سال ۲۰۱۳ء کے ۳رمضان المبارک کے روز اپنے چاہنے والوں کو آناَ فاناَ الوداع کہہ کر ابدی نیند سوجانے والے خواجہ جاوید ؔ اختر کے لیے ’’نیندشرط نہیں‘‘ہے۔اپنی اولین کتاب ’’نیندشرط نہیں‘‘(شعری مجموعہ) کے ذریعے ابدی نیند سو جانے کا اشارہ دینے والے اس شاعرنے عملی ثبوت بھی پیش کیا۔ لہذا آئیے آج رخت ِ سفر باندھتے ہیں ان کی شعری و ادبی خدمات کی جانب۔اپنے معاصرشعراء و ادباء کے ہجوم میں سب سے عَلَیحِدَہ پہچان رکھنے والوں میں ایک نمایاں نام خواجہ جاوید ؔ اختر کا ہے جو محض ایک شاعر کا حساس دل ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ شیشہ کی مانند چمکنا بھی جانتے تھے۔ اس بات کا معترف وہ خود اپنے ہی شعر میں یوں ہیں ؎
اِس بھیڑ میں پہچان مری سب سے جدا ہے ٭ شیشہ ہوں مگر آئینہ خانے کا نہیں میں
ریختہ فاؤنڈیشن کی جانب سے تیار کردہ بھارت کی ایک اردو ادبی ویب سائٹ کا نام ریختہ ڈاٹ آرگ / (ریختہ ویب سائٹ) ہے جس میں اردو ادب، زبان کی تاریخ اور کئی اصنافِ سخن کی کم و بیش 58558 برقی کتابیں و رسائل موجود ہیں۔ اس میں متعدد شعراء کی شاعری کو بھی موضوعات کے لحاظ سے ترتیب دی گئی ہے۔ یہ شمالی ایشیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ ہے۔ متذکرہ ریختہ ویب سائٹ نے خواجہ جاوید ؔ اختر (2ستمبر1964 – 13جولائی2013) کو اپنے ویب سائٹ پر کم عمری میں وفات پانے والے مقبول ترین شاعروں کے گوشہ میں سر ِ فہرست رکھا ہے۔ خواجہ جاوید ؔ اختر خوبصورت شکل و شباہت کے ساتھ ساتھ اچھی و مترنم آواز کے بھی مالک تھے جنہیں آج بھی مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ انھیں صاحب ِ اسلوب غزل گو شاعر کی شناخت حاصل رہی ہے۔2010ء میں ان کا اولین شعری مجموعہ “نیند شرط نہیں” شائع ہو کر برصغیر کے ادبی حلقوں میں داد و تحسین کی وصولی ہی تک محدود نہیں رہابلکہ مخصوص کتاب پر خواجہ جاوید ؔ اختر کو صوبہ بہار ، اتر پردیش اور مغربی بنگال کی اردو اکاڈمیوں نے انعامات و اعزازات سے بھی نوازا تھا۔ظاہر کردوں کہ لائبریری آف کانگریس کنٹرول نمبر : N2016245383 کے مطابق ریختہ ویب سائٹ پر برقی شکل میں نہ صرف خواجہ جاوید ؔ اختر کی 20 منتخب غزلیں موجود ہیں بلکہ ان کی اولین کتاب “نیند شرط نہیں” مکمل طور پر بشکل ای بک (e-bbok) بھی موجود ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اپریل 2010ء میں ان کی اعزازی ادارت میں شائع شدہ ‘آج کی اردو شاعری’ کے نام 25 جواں سال، نامور اور ہم عصر اردو شعراء کے کلام پہ مشتمل الہ باد، اتر پردیش کا سہ ماہی جریدہ “انین _ 30″ بھی دستیاب ہے۔ واضح ہو کہ ریختہ کے مطابق خواجہ جاوید اختر کو الہ آباد کے ہندی رسم الخط میں سہ ماہی ” اْنّین Unnayan ” کے سب سے کم عمر مدیر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔واضح ہو کہ ہندی سہ ماہی “انین” کی اعزازی ادارت سے آٹھ سال قبل خواجہ جاوید اختر نومبر 2002 میں اردو ماہنامہ “کتاب نما”، نئی دہلی- 25 کے 11ویں شمارے کا مہمان مدیر رہ چکے تھے۔ مخصوص شمارے میں بحیثیت مہمان مدیر آٹھ صفحات پر مشتمل ان کا لکھا ہوا ‘اشاریہ’ مطالعہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کم عمری میں اتنی بلند اڑان کا کچھ تو اندازہ ان کو بھی بذات خودہو گیا تھا تب ہی تو انہوں نے زیر نظر شعر میں کہا ہے ؎
دریا تو ہوں لیکن مرے اندر ہے وہ وسعت ٭ کوزے میں کسی طور سمانے کا نہیں میں
سخن شناس نہیں، زود گو بھی ہے جاوید ؔ ٭ پڑھا لکھا ہی نہیں آدمی ذہین بھی ہے
ذہین شاعر و ادیب خواجہ جاوید ؔ اختر اپنی کتاب کے ‘عرض حال’ میں لکھتے ہیں کہ ان کے استاذی محترم پروفیسر ابوالکلام قاسمی (اے ایم یو) صاحب نے ‘شب خون’ میں اپنے شاگرد کی غزل دیکھ کر کہا تھا ” اب تمہاری غزل کو Recognition ملا ہے۔” (نیند شرط نہیں، ص:26) بعدازاں وہ تواتر سے شب خون میں محض چھپتے ہی نہیں رہے بلکہ شب خون کے 40 سالہ انتخاب میں بھی ان کی غزل کو شامل کیا گیا۔ عالمی شہرت یافتہ ناقد و ادیب پدم شری شمس الرحمن فاروقی صاحب نے اپنی کتاب “معرفت ِ شعر ِنو” میں ایک مضمون بعنوان “خواجہ جاوید اختر _ الہ باد کا نیا غزل گو” بھی شامل ِ کتاب کیا۔ متذکرہ باتیں کسی بھی نوعمر اور نو َ وارد شعر و ادب کے لیے اعزاز کی حامل ہو سکتی ہیں تو خواجہ بھائی کے لیے باعث ِ اعزاز و ناز کیونکر نہ ہو؟ لہذا خواجہ جاوید ؔاختر کہتے ہیں ؎
خبر کیا تھی فضیحت میں وہ میری جان کر دیں گے ٭ مجھے بھی ایک دن کے واسطے سلطان کر دیں گے
اردو ادب میں شعری روایت کی روسے سہل ممتنع کو شاعری کا جھومر کہا گیا ہے اور اسے شاعر کی قادر الکلامی کی دلیل کے طور پر پیش کیاجاتا ہے۔ سہل ممتنع میں بلیغ باتیں کہنا بہت مشکل کام ہے لیکن خواجہ جاوید کو اس میں دسترس حاصل تھا۔ اس معاملے میں میر تقی میر کو سب سے بالا مقام دیا جاتا ہے۔ جن شاعروں کے یہاں سہل ممتنع کا عنصر کافی ملتا ہے، ان میں ایک قابل ِ ذکر نام خواجہ جاوید ؔاختر کا بھی ہے۔ دلیل کے طور پر اردو کے عظیم نقاد، ناول نگار، افسانہ نگار، شاعر، مترجم اور ماہر لسانیات شمس الرحمن فاروقی (مرحوم) خواجہ جاوید کی کتاب “نیند شرط نہیں” کے تقریظ مزید پیش لفظ میں یوںرقمطراز ہیں: “خواجہ جاوید ؔ اختر کی شاعری کا انداز سہل ممتنع اور عام بول چال کا سا ہے۔ اس انداز کو مزید تقویت اس بات سے ہوتی ہے کہ انھوں نے زیادہ تر شعر چھوٹی بحروں میں کہے ہیں۔” (نیند شرط نہیں، خواجہ جاوید اختر کی غزل، ص:17) مثال کے طور پر سہل ممتنع اور چھوٹی بحروں میں خواجہ جاوید ؔ اختر کے کچھ اشعار ملاحظہ کیجئے ؎
