تین یہودی رویوں کی کہانی
بابا کے ہاتھ میں قیمتی موبائل تھا،میں نے پوچھا بابا،آج آپ قیمتی موبائل کے ساتھ؟بابا نے فرمایا،یار آج میں نے ریس کورس پارک جانا ہے اور تمہاری تصاویر بنانی ہیں ۔میں نے کہا وہ کیوں ؟بابا نے کہا فوٹو گرافی کرنے کو جی کررہا ہے اور وہ بھی تمہاری۔بابا کی باتیں سن کر مجھے ہنسی آگئی،+ ۔اور پھر ہم دونوں پارک پہنچ گئے ۔میں نے کہا بابا کیااس موبائل سے آپ کی بھی فوٹو گرافی ممکن ہے؟بابا نے کہا آج نہیں،اگلے جمعہ ۔آج تو اجمل شبیر کی ہی تصویریں بنیں گی ۔میں نے کہا، ٹھیک ہے بابا، جیسے آپ کی خواہش ۔دن کے دو بجے تھے ،پارک تقریبا خالی تھا ۔مسلمان مسجدوں میں عبادت گزاری میں مصروف تھے ۔فطرت کی دلکشیاں اور رنگینیاں اپنے عروج پر تھی ۔کہیں کہیں پارک کے کونوں کھدروں میں محبت کرنے والے جوڑے راز و نیاز کی باتیں کرتے نظر آئے ۔جمعہ کے دن جب پارک میں دوپہر کے وقت رش کم ہوتا ہے تو محبت کرنے والے حسین جوڑوں کا رش پارک میں اچانک بڑھ جاتا ہے۔ بابا نے میری ڈھیر ساری تصویریں بنائی اور جب بور ہو گئے تو کہنے لگے ،شبیر چلو کسی حسین درخت کے نیچے کچھ دیر آرام و سکون سے بیٹھتے ہیں اور مزے مزے کی باتیں کرتے ہیں ۔ہم درخت کے نیچے بیٹھ گئے ۔ کچھ دور ایک لڑکی اور لڑکا شرارتیں کرتے دیکھائی دیئے ۔دونوں سیلفی بنانے میں مصروف تھے ۔سیلفی بن گئی ۔پھر اچانک کیا ہوا کہ لڑکی رقص کرنا شروع ہو گئی ۔بابا اس منظر کو دیکھ کر خوش ہوئے اور کہنے لگے کاش کچھ انسان ہمیشہ عبادت میں مصروف رہیں اورکچھ محبت کرنے والے ہمیشہ اسی طرح محبت بھرا رقص کرتے رہیں ۔کاش کچھ ایسا ہو جائے کہ ان محبت کرنے والوں کو بھی آزادی نصیب ہو ۔میں نے کہا بابا، فکر نہ کریں عبادت گزار کچھ دیر میں پارک میں بھی آجائیں گے اور ان کا رقص ختم ہو جائے گا ۔میری بات سنتے ہی بابا نے کہا، بیٹا زندگی اسی لڑکی کی مانند ہے، جو اپنے محبوب کو رقص کی دنیا میں مدہوش کئے ہوئے ہے ، زندگی انجوائے کرنا اس کا بھی حق ہے۔اس کے بعد بابا خاموش ہوکر بیٹھ گئے ۔لڑکی اور لڑکے کی سرمستیاں و خرمستیاں جاری رہیں تھی،دونوں شرارتی بچے ننگے پاؤں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے ۔بابا خاموش تھے ،ان کی آنکھیں بند تھی ۔آسمان پر پرندوں کا ہجوم تھا ۔درخت مستی کی کیفیت میں تھے ۔میں آرام سے بیٹھا فطرت کے حسن کی دلکشی کا منظر دیکھ رہا تھا ۔اچانک بابا نے کہا،آج کل کیا کررہے ہو؟میں نے کہا ،بابا آجکل کارل مارکس کی شان میں گستاخیاں کررہاہوں اور کمیونزم پر تنقید کے تیر چلا رہاہوں ۔اسی وجہ سے کامریڈ بھائی تگڑی گالیوں سے مجھے نواز رہے ہیں ۔