تین ولی، تین انسان
(پہلے تین ولی)
بچے کی آنکھ سے تب نہ وہ تینوں ولی لگتے تھے بلکہ ان کی زندگی اور ان کے رویوں میں پراسراریت محسوس ہوتی تھی اور نہ ہی یہ تینوں عام انسان لگتے تھے کیونکہ وہ عجیب و غریب حد تک حیران کن تھے۔ وہ ویسے کیوں تھے اور تین انسان ایسے کیوں؟ کبھی سوچتا تو کوئی نکتہ مل جاتا اور پھر بھول جاتا تھا۔ اگرچہ آج بھی میں کسی کی ولایت کی سند کا جواز نہیں ہوں اور کسی کو بس انسان کہہ دینا بھی ایسے ہے جیسے باقی ساری دنیا کے لوگ انسان ہی نہ ہوں۔ مگر پھر بھی مجھے وہ تینوں ولی لگتے تھے اور یہ تینوں انسان۔ وہ تینوں گم اپنی ذات میں یا اس کی ذات میں، تینوں ہی صبرو شکر کے پیکر اور تینوں ہی دوسروں کے لیے وسیلے۔ یہ تینوں بھڑکیلے اور نمائشی، بے چین اور مضطرب، تبدیلی کے خواہاں اور غیر مطمئن۔
چھوٹا قصبہ ویسے بھی مختصر ہوتا ہے۔ تقریبا" سب ہی سبھوں کو یا کم از کم جانے جائے والے لوگوں کو ضرور جانتے ہیں۔ میرے بچپن میں وہاں کی آبادی پندرہ بیس ہزار نفوس سے زیادہ نہیں ہوگی اور میرے نزدیک ولی کہلائے جانے والے پہلے شخص کو لامحالہ سبھی جانتے ہونگے مگر پھر ایسا ہوا کہ لگتا تھا جیسے سب ہی اسے بھول گئے ہوں۔ یہ شخصیت پہلوان جی عبدالغفور تھے۔ ساڑھے چھ فٹ قد، گول چہرہ، سیاہی مائل گندمی رنگت، گٹھا ہوا سر، آنکھوں پہ بالکل ہی گول فریم کی چھوٹے شیشوں والی عینک، سفید تہمد اور سفید کرتا، پاؤں میں موچی کے بنائے ہوئے عام دیہاتی کھسے کا جوڑا۔ اللہ نے پہلوان جی کو بہت دیا تھا۔ بے حد سادہ طبیعت کے درویش منش انسان تھے۔ ان کے کاروبار کا حساب یا تو ملّاں جی رکھتے تھے یا پھر ان کے شریک کار حکیم جی یعنی میرے والد محترم۔
پہلوان جی کے نام کی آج بھی علی پور میں دو مساجد ہیں، جو انہوں نے اپنی دیانتداری کی کمائی سے تعمیر کروائی تھیں۔ پہلوان جی کا گھر اسی حویلی میں تھا جو ملّاں جی کے گھر سے متصل تھی۔ اس کی راہداری سے گذر کر پتلی ٹائل سے چنی، اونچی تین منزلہ دو رویہ عمارتوں کے بیچ ایک تنگ صحن تھا جسے ایک دیوار دوسرے وسیع صحن سے الگ کرتی تھی۔ دیوار میں ایک دروازہ تھا۔ دروازے میں داخل ہوتے ہی بائیں طرف کی ایک منزلہ عمارت کے ایک حصے میں پہلوان جی کا بھتیجا یا بھانجا حبیب بمعہ اپنے بچوں کے رہائش پذیر تھا اور دوسرے حصے میں پہلوان جی کا ایک بیٹا اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ پہلوان جی کا بیٹا گونگا تھا۔ دوسرا بیٹا نسبتا" تنگ صحن والی عمارت کے ایک حصے میں اپنے کنبے کے ساتھ رہتا تھا، یہ بیٹا بھی گونگا تھا۔ دونوں کی بیویاں بول سکتی تھیں۔ ان دونوں گونگوں کے نام مجھے نہیں اتے تھے کیونکہ انہیں گونگا ہی کہا جاتا تھا۔ یہ دونوں گونگے بیٹے پہلوان جی کی پہلی بیوی سے تھے۔ تنگ صحن والے مکان کے گونگے کی ایک بیٹی کو ننھی کہتے تھے اور حبیب کی ایک بیٹی کو بولاں یعنی مقبولاں اور متصل گھر میں مقیم گونگے کی بیٹی کا نام تنّاں یعنی خاتون تھا اور یہ تینوں میری ماں سے قرآن اور بہشتی زیور پڑھنے، ہمارے ہاں ایا کرتی تھیں۔