مٹھی میں الفاظ کرو ٭ پھر لکھنا آغاز کرو
بے پردہ ہیں لیلائیں ٭ اور مجنوں محمل میں ہیں
صدیوں کا آثار گرایا ٭ کس نے یہ مینار گرایا
جنھیں بدنام کرنا چاہتے ہو ٭ وہی مشہور ہوتے جا رہے ہیں
بڑھی ہے روشنی تہذیب ِ نو َ کی ٭ مکاں بے نور ہوتے جا رہے ہیں
مختصر الفاظ میں گہری اور بھرپور بات کہنا بہت مشکل امر ہے اور یہ کٹھن کاز ماہرین ِ فن ہی کر سکتے ہیں۔ موصوف اس فن سے خوب آشنا تھے۔ خواجہ جاوید ؔکی شاعری میں سادگی اور سلاست بھی بلا کی ہے۔ سادہ اور چھوٹی بحر کے شعر میں بلیغ باتیں وہ آسانی سے یوں کہہ جاتے تھے ؎
تاریکی سے خوف نہ کھاؤ ٭ رات ڈھلے گی دن نکلے گا
پہلے سوتی تھی چین سے دنیا ٭ اب کوئی بے خبر نہیں سوتا
روشنی بانٹنے کی چاہت میں ٭ اک دِیا رات بھر نہیں سوتا
ہم تو مکر و دَغا نہیں کرتے ٭ آپ کرتے ہیں یا نہیں کرتے
ڈھول بہت بے شرم ہے بھائی ٭ جانے کس کا چرم ہے بھائی
خواجہ جاوید اختر میں بھی ٭ شعر و سخن کا جر َ م ہے بھائی
تنگ پڑتی ہے زمیں لاکھ تو پڑنے دیجئے ٭ آسماں دیکھئے تا حدِ نظر میرا ہے
وہ دیکھنے میں بظاھر تو پھول ایسا ہے ٭ چبھے گا چھو کے تو دیکھو ببول ایسا ہے
خواجہ جاوید ؔاختر باظرف ادبی شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی شرافت ، خوش مزاجی اور خوش گفتاری کا زمانہ قائل رہا ہے۔ موصوف ایک زندہ دل شخص، زندہ دل دوست اور زندہ دل شاعر تھے جن کے پاس اپنے محبوب کے لیے دھڑکتا ہوا ایک حساس دل کا نرم گوشہ بھی تھا۔ لہذا ان کی شاعری میں عشقیہ رنگ کی موجودگی کم ہی سہی لیکن کم زور یا عنقا نہیں ہے۔ جن ناقدین ِ ادب کی نظروں میں خواجہ جاوید کے یہاں عشقیہ رنگ کی کمی شدت سے معلوم ہوتی ہے ،اُن کے لیے دلیل کے طور پر زیر نظر اشعار پیش کیے دیتا ہوں ؎
جان نہ دیتا تو کیا کرتا ٭ اور نہیں تھا چارہ کچھ
لمحوں میں کرسکتا تھا ٭ میرا ایک اشارہ کچھ
کچھ تو ہے بے قراری مجھ کو ٭ اور اس کو بھی بے کلی کچھ ہے
ایک دل کو سکوں نہیں ملتا ٭ ورنہ کہنے کو یوں سبھی کچھ ہے
لگاتے ہیں چکر ہم ان کی گلی کا ٭ کبھی شام ڈھلتے کبھی خوب تڑکے
وہ چلمن سے اپنی تو کم دیکھتے ہیں ٭ وہی جن کو حسرت سے ہم دیکھتے ہیں
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خواجہ جاوید ؔ اختر میں ناقابل فراموش شخصیت کے اوصاف و اختصاص تھے۔ وہ جہاں دوستوں کے دوست تھے وہیں محفلوں کی جان بھی تھے۔ اکثر و بیشتر بزم کو زعفران زار کر گزرنے میں اہم جزوِ ثابت ہوتے۔ انہیں تعلقات کو بنانے اور نباہنے کے ہنر میں مانند ِ ید طولیٰ مہارت حاصل تھی۔ اپنی خوش اخلاقی، دوست نوازی اور جذبہ ٔ ایثار کی بِنا پر وہ بیک وقت متضاد ادبی خیموں میں یکساں معتبر و مقبول تھے۔بغیر کسی زعم کے وہ بڑوں کو Respect اورچھوٹوں کو Accept کرنا بھی خوب جانتے تھے۔ متذکرہ رنگ اور آہنگ میں بھی ان کے اشعار جا بجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر ذیل کے اشعار سے محظوظ ہوں ؎