میری باتیں سن کر بابا مسکرائے اور کہنے لگے ،اجمل شبیر کارل مارکس کا کمیونزم خوف کی پیداوار ہے۔لیکن پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کمیونزم کبھی بھی اب اس دنیا میں اپنی بدصورتیاں پیدا نہیں کر پائے گا ۔ہاں اس انسانی دنیا میں کمیونسٹ انقلاب ممکن ہے،لیکن وہ انقلاب مارکس جیسے حاصد انسان کے خیال جیسا نہیں ہوگا ۔میں نے پوچھا بابا ،کارل مارکس عظیم برین تو تھا ؟بابا نے کہا وہ عظیم زہن ضرور ہو گا ۔اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ کارل مارکس کتابی کیڑا تھا لیکن لکیر کا فقیر بھی تھا ۔اس نےساری زندگی برطانیہ کے میوزیم میں کتابوں کے ساتھ فنا کردی ۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مارکس کو حقیقی انسانیت کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا ۔یہ سن کر حیران ہو جاؤگے کہ اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ انقلاب کیسے آتا ہے ؟یہی وجہ ہے کہ اس کا کمیونزم ناکام ہوا ۔وہ اس قدر کتابیں پڑھتا تھا کہ کبھی کبھار بے ہوش بھی ہوجاتا تھا اور ایمبولینس کے زریعے اسے اسپتال پہنچایا جاتا تھا ۔کارل مارکس صرف ایک دماغ تھا اور دماغ ہمیشہ حقائق سے ناوقف رہتا ہے ۔مارکس بھی پوری زندگی حقائق اور زندگی سے بے خبر رہا ۔وہ ایک اسکالر ضرور تھا ،لیکن اس نے جو لکھا، وہ درست ثابت نہیں ہوا، یہی ایک مدحوش دماغ کا مسئلہ رہا ہے ۔میں نے پوچھا، بابا اس کا کمیونزم کیوں ناکام ہوا؟بابا نے کہا، حضرت مارکس سوچتے تھے ،ان کا کمیونزم دنیا کے امیر ترین ملکوں سے شاندار انداز سے نمودارہوگا ،کیونکہ اس کے نظریئے کا منطقی نتیجہ بھی تو یہ تھا کہ جہاں امیر اور غریب کے درمیان بہت بڑی خلیج پیدا ہو جائے گی وہاں یہ کمیونزم برپا ہوگا ۔اس نے سوچا تو یہ تھا کہ برطانیہ ،امریکہ یا جرمنی میں کمیونزم آئے گا لیکن بدقسمتی سے مارکس کا انقلاب روس اور چین میں وحشی جٹ کی طرح سامنے آیا ۔بابا نے مسکراتے ہوئے کہا اب اگر کارل مارکس قبر سے اچانک اٹھے ،تو اسے یقین نہیں آئے گا کہ اس کے طبقاتی جدوجہد کے نظریئے کا کیا حشر ہو چکا ہے؟اسے یقین نہیں آئے گا کہ چین اور روس جیسے ملکوں میں اس کا انقلاب برپا ہوگیا ہے ۔اس لئے مارکس کی ہر بات غلط ثابت ہوئی ہے ۔بابا نے لمبی سانس لیتے ہو ئے کہا ،کاش مارکس دل و روح جیسی حسین و دلکش اور خوبصورت توانائی سے مزین ہوتا ،اگر ایسا ہوتا تو اس کے نظریئے کی خوبصورتی جہاں میں رقص برپا کئے ہوتیں ۔کاش زندگی میں ایک مرتبہ اپنے اندر کی دنیا کا مراقبہ ہی کر لیتا ۔لیکن مارکس کے دماغ میں جو آیا وہ لکھتا گیا ۔اس لئے وہ ایک نظریئے کا گاڈ بن بیٹھا۔