سر آرٹلری یونٹوں کےرجمنٹل کریسٹ توتوپ اورگولہ بارودکےڈیزائین سےباہرنہیں نکلتے۔ ون سیون فورکےسادہ مونوگرام پرصرف تیرہیں اور وہ بھی تین، ابھرے کوہانوں والے؟
سی اوآفس میں فائل کےمندرجات کودیکھتےکرنل فرخ نےنگاہیں اُٹھاعینک کےعدسوں کےاوپرسےہمیں دیکھا یاربات یہ ہےکہ یہ تین تیرجی ایچ کیوایم ایس(ملٹری سیکریٹری) برانچ نےمیری *** میں دینےکی کوشش کی ہے، اسی لیےیہ ٹیڑھے ہوگئےہیں(تشریح کےلیےدیکھیےتھریڈکےآخرمیں Footnote # 1)
ایک سوچوہترمیڈیم کامونوگرام حقیقتاًسادہ اورمنفردتھا۔ سُرخ بیک گراؤنڈپرنیلےرنگ اورسنہری حاشیےوالےتلےاوپرتین تیرپڑےرُخ پرآویزاں ان تیروں کےمہلک کونوں کارُخ بائیں جانب تھا۔ نیچے سےاوپرکوجائیں تو یہ تینوں تیر لمبائی کےرُخ بڑھتےچلےجاتےتھے۔ نیلے رنگ، سنہری حاشیے، پڑےرُخ اور بائیں سمت کےعلاوہ ان میں ایک اور قدر مشترک تھی اور وہ تھا ان کے درمیان میں چھوٹے کوہان نما سپیڈ بریکر کی طرز کا اُبھار۔
ایک نئی ریزنگ (یونٹ تازہ بتازہ کھڑی ہوئی تھی، ’تنظیم سازی‘ کو ابھی ایک سال بھی پورانہیں ہوا تھا) کے سادہ مونو گرام کو سمجھنے کے لیے کسی ریاضی کے کلیےکی ضرورت نہیں تھی۔ نظر پڑتا تھا کہ تین تیروں کی ایک سمت اور بڑھتا حجم ایک نو تعمیر یونٹ کے ایک نصب العین اور آنے والےدنوں میں ترقی وکامرانی کوظاہرکرتےتھےاوردرمیانی ابھار اس راستےپر پیش آنےوالی مشکلات کو۔ ٹل پہنچےہمیں دوسرا روز تھااور یونٹ رپورٹ کیےپہلاجب سی او انٹرویو کےلیےکرنل فرخ کےسامنے پیش ہونےسے قبل ایک سو چوہتر کے شرارتی کپتانوں اور ان سے بھی شریر ٹو آئی سی (سیکنڈ ان کمانڈ) نے کہا کہ رجمنٹل کریسٹ کا مطلب کرنل صاحب سے پوچھنا کہ یہ انہی کا ڈیزائین کردہ ہے۔
سی او آفس میں اوور اے کپ آف ٹی ہمارا انٹرویو لیتے کرنل فرخ ہمارے سوال پر پہلے تو چونکے اور پھر زیرِ مطالعہ فائل سےنظریں اٹھا عینک کے عدسوں کے اوپر سے ہمیں دیکھتے ہوئے بے دھڑک وہ جملہ کہا جسے آپ اس کہانی کی ابتدا میں پڑھ آئے ہیں۔ چائے کا آدھا گھونٹ حلق کے ادھر آدھا ادھر ایک معصوم لفٹین کو اتھو آگیا۔ ہمیں ٹشو تھماتے ہوئے کرنل صاحب گویا ہوئے۔ میں نے جی ایچ کیو ایم ایس برانچ کو کہا تھا اس یونٹ میں ینگ افسر نہ پوسٹ کریں۔ میری صحبت میں تباہ ہوجائیں گے۔
انہوں نےمیری ایک نہ سُنی۔ اُلٹا PMA سےسیدھا یونٹ کاپہلاپیرینٹل (parental) افسر پوسٹ کردیاہے۔ اگلے چند دنوں میں سیکنڈ لیفٹیننٹ توقیر یونٹ میں رپورٹ کررہا ہے۔ وہ تو بالکل ہی لوڑے لگ جائے گا۔