چین ترک ِتعلق میں ہے ٭ جانتا ہوں میں پر نہیں ہوتا
ہمیں دیکھتی ہے حقارت سے دنیا ٭ محبت سے دنیا کو ہم دیکھتے ہیں
جو مختلف تھے ساتھ ہیں میرے ٭ کچھ کشش ہے میری زبان میں کیا
زمانہ تھا کہ ہم اک دوسرے پر جان دیتے تھے ٭ کہاں کوئی کسی پر آج کل قربان ہوتا ہے
نبھانا کس قدر مشکل ہے اب رسم ِ محبت بھی ٭ زباں سے یوں تو کہہ دینا بہت آسان ہوتا ہے
شعر و سخن کی مشاقی میں خواجہ جاوید ؔ اختر کے اسلوب کا کیا کہنا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں لاجواب صنعتیں استعمال کیں اور تکرارِ لفظی سے قابل ِ رشک کام لیا۔ ان کی شاعری میں فکری عناصر بھی بہتر و بیشتر ملتے ہیں۔ ان کے بعض اشعار اس کی تمثیل ہیں۔ ملاحظہ کریں ؎
سلیقے سے ہم بات کر تے ہیں ان سے ٭ جنہیں گفتگو کا سلیقہ نہیں ہے
تجھے چھونا کسی صورت مرے بس میں نہیں ٭ تری صورت تصور کو ترے چھوکر بناؤں گا
نازک خیالی ، ندرت اظہار اور معنی آفرینی کی خصوصیت، جو ان کی شاعری میں ہے، اس عمر میں دوسروں کے یہاں بہت کم پائی جاتی ہیں۔ بعض شعراء کا ایک شعر یا ایک ہی مصرع اسے زندہ رکھنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ اس پس منظر میں خواجہ جاوید ؔ اختر کا زیر نظر شعر دیکھیں ؎
بھروسا بہت ہے مجھے زندگی پر ٭ مگر زندگی کا بھروسا نہیں ہے
لفظوں کو سلیقے سے برتنا ایک فن ہے۔ اس فن میں مہارت مسلسل ریاضت سے ہی ممکن ہے۔ خواجہ جاوید ؔ کی شاعری میں یہ فن بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ عظیم ناقد ، محقق، شاعر اور ادیب شمس الرحمن فاروقی صاحب نے خواجہ جاوید ؔ اختر کی کتاب کے پیش لفظ (جسے بعدہ ْ محترم نے اپنی کتاب “تفہیم نو” میں بھی شامل کیا) میں لکھا ہے “وہ باتوں باتوں میں چبھتی ہوئی بات کہہ جاتے ہیں جو عقل مندی سے بھرپور ہوتی ہے، کم عمری کے باوجود ان کی انداز گفتگو میں تجربہ کار بوڑھوں جیسی کیفیت ہے۔” (نیند شرط نہیں، خواجہ جاوید اختر کی غزل، ص:14)مثال کے طور زیر نظر شعر ہیں ؎
سر اٹھائے ہوئے جو شجر ہے میاں ٭ اس پہ آندھی کی گہری نظر ہے میاں
اتنا اکڑ کے چلتے ہو پھر کیوں زمین پر ٭ تم سیدھے آسماں سے اتارے نہیں گئے
ہم بھی کسی کی زلف گرہ گیر کی طرح ٭ الجھے ہیں اس قدر کہ سنوارے نہیں گئے
آبرو سلامت ہے جھک کے چلنے والوں کی ٭ آسماں نظر اپنی ٹوپیاں سنبھالے ہیں