تنّاں تیز ، سیانی اور سگھڑ تھی اور باقی دونوں پھسڈی۔ بولاں تو پھر بھی پڑھائی میں میری ماں سے کم مار کھاتی تھی مگر بیچاری ننھی کا سر تو اماں نے دستی پنکھے کی ڈنڈی مار مار کے پلپلا کر دیا تھا۔ بولاں اور تنّاں کے گھروں کے سامنے صحن کے دوسری جانب دو بڑے بڑے کمرے تھے جن کے آگے ستونوں اور سیمنٹ کے فرش والا برآمدہ تھا۔ دونوں کمروں کا فرش بھی شفاف سیمنٹ والا تھا۔ ایک کمرے اور اس کی کوٹھڑیوں میں لحیم شحیم خاتون سونے کے کڑے، کانٹے اور ناک کا بڑے سا لونگ پہنے، چارپائی پر پسر کر بیٹھنے والی پہلوان جی کی بیوی اپنی بیٹی کے ساتھ رہتی تھیں۔ بائیں طرف کے بڑے سے کمرے میں جس کی لوہے کے سریوں والی کھڑکیاں گلی میں کھلتی تھیں اور جو کمرے کے باہر کھلنے والے دروازے سمیت عموما" کھلی رہتی تھیں، میں پہلوان جی ایک بڑے سے پلنگ پر آلتی پالتی مارے بیٹھے ہوتے تھے اور وہیں سو بھی جایا کرتے تھے۔ ویسے تو وہ کام کے سلسلے میں اکثر قصبے سے باہر ہی ہوتے تھے۔
پہلوان جی بنیادی طور پر جنگل کی لکڑی کو " کپّ " کے ذریعے کوئلے میں ڈھلوا کر اسے بیچنے کا کاروبار کرتے تھے۔ اس کاروبار میں میرے والد صاحب کے علاوہ پہلوان جی کے دو بھتیجے بھی شریک تھے۔ پہلوان جی کے بھتیجے ایک منڈی میں بیٹھا کرتے تھے جسے پہلوان جی کی منڈی کہا جاتا تھا۔ یہ اس زمانے میں علی پور سب سے بڑا تعمیر شدہ احاطہ تھا۔ اس کے بعد اس منڈی کے نزدیک ہی مگر سڑک کے دوسری جانب اندر کی طرف "مرزائیوں کی منڈی" تھی، وہاں کبھی کوئی کاروبار ہوتا نہیں دیکھا۔ ہاں البتہ کبھی کبھار وہاں "دنگل" ضرور ہوتے تھے۔ پہلوان جی کی منڈی میں لکڑیاں اور کوئلہ بکتا تھا۔ تیسرے نمبر کی منڈی جتوئی دروازے سے اندر داخل ہو کر بائیں جانب ایک گلی میں "شیخ یعقوب کی منڈی" تھی جو بنیادی طور پر سبزی منڈی تھی اور وہاں سبزی اور پھل ہر صبح بولی لگا کر تھوک میں بکا کرتے تھے۔
پہلوان جی کی محنت اور دیانتداری کا ہی صلہ تھا کہ پیسے کی ریل پیل تھی۔ مجھے تو اتنا ہی یاد ہے کہ والدہ کو جب بھی ضرورت پڑتی وہ اندھیرا ہونے کے بعد ہم میں سے کسی کو ساتھ لے کر چلی جاتی تھیں اور ملاں جی کو جتنا کہہ دیتیں وہ دے دیتے تھے۔ عموما" تو کہلوا دیا جاتا تھا اور کوئی نہ کوئی گھر آ کر پیسے دے جاتا تھا۔ پہلوان جی کے دونوں بیٹے بھی منڈی میں بیٹھے رہتے یا کام میں ہاتھ بٹا دیتے تھے۔ ان کی دوسری بیوی جنہیں ہم ماسی کہتے تھے، سے فتح نام کا بیٹا، پہلوان جی کے ساتھ فیلڈ میں ہوتا تھا۔ فتح کے چہرے پر چیچک کے گہرے داغ تھے۔
