اور یہ سفید رنگ میں رنگی مسجد ہے۔اس کے باوجود بھی وہاں اب ایک سیاسی تحریک موجود ہے جو تصوف سے حقیقت کی طرف اپنی مسلمان قوم کو لانا چاہتی ہے۔مسلمانوں نے وہاں پر قرآن مجید کی تعلیم کے لیے متعدد ادارے قائم کررکھے ہیں جن میں مسلمانوں کی آئندہ نسل وحی الہی کی تعلیمات کے ذریعے زیور انسانیت سے آراستہ ہوتی ہے۔یہاں پر قرآن کے حفظ کا بھی اہتمام کیاجاتاہے،ایک خاص مدت تک بچہ جتنا حفظ کرسکے اس کے بعد اسے عربی مدارس میں یا دیگر تعلیمی اداروں میں بھیج دیاجاتاہے۔