خواجہ جاوید ؔ اختر کلکتہ کے مضافاتی علاقہ کانکی نارہ (مغربی بنگال) میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ کی گداز علمی وادبی فضا میں ہائرایجوکیشن کی حصولیابی کے بعد الہ باد کے ہو کر رہ گئے۔ یہاں انہیں قدآور ادیب و شاعر اور محقق شمس الرحمن فاروقی صاحب کی صحبت نصیب ہوئی، اس سے خواجہ جاوید ؔ اختر کی ادبی فہم و فراست کو کافی تقویت اور جلا ملی۔موصوف اپنی متحرک و فعال ہستی و طرزِ زندگانی کی ترجمانی ذیل کے شعر میں کچھ یوں کرتے ہیں ؎
ٹوٹنا اور بکھرنا الگ بات ہے ٭ کچھ ستارے مسلسل سفر میں رہے
تعلق ہے ہمارا مغربی بنگال سے جاوید ؔ ٭ مگر ہم اک مدت سے الٰہ باد رہتے ہیں
ہمارے ساتھ اٹھنا بیٹھنا یوں ہی رہا تو پھر ٭ تمہیں ہم آدمی سے ایک دن انسان کر دیں گے
اس شعر کے خالق خواجہ جاویدؔ اختر اب اس دارِفانی میں نہیں ہیں لیکن آج بھی ارباب سخن کے دلوں میں زندہ و جاوید ہیں۔اہل ارباب و سخن کو یاد ہے اور قارئین ِ شعرو ادب پیش نظر مضمون کے عنوان سے باعلم ہو ہی چکے ہوں گے خواجہ جاوید ؔ اختر ماہ صیام کے عین تیسرے روز بتاریخ 13 جولائی 2013 کی شام پانچ بجے روزے کی حالت میں دفعتاََ اپنے چاہنے والوں کو داغ مفارقت دے گئے تھے۔ مگر وہ اخلاقی، ادبی اور اسپورٹس کی سرگرمیوں کے باعث مانند ِ تثلیث بیک وقت الہ آباد، کانکی نارہ اور علی گڑھ؛ میں مقبول ہونے کی وجہ سے اُن کی یادیں لوگوں کے دلوں میں ہنوز تازہ ہیں۔ بنگال سے دور دوسرے صوبوں تک اپنی شہرت کا جال بنانے والے مزید اپنے چاہنے والوں خبر رکھنے والے خواجہ جاوید ؔ اگر تادیر شعری کائنات میں رہتے تو اپنے معاصرین میں شہنشاہ غزل ہونے سے انہیں روکنا حاسدوں اوربدنظروں کو بھی بہت مشکل ہوتا۔ اس بات کی عکاسی و پیشنگوئی موصوف نے کچھ اس طرح کیا ہے ؎
رہتی ہے خبر سارے زمانے کی ہمیں بھی ٭ پھیلا ہے بہت دور تک جال ہمارا
ممکن ہے کہ بن جائیں شہنشاہ غزل ہم ٭ ویسے تو ارادہ نہیں فی الحال ہمارا
خوش گلوشاعر و ادیب کے ساتھ ساتھ خواجہ جاوید ؔ ایک بہترین فٹ بالر بھی تھے اور اسی بنیاد پر اسپورٹس کوٹے کے تحت ان کا داخلہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہوا تھا۔ علیگڑھ کے پر وقار تعلیمی، ادبی و علمی ماحول سے فیضیاب ہوتے ہوئے انہوں نے بی اے اور ایم اے کے امتحانات امتیازی نشانات سے پاس کیا۔ واضح ہو کہ جاوید بھائی نے انٹر یونیورسٹی فٹ بال ٹورنامنٹ میں بحیثیت کپتان اے ایم یو کو چمپیئن بھی بنایا تھا جو بطور یادگار آج بھی یونیوسٹی کے پتھر پہ کنندہ ہے۔موصوف کی شعری و ادبی خدمات پر” پریاگ بھارتیہ پریشد ایوارڈ” اور ” بہادر شاہ ظفر ایوارڈ” کے علاوہ سال 2006-07 میںکلکتہ کے وکٹوریہ میں ہندی ادبی، ثقافتی اور سماجی ادارہ ‘سمنوئے’ کے ذریعے خواجہ جاوید ؔ اختر کو” اکبر الہ آبادی ایوارڈ “بدست شری کیسری ناتھ ترپاٹھی (سابق اسپیکر اترپردیش اسمبلی اور سابق گورنر مغربی بنگال) نوازا گیا۔ خواجہ جاوید کی تخلیقات برصغیر کے چھوٹے بڑے معیاری رسائل میں شائع ہوا کرتی تھیں۔ علاوہ ازیں وہ نیشنل اور انٹرنیشنل مشاعروں میں شرکت بھی رہی۔ ان کا پہلا مشاعرہ 1986ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا یومِ جمہوریہ کا مشاعرہ تھا۔قابل ذکر بات ہے کہ 2010ء میں غالب اکیڈمی کے زیرِ اہتمام دہلی میں منعقد عالمی مشاعرے میں بحیثیت شاعر خواجہ جاوید ؔ کی بھی شرکت ہوئی تھی۔ ان کی شاعری بیک وقت ادب اور مشاعرہ دونوں جگہ مشترکہ تھی مگر انہوں نے میعارِ شاعری سے کبھی سودا یا کھلواڑ نہیں کیا۔ مشاعروں میں بھی ادب پیش کرنے والوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ اپنی مترنم آواز میں غزل و گیت پڑھ کر ایک مدہوشی کا سماں باندھ دیتے تھے۔ ان کا ایک گیت جو بہت مقبول ہوا تھا، اس کے بول یہ ہیںـ ؎
میری گوری تو ذرا سا میرا کہنا تو مان ٭ کئی برسوں کے بعد تیرا آیا مہمان
ان کا آخری مشاعرہ کلکتہ ( بیلگچھیا ) کا آل انڈیا مشاعرہ تھا جو “روح ادب” کے مدیر اعلیٰ عبداللہ سنجر کی صدارت اور خواجہ جاوید ؔاختر کے اعزاز میں تھا۔ اس مشاعرے میں ان کے ساتھ بحیثیت شاعر ان کے برادر کبیر خواجہ احمد حسین، احمد منیر اور پروفیسر معید رشیدی بھی مدعو تھے۔ معاصرین شعر و ادب کے درمیاں سے دفعتاََ ہمیشگی کے لیے اوجھل ہوجانے والے خواجہ ایسے شاعر تھے، جس شاعر کی شعری سورج کی تاب سے اچھے اچھے آب مانگتے ہوں۔ اس کا اچانک غروب ہو جانا، شعری و ادبی دنیا کے لیے بڑا خسارہ ہے۔ بقول خواجہ جاوید ؎
سمجھ سکا نہ آج تک کہ کیا ہوں میں ٭ ہوا کے دوش پہ جلتا ہوا دیا ہوں میں
ہم اپنے وقت کے بالا بلند سورج تھے ٭ غروب ہوگئے کس طرح درمیان سے ہم
کبھی جب ہاتھ میں ہم میر کا دیوان لیتے ہیں ٭ تو پھر اوقات اپنی خود بخود پہچان لیتے ہیں
مندرج بالا دلائل کی شکل میں غزل کے اشعار کے کیا کہنے، جس سے خواجہ جاوید ؔ اختر کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کی زبان و بیان میں سادگی و سلاست ہے۔ موضوع زبان وبیان، ایجاز و اختصار، کثرت وعلامات، تشبیہات و استعارات کے ذریعہ خواجہ جاوید اختر نے اپنی شاعری کو خوب نکھارا ہے۔ کل 113 غزلوں پہ مشتمل ان کی اکلوتی تصنیف “نیند شرط نہیں” پڑھنے کے بعد میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ اچھی شاعری کی ان میں کا فی روشن امکانات تھے لیکن وقت نے انھیں ہم سے چھین لیا۔ خواجہ جاوید ؔ اختر کو شعر و ادب کے کسی مخصوص خانہ میں مقید کرنا مناسب نہیں۔ لیکن ذیل کے اس شعر کے حوالے سے موصوف خود ہی اپنی شناخت جدید شعرا کی فہرست میں کروانے کے متمنی نظر آتے ہیں۔ حالانکہ ان مصرعوں میں ذرا سا تعلّی کا رنگ بھی ابھر کر سامنے آ رہا ہے ؎