پہلوان جی نے جہاں دو مسجدیں تعمیر کروائی تھیں وہاں وہ غریبوں، یتیموں اور بیواؤن کی بھی بلا نمائش مدد کیا کرتے تھے۔ پہلوان جی کا نام جس کی بھی زبان پر ہوتا تھا، اس کے ساتھ " جی " کا سابقہ ان کی ثروت کی دلیل نہیں بلکہ ان کی تعظیم کی دستار تھا۔ سادہ لوح، منکسرالمزاج اور مدھم بولنے والے پہلوان جی، سنا ہے کسی زمانے میں واقعی پہلوان ہوا کرتے تھے۔ ایک بار کسی سکھ پہلوان سے ہارنے کے بعد وہ پھر اکھاڑے میں نہیں اترے تھے۔ تسبیح ہمیشہ ان کے ہاتھ میں ہوتی تھی جس کے دانوں پر، فارغ وقت میں وہ کچھ نہ کچھ پڑھتے رہتے تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں کے گونگے پن پر کبھی تردد ظاہر نہیں کیا تھا۔ ہمیشہ ہی اسے رضائے الٰہی جانا۔ ان کے بیاہ اچھی عورتوں کے ساتھ کیے۔ تنّاں کی ماں قریشی تو بہت ہی سگھڑ اور رکھ رکھاؤ والی عورت تھی۔ ننھی کی ماں عام سی گھریلو سادہ عورت تھی۔ پہلوان جی کے گھر، ہنسنے والی ایک ہی ہستی تھی یعنی ان کی بیٹی۔ پہلوان جی کے یہ دونوں بیٹے اگرچہ گونگے تھے مگر تھے گنی۔ غالبا" ان میں سے ایک درزی کا کام بھی سیکھا ہوا تھا۔ فتح ان پڑھ تھا۔
پہلوان جی کی ذات سے کسی کو بھی کوئی گذند کوئی دکھ نہیں پہنچا تھا۔ وہ بے حد نرم دل واقع ہوئے تھے۔ والد صاحب نے ان کی خدا ترسی اور سادہ لوحی کا ایک واقعہ سنایا تھا۔ پہلوان جی کو ایک بار کھیتی باڑی کا شوق چرایا۔ میرے باپ کے مشورے پر انہوں نے کچھ زمین پٹے پر لے لی تھی۔ دو ایک مزارع رکھ چھوڑے تھے جن میں ایک کا نام حیدر تھا۔ پہلوان جی نے وہاں کچھ سبزی بوائی تھی جسے کوئی جانور کتر جاتا تھا۔ انہوں نے ایک دن حیدر سے پوچھا:
" بیٹا سبجی کون کھا جا؟"
حیدر نے کہا،" سئیں سیہڑ کھا ویندن"
میرے باپ سے انہوں نے پوچھا:
"دفعدار جی، یاہ سیہڑ کیا ہووے اے؟"
ابا بولے،" پہلوان جی یہ لوگ سسے کو سیہڑ کہتے ہیں"
بس پہلوان جی کو "جلال" آ گیا اور انہوں نے حیدر کو حکم دیا کہ سیہڑ کو پکڑ کے حاضر کرے۔ دو چار دن میں حیدر نے ایک خرگوش پکڑ لیا اور پہلوان جی کو مطلع کیا۔ انہوں نے کہا، اسے لا میرے پاس۔ وہ خرگوش لے آیا تو پہلوان جی نے اسے نرمی کے ساتھ ہاتھ میں تھاما اور حیدر سے بولے:
" جا بیٹا حیدر کھپچی لے کے آ"
اب حیدر کے نہ سمجھنے کی باری تھی، اس نے میرے والد سے پوچھا:
" سئیں اے کیا آہدے پئین ؟"
ابّا بولے، جا ایک بہت پتلی سی ٹہنی یا تنکا لے آ۔
وہ لے آیا تو پہلوان جی نے یہ "لاٹھی" بہت ہولے سے خرگوش کے ساتھ مس کرتے ہوئے پوچھا:
" تیں فیر کھائے گا؟"
" تیں فیر کھائے گا؟"
" تیں فیر کھائے گا؟"