اس مارکس نے پھر فریڈرک اینجلز اور لینن کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ۔۔اور پھر یہ تینوں اس زمین پر لاکھوں انسانوں کے گاڈ بن گئے ۔اس لئے کمیونزم اور انسانیت کی بربادی ہوئی ،کمیونزم کے کنگ سٹالن جیسے بدکردار اور طاقت کے پجاری انسان نے لاکھوں انسان مروادیئے ۔اب دنیا کو کارل مارکس جیسے فلاسفر اور اس کی کتاب داس کیپیٹل کی کوئی ضرورت نہیں ۔اس کتاب کو اب قصے کہانیوں کی کتاب سمجھ کر اندھیری کوٹھری میں رکھ دینا چاہیئے ۔اسے پڑھنے یا عمل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ انسان دشمن نظریاتی کتاب ہے ۔جو شاید انسانوں کے لئے نہیں روبوٹس اور مشینوں کے لئے لکھی گئی تھی ۔ ۔بہت تباہی برپا کر چکے وہ لوگ جو اپنے آپ کو انقلابی یا کامریڈ کہتے تھے ۔یا کہتے ہیں ۔بابا نے کہا، کارل مارکس ،سگمنڈ فرائیڈ اور آئن سٹائن تینوں یہودی تھے ، دنیا پر غلبہ پانا ہمیشہ کا ان کا خواب رہا ہے ۔بابا نے کہا ،یہ نہ سمجھنا کہ میں یہودیوں کے خلاف بات کررہاہوں۔میری نگاہ میں یہودی کوئی زات یا نسل نہیں ہے ۔یہودیت ایک رویئے کا نام ہے ۔یہ تینوں عظیم لیجنڈز تھے ۔اقتصادیات کے حوالے سے کارل مارکس غلط ثابت ہوا ۔دماغ وزہن کی توضیح و تشریح کے حوالے سے فرائیڈ غلط ثابت ہوا، البتہ آئن سٹائن اپنے اصولی سائنسی نظریات کے حوالے سے حق بجانب تھا ۔لیکن آئن سٹائن سے بھی ایک غلطی ہو گئی ۔اس نے اس وقت امریکہ کے صدر روز ویلٹ کو خط لکھا تھا اور یہ تجویز دی تھی کہ امریکہ کی سلامتی کی خاطر ایٹم بم بنایا جانا جائے۔آئن سٹائن کے اس ایٹم بم نے پھر ہیروشیما اور ناگاساکی میں لاکھوں انسان کو خوف ناک موت دی ۔یہ آئن سٹائن کا قصور تھا ۔اس کے خط کی وجہ سے امریکہ میں ایٹم بم بنانے کا عمل شروع ہوا ۔۔بعد میں آئن سٹائن نے یہ غلطی تسلیم بھی کی تھی اور آخر میں اسی افسوس میں وہ مرگیا ۔مرنے سے پہلے اس نے کہا تھا ،اب وہ کبھی سائنسدان بنکر دنیا میں آنا پسند نہیں کرے گا ۔وہ پلمبر بن کر دنیا میں آسکتا ہے، لیکن ایٹمی سائنسدان بنکر نہیں آئے گا ۔بدقسمتی سے آئن سٹائن کو شعور اس وقت آیا،جب لاکھوں انسان مر گئے ۔آئن سٹائن ایک مدہوش اور حسد سے بھرپور دماغی انسان تھا ۔کاش اسے پہلے شعور سے واقفیت ہوجاتی اور اتنے انسان نہ مرتے ۔میں نے پوچھا بابا،آپ بھی تو حاسد ہیں ،یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں؟بابا نے کہا،بیٹا یہودی کوئی زات یا نسل نہیں ہے،یہ رویئے کا نام ہے ،میں پہلے ہی تمہیں بتا چکا ہوں اور بطور بابا میں کسی بھی رویئے کا مخالف ہو سکتا ہوں ۔یہودیت حساب کتاب کرنے والا رویہ ہے۔آئین و قوانین والا رویہ ہے ۔اس رویئے میں محبت نہیں ہے ۔