خواجہ علی حسن نظامی اردو انشاءپردازی کے ایک مشہور و معروف ادیب گزرے ہیں۔ اُن کے دلچسپ اور اثرانگیز افسانے اُن کی شہرت کا باعث بنے۔علم دوست شخصیتوں نے علی حسن کے سفرناموں، افسانوں اور مضامین کو اپنے کتب خانوں کی زینت بنایا اور بہت کم عمر میں ہی وہ ایک صاحبِ طرز نثر نگار کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے۔ اُنہوں نے معمولی مضامین خوبصورت اور دِل نشین انداز میں رقم طراز کئے اور اردو نثر کو جدت کی راہ پر گامزن کر دیا۔ آپ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے علامہ اقبال فرماتے ہیں:
اگر میں خواجہ حسن نظامی جیسی نثر لکھنے پر قدرت رکھتا ہوتا تو کبھی شاعری کو اظہارِ خیال کا ذریعہ نہ بناتا۔ بلاشبہ اردو نثر نگاروں میں خواجہ حسن نظامی کی ذات قابلِ قدر ہے اور وہ ایک منفرد رنگ کے مالک ہیں۔
چند تصنیفات
دہلی کا آخری سانس
بیگمات کے آنسو
بہادر شاہ کا مقدمہ
آپ بیتی
بیوی کی تعلیم
اولاد کی شادی
غدرِ دہلی کے افسانے
خاک بیتی
اوس
شہزادی کی بپتا
سی پارہدل
میلاد نامہ
طرزِ تحریر کی خصوصیات
خواجہ حسن نظامی کے طرزِ تحریر کی خصوصیات درج ذیل ہیں:
(۱) سادگی و سلاست
خواجہ حسن نظامی زبان و بیان کی سادگی سے کام لیتے ہیں اور نہایت سہل زبان کو استعمال کرتے ہوئے بڑے مشکل مطالب بیان کر جاتے ہیں۔عام فہم الفاظ کے خوبصورت استعمال کی بدولت اُن کے نثر کی خوبصورتی برقرار رہتی ہے اور بوجھل پن محسوس نہیں ہوتا۔
بقول رام بابو سکسینہ:
خواجہ صاحب کی تحریریں نہایت سادہ، سلیس اور دلکش ہوتی ہیں۔
(۲) شوخی و ظرافت
زبان کی چاشنی اور چٹکلوں سے خواجہ حسن نظامی نے اپنی تحریروں میں مزاح کا رنگ پیدا کیا ہے۔ وہ جب کبھی مزاح کی چٹکی لیتے ہیں تو عام اور سیدھی بات کو گلاب کی سی رعنائی بخش دیتے ہیں۔ اُن کے مضامین میں عبارات ظرافت، شوخی اور لطافت کی چاشنی سے معمور نظرآتی ہیں۔
مثال کے طور پر وہ اپنے ایک مضمون پیاری ڈکار میں لکھتے ہیں:
یہ نئے فیشن کے مچھر کو زور سے ڈکار نہیں لینے دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ڈکار لینے لگے تو ہونٹوں کو بھینچ لو اور ناک کے نتھنوں سے اُسے چُپ چاپ اُڑا دو۔ آواز سے ڈکار لینی بڑی بدتمیزی ہے۔
ایک خط میں لکھتے ہیں:
میڈیکل اسٹور کی طرف جانا ہو تو میرے پیارے ڈاکٹر کا کان مڑوڑ دینا اور پریمی پیارا ملے تو اُسے منہ چڑا دینا۔
(۳) ندرتِ موضوعات
خواجہ صاحب کا کمالِ فن اُس وقت عروج پر نظر آتا ہے جب آپ کے انوکھے اور اچھوتے مضامین نظر سے گزرتے ہیں۔ انہوں نے نہایت انوکھے موضوعات پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے اپنی مہارت کی معراج کو پایا اور بڑی خوبصورتی سے اِن مضامین کو پُر لیف بنا دیا۔
ایک مضمون گلاب تمھارا کیکر ہمارا میں لکھتے ہیں:
آخر یہ میاں گُلا ب کس مرض کی دوا نہیں۔ پیٹ میں درد ہو تو گل قند کھلاﺅ، ہیضہ ہو جائے تو گلاب پلاﺅ اور اگر مر جاﺅ تو قبر پر چڑھاﺅ۔
اِس کے علاوہ اُن کا یہ رنگ مندرجہ ذیل مضامین میں نظر آتا ہے:
جھینگر کا جنازہ
مچھر کا اعلانِ جنگ
دیا سلائی
مٹی کا تیل
فرام قبلہ ٹو شملہ