اور کہا اسے جا کے کھیت میں چھوڑ دے۔ حیدر ہکا بکا، چھوڑ آیا۔ اس کا تو خیال تھا کہ شاید خرگوش کو ذبح کرنے کا حکم ہوگا۔ جو شخصیت ایک ضرررساں جانور کو بھی بس پیار سے استفہامیہ زبان میں تنبیہہ کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کہتی، اس کی ذات سے بھلا کسی انسان کو تکلیف کیسے گذند پہنچ سکتی تھی۔
پہلوان جی کی ایک مسجد ان کے کھلے دروازے اور کھلے کھڑکیوں والی بیٹھک کے سامنے والی گلی کے خاتمے پر جہاں ذیلدار کے گھر کا پھاٹک تھا، سے دائیں جانب مڑتی گلی کے دونوں جوانب تھی۔ دائیں طرف کی چھوٹی گلی سے دروازہ مسجد میں کھلتا تھا جہاں باجماعت نماز ادا کی جاتی تھی اور بائیں طرف کی گلی کا دروازہ مسجد کے جس حصے میں کھلتا تھا، وہاں دینی مدرسہ تھا جس کے طالبان علم کو پہلوان جی کی خوشحالی رفع ہونے تک کسی گھر سے روٹی کے ٹکڑے نہیں مانگنے پڑے تھے۔
پہلوان جی نے دوسری مسجد اور مدرسہ ہمارے گھر کے عقب میں کھیتوں کے دوسری طرف خیرپور روڈ پر تھوڑی ہی دور ایک وسیع جگہ پر بنوائی تھی۔ گلی والی مسجد، ہر طرف سے چھتے ہونے کے باعث جتنی تاریک اور نم تھی، زیادہ کھلی جگہ پر ہونے کی وجہ سے یہ دوسری مسجد اتنی ہی روشن اور ہوا دار تھی۔ بڑا سا گول سفید گنبد، مینارے اور ہال۔ ساتھ ہی مدرسہ تھا جس کی بیرونی دیوار آدھی پکی اینٹوں کی تھی اور آدھے حصے میں سیمنٹ کی لپائی کی گئی تھی۔
مسجدیں تعمیر کروانے والی اس درویش صفت ہستی نے اپنے یا اپنے بچوں کے لیے کچھ بھی نیا تعمیر نہیں کروایا تھا۔ پھر ایک دن ہوا کہ کاروبار ٹھپ ہو گیا، جس کا ذکر آپ ایک پہلے مضمون میں پڑھ چکے ہونگے۔ پہلوان جی گھر بیٹھ رہے۔ پہلوان جی کو تو لکھنا پڑھنا بھی نہیں آتا تھا کہ کوئی متمول شخص انہیں "منشی" ہی رکھ لیتا۔ دو بیٹے گونگے بہرے تھے اور تیسرا بیٹا ان پڑھ۔ گونگے بیٹے ہتھ ریڑھیاں چلا کر لوگوں کے گھروں کی لکڑیاں اور دوسرا سامان ڈھونے لگے تھے اور فتح بوریاں ڈھونے والا پلہ دار بن گیا تھا۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ پہلوان جی لوگوں سے فطرہ اور ذکوٰت بھی لینے لگ گئے تھے لیکن شکر الٰہی کی ادائیگی ان کی زبان سے ہمیشہ جاری رہی تھی۔
حالات تو ہمارے بھی اچھے نہیں تھے مگر بھائیوں کے روزگار پر لگ جانے سے ہماری دال روٹی چلنے لگی تھی۔ کبھی کبھار میری ماں پہلوان جی کے گھر جاتیں اور چپکے سے ماسی کے ہاتھ پر کچھ رکھ آتیں۔ ماسی کو برے حالات میں، میں نے چپکے چپکے آنسووں سے روتے دیکھا تھا مگر پہلوان جی ہر بات پر کہا کرتے تھے:
" بیٹا اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے وہ جیسے بھی حالات میں رکھے"۔