سیالکوٹ کے اگوکی سے کوہاٹ سے بہت آگے ٹل آمدہ ایک نو آموز لیفٹیننٹ میں مزید کمانڈنٹ آفس میں بیٹھنےکایارا نہیں تھا۔ کرنل صاحب نےغالباً ہماری صورت پرترس کھاکربقیہ انٹرویو کومختصرکرتےہوئےاگلےاحکام کےلیےہمیں واپس یونٹ ایڈجوٹنٹ کیپٹن حامدکےدفترواپس بھیج دیا۔ اب ہمیں سمجھ میں آیا کہ کچھ دیر پہلےسی او آفس روانہ کرتے وقت کیپٹن حامد کے چہرے پرایک کمینی مسکراہٹ کی وجہ کیا تھی۔
دیکھا جائے تو کرنل صاحب کی بات میں بھی وزن تھا۔ کچھ سالوں پہلے آپ نے ایک مارٹر بیٹری ریز (کھڑی) کی تھی۔ ویسے آپس کی بات ہے ہم نے اس کا منفرد مونوگرام بھی دیکھا تھا۔ سُرخ اور نیلے توپخانے کے رنگوں میں رنگا مارٹر کی اونچی اڑان کی ٹریجیکٹری (پرواز کی قوس) سے مشابہ ایک اکلوتا تیر۔
اب جی ایچ کیو نے انہیں توپخانے کی ایک میڈیم رجمنٹ کی ریزنگ کا تحفہ دے دیا تھا۔ اسی لیے تیر ایک سے تین ہوگئے اور کرنل صاحب کی بیان کی گئی وجہ کے انوسار ان میں ٹیڑھ بھی آگئی۔ ہمارا اشارہ تیروں کی طرف ہے۔ صاحبو نئی ریزنگ کی ذمہ داری لینا جان جوکھم میں ڈالنا ہے۔
اس بات کو کرنل فرخ جیسے زیرک کمانڈنگ افسر سے زیادہ کون سمجھ سکتا تھا۔ یونٹ کے بنیادی ڈھانچے کی نیو ملتان میں ڈال آپ ایک افسر اور گنتی کے چند سردارصاحبان اور جوانوں کو لے کر اورکزئی کے پہاڑوں کے دامن میں واقع ٹل چھاؤنی آگئے تھے۔ ابھی تو یونٹ کو پوری توپیں بھی نہیں ملی تھیں۔
ابھی تو افسر اور جوانوں کی باقی ماندہ گنتی کی آمد آمد تھی۔
یار مانی تیری پوسٹنگ آگئی ہے نئی ریزنگ میں اور تیری وابستگی (affiliation) بھی عباسیہ سےتبدیل ہوکرنئی یونٹ کےساتھ ہو گئی ہے۔
کیپٹن بخاری کے الفاظ پر پہلے پہل تو یقین ہی نہیں آیا۔ ابھی تو اگوکی سےتازہ تازہ دل لگی ہوئی تھی، ابھی ابھی تو پی ایم اے سے رخصت ہوئے نوبیاہتا نے عباسیہ کو چھان پھٹک کر اپنا پہلا اور آخری گھر مانا تھا
ہم تو مجبور وفا ہیں مگر اے جان جہاں
اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے
صاحبو، فوج میں جب کوئی نئی یونٹ کھڑی ہوتی ہے تو اس کی نفری دوسری یونٹوں سے پوری کی جاتی ہے۔