فاروقی کو دیکھو تو علم کا ایک سمندر ہے
عادل اور علوی کے بعد خواجہ جاوید ؔ اختر ہے
چل کے ذرا دیکھیں تو کیا ہے آخر اس منظر کے پیچھے
نئی نسل کے سارے شاعر ہیں جاوید اختر کے پیچھے
یہ انکشاف کرتا چلوں کہ قدآور صحافی وہاب اشرفی کی ادارت میں پٹنہ سے شائع ہونے والا رسالہ “مباحثہ” (ریختہ کے مطابق جس کا اشاعتی سفر ایک دہائی پر محیط ہے) کے 28 ویں شمارہ برائے اپریل تا ستمبر 2007 میں خواجہ جاوید ؔ اختر کی 20 غزلیں انتخابِ تبصرہ ہوئیں۔ مقبول زمانہ مبصر ڈاکٹر و پروفیسر علیم اللہ حالی، بہار مخصوص رسالے کے صفحہ دس پر لکھتے ہیں “اس بار خواجہ جاوید ؔ اختر کی 20 غزلیں شائع کی جا رہی ہیں۔ خواجہ جاوید ؔ ایک ایسے شاعر ہیں جن پر نگاہ پڑنی چاہئے۔ اس سے ان کے جوہر کی شناخت ممکن ہے۔ ہر غزل کا کوئی نہ کوئی شعر متاثر کئے بغیر نہیں رہتا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خواجہ جاوید جلد ہی ہند و پاک کے ایک اچھے شاعر تسلیم کیے جائیں گے۔” ۔(رسالہ مباحثہ،پٹنہ، ص:10 )
خواجہ جاوید ؔ کی کم عمری میں اچانک رحلت سے ادبی دنیا نڈھال ہوئی۔ مرحوم کی شعری و ادبی خدمات نیز فن و شخصیت کے مدنظر ڈاکٹر نعیم انیس(صدر شعبہ اردو، کلکتہ مسلم گرلز کالج) نے ان کے فن و شخصیت پر ایک ضخیم کتاب”خواجہ جاوید ؔ اختر: خواب اور خواب گر” مرتب کی ہے نیز اپنی ادارت میں دی مسلم انسٹیٹیوٹ کا ترجمان جریدہ “پرواز” کے 12ویں شمارے کو خصوصی طور پر خواجہ جاوید اختر سے منسوب کیا۔ مزید ڈاکٹر خورشید اقبال نے اولین آن لائن اردو میگزین “کائنات” میں خواجہ جاوید اختر پر ایک ڈیجیٹل گوشہ شاملِ شمارہ کیا تھا، جس میں راقم الھروف کا بھی مضمون شامل تھا۔ الہ آباد کے صحافی و شاعر بشارت خان عاقل نے اپنے ہندی ماہنامہ رسالہ “پروانچل پتِھک” کے اگست -2013 کے خصوصی شمارے کو مرحوم خواجہ جاوید کے نام “آہ! میرا بھائی: خواجہ جاوید ؔ اختر” کے عنوان سے منسوب کیا۔ خواجہ جاوید کہتے ہیں ؎
جانے کب آ کے وہ دروازے پہ دستک دے دے ٭ زندگی موت کی آہٹ سے ڈری رہتی ہے
جو فرصت ہو تو ہم سے بھی ملا کر دیکھ لے نظریں ٭ تری آنکھیں چرالیں گے تجھے حیران کر دیں گے
امید قوی ہے کہ خواجہ جاوید ؔ اختر کا انتخابِ لفظیات، فکریات اور ادبی و شعری تخیل ناقدانہ ادب کو ضرور متوجہ کریں گے۔ نیز موصوف کی تخلیقات اور ان کے فن پارے کو اہل نظر، اہل سخن اور اہل علم و ادب اپنی تنقید و تحقیق کا موضوع بنائیں گے۔
نوٹ:مضمون میں بیشتر اشعار اور حوالے خواجہ جاوید اختر کی کتاب “نیند شرط نہیں “سے لیے گئے اور دو چند اشعار ، ریختہ، مباحثہ،گوگل، ریختہ اور یوٹیوب سے بھی ماخوذ ہے۔