٣٠ جنوری : آج ایک مخصوص نظریہ کی حکومت نے گاندھی کو مار ڈالا
گاندھی مرنے کے بعد بھی زندہ تھے . گوڈسے اسی دن مر گیا جس دن اس نے گاندھی کو مار ڈالا .
ایک خوبصورت اور مہذب دنیا یہ سوچ کر خوش ہوتی رہی کہ گاندھی کسی انسان نہیں آئیڈیا لوجی کا نام ہے .انسان مرتا ہے ،آئیڈیا لوجی زندہ رہتی ہے .
لیکن کیا یہ محض خوش فہمی ہے ؟
آج ٣٠ جنوری ہے . اخبارات /میڈیا سب خاموش رہے ..گاندھی کو یاد کرنے کی پرانی روایت توڑ دی گی .
گوڈسے کو زندہ رکھنے والے مخصوص نظریات کے حامی خوش ہو گئے .خوش ہو گئے کہ گاندھی کو انہوں نے جلا وطن کر دیا .
اب مسلمانوں ،دلتوں کو بھی آسانی سے جلا وطن کر دینگے ..
کیا گاندھی کو مارنا ، ستر برس بعد جلا وطن کرنا آسان ہے ؟ وہ خوش ہیں کہ دلال میڈیا ،اخبارات ، سرکش اور اشتعال انگیز بیانات کا سہارا لے کر انہوں نے گوڈسے کا مندر تک بنا دیا . کیا یہ انکی بھول ہے کہ گاندھی ہر روشن دل میں کل بھی زندہ تھا ،آج بھی زندہ ہے ..
وہ اب بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ ٣٠ جنوری کی ی پرانی روایت کو ختم کر کے گوڈسے کو زندہ کر دینگے ..کچھ ماہ قبل ایک سرپھرے نے ہائی کورٹ میں گوڈسے کو بے گناہ ٹھہرانے کی ایک عرضی بھی داخل کی تھی .جسے کورٹ نے پہلی نظر میں ہی خارج کر دیا .
گاندھی کو سمجھنا ہوگا —-
گاندھی کے نظریات و افکار کی ایک دنیا معترف ہے .ایک وقت تھا جب ان نظریات نے عالمی سیاست کو متاثر کیا ..پھر ہم ایک ایسے عھد سے وابستہ ہو گئے جہاں ان نظریات کی چنداں ضرورت نہ تھی .گاندھی کے عھد میں بھی پہلی اور دوسری جنگ عظیم نے انسانی معاشرہ اور تھذیب و ثقافت کو داغدار کیا لیکن جنگ اور تشدد سے پیدا شدہ تباہیوں سے گاندھی نے یہ سیکھا کہ آزادی کے لئے عدم تشدد کا فلسفہ لے کر آ گئے اور حکومت برطانیہ کے ساتھ عالمی سیاست کو بھی حیران ہونا پڑا کہ وہ قیادت کی اس نیی رسم سے واقف نہیں تھی .عدم تشدد کا فلسفہ ایسا ہتھیار ثابت ہوا کہ فرنگی گاندھی اور انکے نظریات سے خوف محسوس کرنے لگے …کیا کویی سوچ سکتا تھا کہ ساؤتھ افریقہ کا سوٹڈ بوٹڈ بیرسٹر گاندھی جب اپنے ملک ہندوستان اے گا ..تو سب سے پہلے وہ ہندوستانی شناخت کو سمجھنے کے لئے ہندو ستان کے دور دراز گاؤں کا دورہ کریگا ..کیونکہ آج بھی اصل ہندوستان کی روح کا رشتہ گاؤں سے ہے …ہندوستان کی ثقافت اور جڑوں کے تفصیلی اور گھرے مطالعہ کے بعد موہن داس کرم چند گاندھی نے اس روٹس کو محسوس کر لیا جس کی جڑیں ہر ہندوستانی کے دل تک پھیلی ہوئی تھیں …یہ حقیقت ہے کہ گاندھی نہ آتے تو حکومت برطانیہ کا تسلط کبھی ختم نہ ہوتا …اب ایک نیے گاندھی کا جنم ہوا .جس نے سو دیشی کا نعرہ دیا … خود چرخہ لے کر بیٹھا ..سوٹ بوٹ اتار پھیکا ..اپنے لباس، سوٹ کے دھاگوں سے تیار کرنے لگا …یہاں تک کہ کستوربا کو بھی اپنے مشن میں شامل کر لیا ….یہ گاندھی کا مشن تھا ..کہ ہندوستانی انگریزوں کی بنایی چیزوں سے فاصلہ رکھیںگے …نمک بھی تیار کرینگے …اپنے لباس کے لئے اپنے ہاتھوں کے محتاج ہونگے …حکمت برطانیہ کے ظلم کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکیںگے ..عدم تشدد کا سہارا لے کر انھیں شکست دینگے …یہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ہوا جب چرچل کے نیم عریاں فقیر کے جذبے ،ضد اور فلسفوں نے حکومت برطانیہ کو جھکنے پر مجبور کر دیا ….آزادی کے ساتھ ملک کو بھیانک فرقہ وارانہ فسادات کا تحفہ ملا ..جب ملک آزادی کا جشن منا رہا تھا ،گاندھی نوا کھلی میں متاثریں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لئے بھوک ہرتال پر بیٹھے تھے …گاندھی جسے اقتدار کا کویی نشہ نہیں تھا ..ہے رام کہتے ہوئے جس نے آرام سے گوڈسے کے پستول سے نکلنے والی گولیوں کو قبول کر لیا ….اقتدار کے بھوکے سماج میں کیا آج کے دور میں کسی گاندھی کا تصور کیا جا سکتا ہے ؟
یہ اس ملک کی موت ہے جہاں گاندھی کی نا قدری کے بعد بھی عوام خاموش ہے …جہاں پہلے گوڈسے کی نمائندگی کرنے والے گاندھی کی آنکھوں سے عینک اتارتے ہیں پھر گوڈسے کو عینک پہنانے کی کوشش کرتے ہیں . .یہ یاد رکھیے کہ ان تین برسوں میں گوڈسے کے مندر بھی بنتے رہے ہیں ..مندروں میں باضابطہ پوجا بھی ہوتی رہی ہے ..بھکتوں کا آنا جانا بھی رہا ہے .پہلے گوڈسے کے نام پر خاموش ہو جانے والے اب سینہ تان کر گوڈسے کے قصیدے پڑھ رہے ہیں …گاندھی کا چشمہ بے دردی سے نیے نوٹ پر چپکا دیا گیاہے ،ممکن ہے اگلی بار سرکاری کرنسی سے گاندھی کا چہرہ ہی گم کر دیا جائے .اس چہرے کی جگہ گوڈسے کا چہرہ آ جائے تو کوئی حیرت نہیں .کیونکہ انکے پاس اقتدار کی طاقت ہے .ایسی طاقت جہاں دلیلیں کام نہیں آتیں . ..
.انسانن کی موت کو گاندھی مذہب اور تقسیم کی آنکھوں سے نہیں دیکھتا تھا ….وہ چرخہ چلاتا تھا ..وہ کھادی سے اپنے کپڑے بنتا تھا ..وہ ایک نے ہندوستان کا خواب دیکھتا تھا . اسے اپنے لئے کچھ بھی نہیں چاہیے تھا . …وہ محبت کی ایک روشن مثال بن چکا تھا . ..ایک مضبوطی ..یہ نام ہمیں شکست کے ماحول میں حوصلہ دیتا تھا ..یہ نام قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہمہ آہنگی کے لئے ایک مثال تھا …آج اس نام کو گوڈسے کی ذہنیت والوں نے روںد دیا ہے …انگریز بھی گاندھی کی عظمت کے قایل تھے …آج گاندھی کی عظمت سے انکار کرتے ہوئے بی کچھ شر پسند لیڈران یہاں تک کہتے نظرآتے ہیں کہ ہم گاندھی کو ملک سے نکال باہر کرینگے …اس بیان پر کانگریس کا رد عمل بھی شدید نہیں رہا .ملک خاموش ہے .. ..کیا ملک نے گاندھی کی موت کے جشن کے لئے خود کو تیار کر لیا ہے ؟کیا گاندھی کے بغیر آزادی اور ملک کا کویی تصور باقی رہ سکتا ہے …کہیں ایسا تو نہیں کہ گوڈسے کے حمایتی ہماری قوت برداشت کا امتحان لے رہے ہوں …ہماری خاموشی ہماری ناکامی ہی گوڈسے کی جیت ہے ..
کیا ایسا ہوگا ؟ ہندوستان خاموش ہے .عوام خاموش …لیکن یہ خاموشی کچھ کہتی ہے …ہم نے گاندھی کو کھو دیا تو ہم ملک کو کھو دینگے — گاندھی کسی شخص کا نہیں نظرئیے کا نام ہے …پر آشوب حالات میں اس نظرئیے کی ضرورت ہے …ہمیں اس نظریے کو قایم اور زندہ رکھنا ہوگا .
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“