افسروں کے ناموں کے محبت نامے تو براہِ راست بڑے گھر یعنی ایم ایس برانچ سے جاری ہوتے ہیں جن میں چیف آف آرمی سٹاف کے اچانک خوش ہوجانے کی نوید کے ساتھ (COAS is pleased to announce کی طرف اشارہ ہے) متاثرہ افسران کے آرمی نمبر اور نام کے ساتھ نئی ذمہ داری کے علاقے کی تفصیل درج ہوتی ہے سردار صاحبان اور جوانوں کی پوسٹنگ کے لیے بھیجے گئے مراسلے میں متعلقہ یونٹ کو عددی نفری پورے کرنے کے احکامات ملتے ہیں۔ 14 عباسیہ کو جو مراسلہ آیا اس میں ایک لانس نائیک کلرک اور ایک ڈی ایم ٹی (ڈرائیور مکینیکل ٹرانسپورٹ) سپاہی نئی ریزنگ میں بھیجنے کے احکامات تھے۔
اب یہ کوئی ڈھکی چھُپی بات نہیں ہے کہ ایسی پوسٹنگز کے لیے یونٹوں نے چھانٹ کے بندے الگ کیے ہوتے ہیں
وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال ’اچھا‘ ہے
ون سیون فور کو ہدیہ کیے گئے 14 عباسیہ کے دونوں سپوت ہماری پاپا بیٹری سے منتخب کیے گئے تھے۔
لانس نائیک نجیب اللہ لوک بیٹری کلرک تھا اور ڈرائیور سپاہی نجابت اپنے ٹریڈ کا ماہرمگرایک شرارتی سپاہی تھا۔ ان دونوں کو 14 عباسیہ سے وداع کرتے وقت ہمیں علم نہیں تھا کہ کل کو اس نئی کھڑی ون سیون فور میڈیم رجمنٹ میں ہمارا ان سے دوبارہ ٹاکرا ہوجائے گا۔
تین تیروں والی اس کمین گاہ میں (مراد اس سے ایک سو چوہتر میڈیم رجمنٹ ہے) ہمیں پھر سے پاپا بیٹری کو جی پی او (گن پوزیشن آفیسر) کی حیثیت میں جوائن کرنےکے احکامات ملے تھے۔ کیپٹن حامد کے دفتر سے ہم اپنے کوائف سمیت سیدھا پاپا بیٹری کمانڈر باریش میجر عبدالرشید کے حضور پیش ہوگئے۔
ٹل چھاؤنی کی شدید غیر ہموار پتھریلی زمین پر ون سیون فور کے رجمنٹل آفس لمبائی کے رُخ بنی ایک بارک میں تھے۔ سامنے کے رُخ پر کمانڈنگ افسر، ایڈجوٹنٹ اور کوارٹرماسٹر کے دفتر تھے۔ ثانی الذکر اور موخرالذکر کے بیچ میں یونٹ ٹی بار تھی۔
وہی ٹی بار جہاں ایک دفعہ کرنل فرخ کی پیشہ ورانہ اور ذاتی دونوں کوششوں کی برکت سے کمبائنڈ ملٹری ہاسپٹل ٹل کی میٹرن بمع نرسنگ سٹاف دوپہر کی چائے پر یونٹ افسروں کی مہمان بنی تھیں
چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد
بارک کے پچھلی سمت بیٹری دفاتر تھے۔
پاپااورکیوبک بیٹریوں کادفترسانجھاتھا اور یہاں دومخالف کونوں میں بیٹری کمانڈرکی میزوں پربھرواں داڑھیوں والےنورانی صورت میجر عبدالرشیداورمیجرعنایت بیٹھاکرتےتھے۔ آپ بالترتیب پاپااورکیوبک بیٹریوں کےکمانڈر تھے۔ اول الذکر کا قد اور ریش کی لمبائی ثانی الذکر سے اسی تناسب میں دُگنے تھے۔
کرنل فرخ ان دونوں افسران کو سی ٹی بی ٹی کہا کرتے تھے۔ یہ مخفف تھا چھوٹا طالبان بڑا طالبان