میری ماں گھر آ کر ان کی بدحالی کا ذکر کرتے ہوئے رویا کرتی تھیں اور ساتھ ہی بہنوں کی بھی انکھوں سے جھڑی لگ جایا کرتی تھی۔ یہی ایام تھے جب میں ایک بار ابّا کے ہمراہ بازار جا رہا تھا۔ بگّا شیر بازار میں، جو ماسٹر سلیم الدین کی چھتی ہوئی گلی کے اگلے سرے پر واقع تھا اور جس کے دونوں سروں پر پہلوان جی کے برادری والوں کی بھی دکانیں تھیں، پہلوان جی آہستہ آہستہ قدموں سے چلے جا رہے تھے۔ وہی لٹھے کا تہمد اور کرتا مگر کچھ میلا، وہی چمار کے بنائے دیسی جوتے مگر اس کے چمڑے میں دراڑیں پڑ رہی تھیں اور ان کی گول فریم والی عینک کے ایک سرے پر ڈنڈی کی بجائے ایک سبز رنگ جا دھاگا بندھا ہوا تھا جو انہوں نے عینک کو اٹکانے کی غرض سے کان کے گرد لپیٹا ہوا تھا۔ ان کے ہاتھ میں کلہاڑے کا پھل تھا۔ بلند قامت ہونے کی وجہ سے لگ رہا تھا جیسے وہ لوگوں کے بہت اوپر دیکھتے ہوئے چل رہے ہوں۔ ابا نے خوش مزاجی سے پوچھا تھا:
" پہلوان جی آج کدھر آ نکلے؟"ٴ
انہوں نے گول شیشوں کے پیچھے گول گول آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا تھا:
" بیٹا گھر ماں آٹا نئیں، سوچا کہاڑے کا پھل ای بیچ کے آٹا لے آؤں"۔
میرے باپ کے تو جیسے جسم پر کپکپی ہی طاری ہو گئی تھی۔ انہوں نے دونوں ہاتھوں سے پہلوان جی کے ہاتھوں سے کلہاڑے کا پھل پکڑ کر بار بار بس اتنا کہا:
" پہلوان جی آپ گھر چائیں، پہلوان جی آپ گھر جائیں"۔ ان کی دونوں آنکھوں میں دو موٹے موٹے آنسو اٹکے ہوئے تھے مگر پہلوان جی نے صبر و قناعت کی تصویر بنے، میرے باپ کو تسلی دینے کے انداز میں کہا تھا:
" بیٹا کیا ہو گیا۔ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے"۔ ابّا ان کو تقریبا" دھکیلتے اور یہی کہتے " پہلوان جی خدا کے لیے آپ اپنے گھر جائیں" ان کی گلی تک چھوڑ، کلہاڑے کا پھل اپنے ہاتھ ہی میں پکڑے تیزی کے ساتھ گھر پہنچے تھے، میں بھاگتا ہوا ان کے ساتھ تھا۔ گھر میں سر دونوں ہاتھوں میں لے کر بغیر آواز بہت دیر تک روئے تھے، میں نے اپنے باپ کی آنکھوں میں اٹکے دو آنسو اور بعد میں ان کا اس طرح رونا زندگی میں پہلی اور آخری بار دیکھا تھا۔ ابا بہت ہی سخت طبیعت کے مالک تھے۔ جونہی ان کا رونا تھما وہ ایک جھٹکے سے اٹھے تھے اور گندم کی ایک بوری خود ہی اپنی کمر پر لاد کر پہلوان جی کے گھر تک لے گئے تھے۔ باہر لوگ دیکھتے ہی رہ گئے تھے کہ حکیم جی، جن کا ہر کام یا تو لوگ کرتے تھے یا ان کے بچے، آج اس طرح کمر پر بوری لادے کہاں جا رہے ہیں۔ کسی کو پوچھنے کی جرات نہیں ہوئی تھی۔ سب دم سادھے چہ میگوئیاں کرتے رہ گئے تھے۔ بوری پہنچا کر جب وہ گھر لوٹے تو اضمحلال کا مجسمہ بنے ہوئے تھے۔ بوری کے بوجھ سے نہیں بلکہ تقدیر کی ستم ظریفی کی چیرہ دستی کے سبب۔
پہلوان جی کی ہر لمحے ہنسنے والی بیٹی تپ دق کا شکار ہو کر علاج کی کمی کے سبب راہی ملک عدم ہو گئی مگر پہلوان جی پھر بھی شکر ادا کرتے ہوئے اس جہان فانی سے گئے۔ اگر پہلوان جی ولی نہیں تھے تو ولی اور کس کو کہا جاتا ہے؟