پیاری ڈکار
سوز و گداز
علی حسن صاحب کی بعض تحریروں میں درد و الم کا عکس نظر آتا ہے۔ خاص طور پر اُن کی تصنیف غدرِ دہلی کے افسانے کے مطالعے کے بعد ایسا لگتا ہے گویا مصنف نے تحریر اپنے خونِ دل سے رقم کی ہے۔ وہ اس قدر جذباتیت کے ساتھ رنج و الم کی تصویر کشی کرتے نظر آتے ہیں کہ قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
شہزادی کی بپتا میں لکھتے ہیں:
باﺅ بلبلا گئی۔ وہ کبھی پھول کی چھڑی سے نہ پٹی تھی۔ اب ایسا طمانچہ لگا کہ اُس کے رونے سے مجھ کو بھے بے اختیار روناآ گیا۔
(۵) عارفانہ وصوفیانہ طرزِ بیان
ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ حسن علی ایک صاحبِ دل صوفی بھی تھے۔ رشد و ہدایت کی مسند انہیں ورثے میں ملی تھی۔ وہ اپنے خیالات کو قلم بند کرتے ہوئے معرفت الٰہی کے رنگ میں بڑی خوبصورتی سے پرو دیتے ہیں۔ اسلوب میں والہانہ جوش اور ایک سچے عاشق کے دل کی صدا سنائی دیتی ہے۔
بقول رام بابو سکسینہ:
خواجہ صاحب کی کتاب کرپشن بیتی کو اہلِ اسلام اور خاص کراربابِ تصوّف نے بہت پسند کیا۔
(۶) محاورات و اختصار پسندی
نثرنگار کے مضامین کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ کی تحریروں میں فقرات مختصر اور جامع ہوتے ہیں۔ آپ آزاد کی طرح چھوٹے مگر با محاورہ جملے ترتیب دیتے ہیں جن میں روانی اور لطافت کا عنصر نمایاں طور پر پایا جاتا ہے۔ آپ کی تحریروں میں تسلسل کا دارومدار اِنہیں مختصر،سادہ و شیریں جملوں پر ہے۔
(۷) جذبات نگاری
خواجہ حسن نظامی کی تحریریں انسانی زندگی کے سچے واقعات کی عکاس ہیں۔ آپ اِن واقعات کوترتیب دیتے ہوئے جذبات کے اظہار کا بھرپور خیال رکھتے ہیں۔ مطالعہ کرنے کے بعد قاری کے دل و ذہن پر متاثر کن اثر باقی رہتا ہے جو قاری کے دلی جذبات سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔
بیگمات کے آنسو میں وہ لکھتے ہیں:
مجھے بخار چڑھ رہا ہے۔ میری پسلیوں میں شدت کا درد ہو رہا ہے۔ مجھے سردی لگ رہی ہے۔ میری ماں مجھ سے بچھڑ گئی ہے اور بابا حضرت جلا وطن ہو گئے۔ میں اینٹ پر سر رکھے لیٹی ہوں۔ میری بدن میں کنکر چبھ رہے ہیں۔ بابا اٹھو! کب تک سو گے؟
ناقدین کی آراہ
خواجہ علی حسن نظامی کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے مختلف نقاد اُن کی تعریف بیان کرتے نظر آتے ہیں۔
صلاح الدین احمد کہتے ہیں:
خواجہ صاحب کو رنج و الم کے مضامین بیان کرنے کا جو سلیقہ ہے اُس میں علامہ راشد الخیری کے علاوہ اُن کا کوئی ہم پلہ نہیں۔
بابائے اردو مولوی عبد الحق بیان کرتے ہیں:
اگر تم صاف ستھری اور نکھری ہوئی اردو پڑھنا اور سیکھنا چاہتے ہو تو خواجہ صاحب کی نثر پڑھو۔ زبان کے ساتھ ساتھ دلّی کے واقعات کا بھی ایک جہاں آباد ہے۔
اُن کے کسی دوست کا کہنا ہے:
حسن نظامی کی پیری اور پیرزادی نے اُن کی انشاءپردازی کو چمکایا اور اُن کی انشاءپردازی نے اُن کی پیرزادی اور پیری کو شہرت دی۔
ڈاکٹر کلیم الدین احمد کہتے ہیں:
خواجہ صاحب کا اصل رنگ، خواجہ صاحب کی اصلی اہمیت اُن کی انشاءہے۔ وہ نہایت ہی آسان ، سادہ اور پُر تکلف طرز میں لکھتے ہیں۔.!!