اس رویئے میں شاعری ،موسیقی اور آرٹ و فطرت نہیں ہے ۔لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ صدی تین یہودیوں رویوں سے بھرپور رہی ہے ۔یہ صدی تین یہودی دماغوں کے ہاتھوں یرغمال رہی ہے ۔مارکس ،فرائڈ اور آئن سٹائن نے اس صدی پر حکمرانی کی ہے ۔یہ تینوں دماغی روبوٹس اور مادہ پرست تھے ۔ایک یہودی مارکس نے کہا زندگی کچھ بھی نہیں سوائے اکنامکس کے ،اس نے کہا مذہب بھی اکنامکس ہے ،فطرت کی تمام خوبصورتیاں بھی اکنامکس کی مرہون منت ہیں ۔یہ جنونی انسان مادہ پرست تھا ۔کارل مارکس نے شعور کی گہرائی کو بھی اکنامکس سے جوڑ دیا ۔اسی وجہ سے مارکس کے کمیونزم کو بدترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ۔فرائیڈ ہمیشہ یہ نظریہ دریافت کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ زندگی ناواقف اور لاشعور قوانین کا نام ہے ۔اس نے کہا تھا ،انسانی زندگی میں شعوری ایونٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔یہ ایک غیر فطری رویہ تھا، جو فرائیڈ لایا ۔بابا نے کہا کمیونسٹوں کا گاڈ مارکس کہتا ہے زندگی اکنامکس کی حکمرانی کا نام ہے ۔فرائڈ نے کہا ،ناواقف اور بدحواس لاشعوری کیفیت اور جبلت انسان کی زندگی پر حکمرانی کرتی ہے اور سائنس کے گاڈ آئن سٹائن نے کہا، انسان کی زندگی ایٹموں کا مجموعہ ہے اور کچھ بھی نہیں ۔یہ تینوں زندگی نہیں، کیلکولیٹرز تھے، وہ جو حساب کتاب کرتے ہیں، لیکن زندگی صرف حساب کتاب کا نام نہیں ہے ۔ یاد رکھو یہودی زات نہیں ہے ۔مسلمان بھی یہودی ہوتے ہیں ،عیسائی بھی یہودی ہوتے ہیں ،ہندو بھی یہودی ہوتے ہیں اور خود یہودی بھی یہودی ہوتے ہیں ۔یہ رویہ تمام انسانوں میں ہوتا ہے ۔یاد رکھو اس وقت نوے فیصد دنیا یہودی ہے ۔لیکن کبھی کبھار کوئی ایسا بندہ بھی پیدا ہوجاتا ہے جو یہودی نہیں ہوتا۔میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا ،بابا اس کا مطلب ہے آپ یہودی نہیں ہیں ۔بابا میری شرارت پر ہنس پڑے ۔بابا نے کہا وہ انسان جس کی زندگی محبت ہے ،وہ یہودی نہیں ہوتا ۔بابا نے شرارتی لڑکی اور لڑکے کی طرف اشارہ کیا ۔لڑکی نے اپنا سر لڑکے کی گود میں رکھا ہوا تھا ،لڑکا اس کے چہرے کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔بابا نے کہا، وہ دیکھو، ان دو خوبصورت انسانوں کو یہ یہودی نہیں ہیں ۔یہ محبت ہیں ۔جو ہر لمحے کو انجوائے کررہے ہیں ۔اور یہی انسانیت ہے ۔۔باقی انسانیت تو روبوٹ اور مشین بنی ہوئی ہے ۔بابا نے کہا، کارل مارکس بڑا شاطر بھی تھا ،جس نے اپنے دلائل سے اینجلز جیسے امیرترین انسان کو قائل کیا ۔اس نے اینجلز کو اس بات پر قائل کیا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام تمام مسائل کی جڑ ہے ۔