چھوٹے طالبان کیوبک بیٹری کمانڈر میجر عنایت مقامی افسر تھے۔ آپ کو ڈاکخانہ ہنگو کا لگتا تھا۔ کوہاٹ سے ٹل کےمسافر ہوں تو دوآبے کے سنگم سےپہلے آدھا راستہ ادھر آدھا راستہ ادھر ہنگو کا شہرآتا ہے۔
یہیں سےایک روڈاورکزئی کےپہاڑوں پرسمانہ کی چوکی کونکلتی ہے۔ سمانہ جہاں بیٹل سکول کےسائے میں گئےوقتوں کےساراگڑھی کی یادگارکھڑی ہے۔
میجرعنایت اسی اورکزئی کی دھرتی کےپٹھان تھے۔ بات اورلہجےمیں وہی قبائلی گمک اورکھنک۔ بات اورگولی کودل میں رکھنےکےقائل نہ تھے۔ فوراًسےپیشترنکال دیتےتھے۔
ٹل کی خشک، کاٹ کھانے والی سردیوں کے دن تھے۔ ایک لمبے چوڑے کھلے ڈلے بیٹری دفتر میں کمانڈروں کے پہلو میں رکھے انہی کے پاؤں کو گرم کرتے ہیٹروں کی گرمائش دو عدد جی پی اوز (ہم خود اور لیفٹیننٹ گیلانی) تک پہنچنے سے پہلے ہی ہوا میں تحلیل ہوجایا کرتی تھی۔
ایک ٹانگ دوسری پر رکھے ہاتھوں کو ہردو کے اتصالی علاقے میں تہہ کیے گرمائش پہنچانے کی ناکام کوشش کرتے، کرسی پر پہلو بدلتے دو لفٹین ایک دوسرے کو بےچارگی سے دیکھا کرتے
ہم ہنس دیے ہم چپ رہے ۔۔۔ ۔۔۔
ایسے میں کچھ اور آئے نہ آئے وہ لازمی آتا جو سردیوں میں اکثر آیا رہتاہے۔
اپنے سامنے ایک تواتر سے رفع حاجت کو آتے جاتے لفٹینوں کی آمدورفت ایک دفتری قیلولے میں خلل ڈالتی تو میجر عنایت ایک تمسخرانہ کم فکرمندانہ لہجے میں پیش بینی کرتے
مڑا تمہارے مثانے تو ابھی سے اتنے کمزور ہیں۔ تم لوگوں کا آگے جا کے کیا بنے گا
ـــ
جاری ہے 2
قدمچے – Footnotes
ـــ
1. ایم ایس برانچ نے یہ تین تیر میری ’بنڈ‘ میں دینے کی کوشش کی ہے۔ کرنل صاحب کا ایک اور تکیہ کلام ‘I bet over my arse’ تھا۔ پہلا مکالمہ کرنل صاحب نے اس فراوانی سے استعمال کیا اور ان گنہ گار کانوں نے اس تواتر کے ساتھ اسے سُنا کہ ہمیں یاد ہے کہ مذکورہ ڈائیلاگ میں لفظ بنڈ اور arse ادل بدل کر (interchangeably) استعمال ہوئے۔ اگر یہ پڑھ کرآپ کےکان اور ناک سرخ ہورہےہیں تو اطلاعاً عرض ہےکہ اصل متن میں تین ستارے ہم نےآپ ہی کےلیے استعمال کیےتھے۔ گستاخی معاف یہ آپ کی متجسس طبیعت کاقصور ہےجوکشاں کشاں آپکو کھینچ کےیہاں لے آئی ہے۔
2. جاری ہے ہم نے لکھنے کو تو لکھ دیا ہے۔ دیکھیے ان یادوں سے اگوکی جیسا مہکتا کوئی گلدستہ برآمد ہو تو اگوکی کی کہانی کی مثل ٹل کی کہانی بھی کہی جائے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...