ولایت کا دوسرا درجہ، میری نظر میں نبّو چرواہے کو حاصل تھا۔ اس کا اصل نام کیا تھا؟ شاید نبی بخش ہی ہو مگر اسے سب نبّو چرواہا ہی کہتے تھے۔ اٹنگی، دھجیاں لگی گھٹنوں سے اونچی کھڈی پر بنے کھدر کی دھوتی، کھدر کاہی پھٹا ہوا، کہیں کہیں بھدے طریقے سے لگائی گئی ٹانکیوں والا شلوکا، سر پر لیرو لیر ململ کا پٹکا اور بغیر جوتی کے پھٹے ہوئے تلووں والے مٹی سے اٹے پاؤں۔ صبح سویر گھر گھر سے بکریاں، مینڈھے اور ایک دو گائیں اکٹھی کرنے آتا اور شام پڑے سبھی کو ہانکتا ہوا ان کے مالکوں کے گھروں تک چھوڑ کر چلا جایا کرتا تھا۔ ایک بار والد نے ہم دونوں کمسن بھائیوں کو دودھ پلانے کی خاطر ایک سفید دھبوں والی سیاہ بکری پال لی تھی جس کی وجہ سے نبّو میری توجہ کا مرکز بنا تھا۔ صبح صبح آ کر وہ صدا لگاتا تھا:
" بکری کھول دو۔"
لیکن شام کو اپنے گھروں کی جانب بھاگتی ہوئی بکریوں کے پیچھے اٹھتی گرد میں دوڑتا اور انہیں ہانکتا، بھٹکتے جانوروں کو راہ راست پر لاتا یہ راضی بہ رضائے الٰہی چرواہا میسوپوٹیمیا کے اہل یہود کے پیغمبروں کی تصویر لگتا تھا جس کی غرض یہ تھی کہ سبھوں کی اغراض پوری ہوں۔ سبھوں کے گھر دودھ کی رحمت برسے اور سبھوں کے گھروں کے صبح کو بھٹکے جانور شام کو گھر پہنچ جائیں۔ نبّو چرواہے کو ایک بکری چرانے کے عوض ماہوار ایک چونّی ملتی تھی۔ ساٹھ بکریوں کے بمشکل پندرہ روپے بنے۔ بہت سستا زمانہ ہونے کے باوجود یہ رقم بہت کم تھی۔ نبّو کی بیوی بھی ہوگی، بچے بھی ہونگے۔ میں نے اس چونی کے لیے بھی نبّو پر ہمیشہ پھٹکار پڑتے سنی تھی لیکن اس کے منہ سے شکایت کا ایک لفظ بھی نہیں سنا تھا۔ پانچ سات برس جتنی دیر وہ میرے زیر نظر رہا، میں نے اس کا وہی ایک لباس دیکھا تھا۔ نبّو چرواہا میری نگاہ میں ایک ولی تھا۔
اور تیسرا ولی صوبہہ دیندار تھا۔ سبھی ان لوگوں کو دیندار کہتے تھے لیکن ہمارے گھر میں انہیں جمعدار کہا جاتا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب رفع حاجت کے انداز خاصے قدیم تھے۔ گھروں کے کونوں اور چھتوں پر بنے بیت الخلاء سے انسانی فضلے کو جمع کرکے شہر سے باہر پھینک آنے والوں کو دیندار پکارتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو پرانے وقتوں میں شودر ہندو تھے۔ ملتان کے علاقوں میں انہیں شیعہ مبلغوں نے شیعہ مسلمان کیا تھا۔خیر پور دروازے سے آگے فتح پور دروازے سے گولائی میں گذرتے ہوئے ، غیر منقسم پنجاب ہندوستان کے سابق وزیر میاں ابراہیم برق کی اڑجنگ حویلی تھی جس کے سامنے سڑک کے دوسری طرف ان کا ڈیرہ تھا اور ڈیرے کے پہلو والی گلی سے فتح پور کی طرف جانے والی سڑک تک دینداروں کی بستی تھی۔ صوبہہ اسی بستی کا ایک فرد تھا۔ مٹی سے اٹی دیسی جوتی، گہرے رنگوں کی ڈبیوں والی لنگی، منہ پہ سیاہ پٹکی کے پلّو کو بڑھا کر ڈھاٹا باندے ایک ہاتھ سے کندھے کے پاس گند کی خالی ٹوکری تھامے جب وہ دروازے کا کھٹکا بجا کر کہتا۔