اگر یہ نظام تباہ ہوگیا تو دولت برابری کی سطح پر تمام انسانوں میں تقسیم ہو جائے گی ۔اس طرح دنیا کے مسائل حل ہو جائیں گے ۔اس لئے وہ حاسد تھا ۔جس نے اپنے حسد کو خوبصورت لباس پہنایا اور دنیا کے لاکھوں انسانوں کو کامریڈ اور انقلابی بدمعاش بنادیا ۔اس نے انسانوں کو اپنے غلط نظریئے سے گمراہ کیا ۔امیروں کی دولت غریبوں میں تقسیم ہو گی تو کیا نتیجہ نکلے گا؟غریب امیر نہیں بن سکتا اور امیر غریب ہو سکتا ہے اور یہی کارل مارکس کی جیلسی تھی ۔اس نے اپنے ںطریئے سے غربت تقسیم کرنے کی کوشش کی ۔اس لئے بابا نے کہا، میں مارکس کے کمیونزم کے خلاف ہوں۔انسانوں کو برابری کی سطح پر امیر کیا جائے، نہ کہ برابری کی سطح پر غریب ۔ اس حوالے سے مارکس کی اپروچ انتہائی متعصبانہ تھی ۔دنیا میں اس وقت تین فیصد انسان امیرترین ہیں ۔ان کی دولت ستانویں فیصد غریبوں میں تقسیم ہو بھی جائے تو کیا ہوگا؟کیا غربت کے سمندر پر اسطرح قابو پایا جاسکتا ہے ۔جو انسان دولت پیدا کرتے ہیں، ان کی اس تخلیقی صلاحیت کا استعمال کرو ۔ان کو کہو کہ یہ آرٹ وہ دنیا کے ہر انسان کو سکھادیں، تاکہ سب امیر ہو جائیں ۔کیا ایسا ممکن نہیں ہے؟کیوں کارل مارکس نے ایسا نہیں کہا؟اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حاسد تھا۔غلبہ پانے کا خواہش مند ایک مایوس انسان جسے دنیا اب کارل مارکس کے نام سے جانتی ہے۔حقیقت میں وہ لوگ جو دولت پیدا کررہے ہیں، وہی تو ہیں جو دوسروں میں بھی دولت پیدا کرنے کی خواہش پیدا کرتے ہیں ۔ایسے انسانوں کو کیوں تباہ کیا جائے؟ان لوگوں کو استعمال کرو کیونکہ ان کے پاس دولت پیدا کرنے کی تخلیقی صلاحیت ہے ۔یار اجمل شبیر ،ہم یہاں فطرت کی دلکشیاں انجوائے کرنے آئے تھے اور تم نے مجھے کارل مارکس ،فرائد اور آئن سٹائن کے پیچھے لگا دیا ۔اب بس مارکس پر مزید بات نہیں ہوگی ۔بابا پھر لڑکے اور لڑکی کے لو آفئیر کی دنیا میں متوجہ ہو گئے ۔۔۔اب لڑکا اور لڑکی سبز میدان میں سوئے ہوئے تھے، ان کے چہرے آسمان کی طرف تھے ۔بابا نے کہا، دیکھو دو محبت کرنے والے انسان اب آسمان کے ساتھ جڑ گئے ہیں ۔میں نے کہا بابا کیا مطلب ، اس کا مطلب پھر کبھی بتاؤں گا۔ ۔بہت وقت ہوگیا ہے ۔مسلمان اب مسجدوں سے نکل رہے ہوں گے۔ اس لئے ہمیں اب پارک سے نکل جانا چاہیئے ۔میں نے کہا، اس لڑکے اور لڑکی کا کیا ہوگا؟ بابا نے کہا دونوں کا اب آسمان سے لو آفئیرہو چکا ہے ۔اس لئے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو ۔ان دونوں کا کوئی بال بیگا نہیں کرسکتا ۔اس کے بعد بابا اور میں پارک سے نکل گئے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