" پردہ کر لو جی۔"
تو عورتیں تو کمروں میں چلی جاتیں اور مرد منہ بناتے ہوئے دور ہٹ جاتے تھے۔ اس کے بعد اینٹوں کے فرش پر اس کے لوہے کے پترے اور جھاڑو کی کھرر کھر اور شیش شیش کی آواز آتی تھی۔ پھر جب وہ سب کا گند سمیٹے باہر کی طرف بڑھتا تو سب ناک پر ہاتھ رکھ لیتے۔ وہ گلی عبور کرکے کھیتوں میں جا کر فضلہ انڈیل آتا تھا اور گھر گھر یہ عمل دہراتا تھا۔ اگر گند سے بھری ٹوکری لے جاتے ہوئے کسی کی اس سے مڈبھیڑ ہو جاتی تھی تو مڈبھیڑ کرنے والا غیر ارادی طور پر دو قدم دوسری جانب ہو کر سانس روک لیتا تھا۔ اس کے ڈھاٹے میں سے جھلکتی آنکھوں میں سے تمسخر آمیز دبی دبی مسکراہٹ جھانکتی تھی، جیسے وہ کہہ رہا ہو:
" اپنی ذات کے اخراج سے کنّی کترانے والو، میں تمہاری
بدبودار ذات کا بوجھ اپنے کندھوں پر ہر روز اٹھاتا ہوں۔
اگر میں نہ آؤں تو تمہاری ساری جمالیات کا
بھرکس نکل جائے۔ یہ جمالیات، یہ تازہ ہوا کا احساس،
یہ انقباض سے آزادی سب میرے دم قدم سے ہے۔"
اور اگر وہ واقعی ایسا کہتا یا سوچتا تھا تو درست کہتا تھا کیونکہ اگر بارش کے طول پکڑ جانے یا کسی اور بنا پر لوگوں کے دھتکارے ہوئے یہ افراد آنے میں دیر کر دیتے تو فضلے میں کیڑے کلبلانے لگتے تھے۔ طبیعت منقبض ہو جاتی تھی۔ غیض زور پکڑ لیتا تھا۔ کچھ بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔ مجبوری میں تمام بدصورتی اور بدرنگی سہنا پڑتی تھی۔ نزلہ اسی "دین دار" طبقے پر گرتا تھا۔
صوبہہ دیندار شام کو صاف کپڑے پہن کر، مونچھوں کو تاؤ دے کر اور انہیں تیل سے چمکا کر، گرگابی اور صاف دھاری دار لنگی پر کڑھا ہوا کرتا پہنے، ایک دوسری صاف ستھری ٹوکری کندھے سے لگائے، ایک بار پھر سے گھر گھر کا در کھٹکھٹاتا تھا جہاں سے اسے ایک آدھ تھالی آٹے کی ملتی تھی جسے وہ اپنی ناج کی ٹکری میں انڈیل کر خالی کرکے واپس کر دیتا تھا۔ اس کے ہاتھ اسی طرح دھلے ہوتے تھے جیسے باقی سبھوں کے مگر جس تھالی میں اسے آٹا دیا جاتا تھا وہ سبھی گھروں میں علیحدہ رکھی جاتی تھی۔ مخصوص پلیٹ کو دیکھ کر ایک لمحے کے لیے اس کے چہرے پر ایک لکیر سی ابھرتی تھی جس میں لگتا تھا جیسے کہ درج ہو:
" اپنے ہاتھوں کو اپنی ہی نجاست سے دھو کر پاک
سمجھتے ہوئے خدا کی دی گئی نعمتوں کو چھونے والے
لوگو، مجھے تم اچھوت سمجھتے ہو جبکہ میں تمہیں
تمہاری ہی نجاستوں سے نجات دلانے کی خاطر اپنے
ہاتھوں کو گندا کرتا ہوں۔ خدا تمہارے ایمان کو سلامت
رکھے اور تم امتیاز کرنے سے کنارہ کش رہو۔"
عام لوگوں کی بھیڑ میں ان تین ولی صفت افراد کے ساتھ ساتھ میری بستی میں تین انسان بھی بستے تھے، جن کا تذکرہ کل پرسوں سن لیجیے گا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“